sahafat brae frokht

صحافت برائے فروخت۔۔

تحریر: کنورفہیم۔۔

صحافت پیغمبروں کا پیشہ اور  کسی بھی معاشرے میں حکومتی اداروں کے ساتھ صحافت چوتھا ستون تصور کی جاتی ہے صحافت کی ترقی دراصل جمہوریت پسند معاشروں کی نشانی ہے جن میں اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ پسماندہ و محکوم طبقات  کو حقوق دلانے میں ایک صحافی کا کردار اہم ہوتا ہے مگر  اب یہ معاشرے کا مضبوط ستون گرتا جا رہا ہے اور اس کو گرانے میں جہاں مالی مسائل دن بدن بڑھتے جارہے ساتھ ہی صحافتی اداروں نے بھی اس معیار کو گرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ وہیں ان پڑھ اور نان  پرفیشنل لوگوں کا شعبہ صحافت میں آنے سے اب یہ چوتھا ستون گرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔۔

 اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بغیر تصدیق کے نان پروفیشنل اور کم معیار تعلیم رکھنے والوں کو بطور صحافی بنا کر معاشرے میں چھوڑ دیا جاتا ہے  بڑے بڑے  شہروں کو چھوڑ کر دور دراز اضلاع کی  سطح پر صحافت کا معیار روز بروز مزید  گرتا جا رہا ہے اس گرتے معیار میں  ویب چینلز بھی خوب کردار ادا کر رہے ہیں ۔

ضلع اور تحصیل  کی سطح پر  صحافت کا معیار یہ رہ  گیا ہے کہ پیسے دو اور مائیک لو اور شروع ہو جاو۔اس کی سب سے تازہ مثال خانیوال میں ایک ایم پی اے صاحب کو نامور اخبار میں نمائندگی دینا ہے ۔جس کے خلاف بھی خبر لگانی ہے یا کسی بھی شعبے کو سپورٹ کرنی ہو یا پھر کسی کو ڈھال دینی ہو تو ایسے صحافی ہر دم حاضر باش پائے جاتے ہیں  ۔

 مزید تباہی اخبارات کر رہے  ہیں کسی بھی نان پروفیشنل شخص کو پیسوں کے بل بوتے پر کسی اخبار کی نمائندگی  بآسانی مل جاتی ہے جتنا گڑ اتنا میٹھا یعنی جتنے زیادہ پیسے اس لیول کا اخبار آپ کا کارڈ تیار کر کے بیٹھا ہوا ہے

اس دیکھا دیکھی میں اب تو ٹی وی چینلز بھی پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت روز بروز پیلی یعنی زرد ہو کر زردے کی چاولوں جسی ہو گئی ہے جس کے ذائقے کو ہر نان پروفیشنل صحافی چکھنا چاہتا ہے

 صحافتی میدان میں اب کوئی نہیں جو اس کو ماضی کے معیار پر دوبارہ  زندہ رکھے بس اب تو چند نامور چینلز باقی بچ گئے ہیں جو اپنے نمائندگان کو تنخواہیں بھی دے رہے ہیں اور پروفیشنل لوگوں کو نمائندگی دیتے ہیں باقی سب کا ایک ہی حال ہے ۔

 کچھ علاقوں  میں ایسے لوگ جو کہ جوئے سمیت دیگر جرائم کی وارداتوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں جو پیسے دے کر کسی نا کسی چینل کے رپورٹر بن جاتے  ہیں ۔ اسی وجہ سے اب صحافت کا معیار گرتے گرتے  کسی کنواں کے اندھیر میں جا گر ہے ۔

جب سے سمارٹ فون  آئے ہیں آپ کو کاپی پیسٹ والے صحافی ان گنت ملیں گے یہ لوگ  اتنی جلدی خبر کا کاپی کرتے ہیں کہ آپ بھی حیران ہوں گے کہ یہ خبر آپ ہی کی ہے ۔ان سب کے باعث کام کرنے والے اور پڑھے لکھے صحافی اب صرف اپنے دفاتر تک محدود رہ گئے ہیں ۔

آخر ایسا کب تک چلے گا کیوں صحافت کو ابدی نید سلایا جا رہا ہے کب ادارے کوئی ایسی پالیسی بنائیں گے کہ پڑھے لکھے افراد کو نمائندگی دیں اور پیسے لانے والوں کو اس پیشے سے دور کریں گے اس کے لیے مالکان کو جلد کچھ نا کچھ کرنا ہوگا ورنہ وہ وقت بھی آئے گا کہ ان کے پاس کچھ نا بچے گا سوائے کباڑے خانے کے کچرے کے ۔۔(کنور فہیم )

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں