تحریر: شاہد کاظمی
’کیا آپ کا تعلق کسی ٹی وی چینل سے ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ مگر ان کا جواب نفی میں تھا۔ ’’تو کیا پھر آپ کسی اخبار سے منسلک ہیں؟‘‘ میں نے اُلجھے ہوئے لہجے میں دوبارہ سوال کیا۔ لیکن کسی بھی روزنامے، ہفت روزہ، ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی، سالانہ اخبار، رسالے، جریدے یا کسی اور صحافتی ادارے سے کسی بھی تعلق کی صاحب نے صاف الفاظ میں نفی کر دی۔
مجھے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا اس لیے لگا کہ ان کے بٹوے سے کارڈز کا ایک ڈھیر گرا تھا، جسے اب وہ سنبھال رہے تھے۔ اور ان میں مختلف روزناموں، ہفت روزہ، رسائل و جرائد سے وابستگی کارڈز کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے بھی بہت سے چینلز کے کارڈز شامل تھے۔ بیشتر نام تو یقینی طور پر غیر معروف تھے اور ہو سکتا ہے کچھ کا وجود بھی نہ ہو، لیکن کچھ اخبارات اور چینلز ایسے تھے جن کا نہ صرف وجود تھا بلکہ لوگ ان سے شناسائی بھی رکھتے تھے۔ مزید حیرت کی بات یہ کہ وہ صاحب اگر ایک اخبار کے رپورٹر تھے تو دوسرے اخبار کے بیورو چیف، ایک جانب عہدہ اسسٹنٹ کا تھا تو دوسری جانب کرائم رپورٹر کا۔ کسی کارڈ پر ان کے نام کے آگے سر لکھا تھا تو کسی میں سادہ سا نام تحریر تھا۔ کسی کارڈ کا رنگ نیلا تھا کسی کا پیلا۔
کچھ کارڈز تو اتنے اچھے بنے ہوئے تھے کہ ان پر تصویر کمپیوٹرائزڈ لگی ہوئی تھی اور کچھ پر پاسپورٹ سائز تصویر انتہائی بھونڈے انداز میں لگائی گئی تھی۔ ذہن الجھن کا شکار تھا کہ اگر صاحب صحافی نہیں تو اتنے سارے کارڈز ان کے نام کے ساتھ کیسے منسوب ہوگئے۔
’’اگر آپ صحافی نہیں تو پھر یہ اتنے پریس کارڈز کیسے بن گئے آپ کے؟‘‘ میرے سوال پر انہوں نے ایک بلند قہقہہ لگایا اور ایسے حیرت سے میری طرف دیکھا جیسے میں نے کوئی ایسا سوال کر دیا ہو کہ جیسے ایک دیہاتی شہر آتے ہی اونچی عمارتیں دیکھ کر پوچھ بیٹھا ہو: کیا زمین میں نصب یہ اونچے سے کھمبے کیا ہیں۔ ’’ارے جناب آپ کس دیس میں رہتے ہیں۔ یہ تو آج کل کے دور کی ضرورت ہے۔ پیسہ ہو تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اور آج کل کے دور میں پریس کارڈز بہت ضروری ہیں۔ بہت سے کام نکلوانے پڑجاتے ہیں۔ آپ میری گاڑی میں جا کر دیکھیے، آپ کو ایک دو مائیک اور وہ بھی لوگو کے ساتھ نظر آئیں گے،‘‘ وہ صاحب جیسے جیسے کہے جا رہے تھے، راقم الحروف جیسا پارٹ ٹائمر، خود کو صحافی سمجھنے والا، سالہا سال سے صفحات کالے کرنے والا احساس کمتری کا شکار ہوتا چلا گیا کہ یہاں صورت حال یہ کہ ایک آدھ کارڈ جو بن پایا، وہ بھی اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد کہ عقل ٹھکانے آ گئی۔ اور دوسری جانب کارڈز کا انبار ہے اور صحافتی دنیا میں قدم رکھے بنا۔
’’تو یہ کارڈز کیسے بنتے ہیں؟‘‘ میں نے اگلا سوال کیا۔ ’’اس کے لیے مختلف قواعد و ضوابط ہیں۔ اگر تو آپ صرف پریس کا ٹیگ لگانا چاہتے ہیں تو پھر کسی بھی غیر معروف اخبار، چینل کا کارڈ چند سو روپے میں بن جائے گا۔ اور اگر آپ کسی حقیقتاً شائع ہونے والے اخبار، یا کسی علاقائی چلنے والے چینل کا کارڈ بنوانا چاہتے ہیں تو یہی رقم چند ہزار تک ہو سکتی ہے۔ اورآپ کا کارڈ بن جائے گا۔‘‘
ان صاحب نے جو قواعد و ضوابط بتائے، ان کے مطابق تو شاید پاکستان میں ہر پیسے والا صحافی کہلا سکتا ہے۔ یا ہر وہ شخص صحافی کہلوانے کا حقدار ٹھہر سکتا ہے جو چند سو روپے دینے کی سکت رکھتا ہے۔
’’کیا آپ نے کبھی کوئی کالم، خبر، فیچر، اسٹوری اخبار میں لگائی ہے، یا پھر کسی چینل کےلیے رپورٹ بنائی ہے؟‘‘ دوبارہ اس سوال پر قہقہہ بلند ہوا۔ ’’محترم رپورٹ یا خبر تو دور کی بات میں نے تو آج تک کسی اخبار یا ٹی وی کے دفتر تک میں قدم نہیں رکھا۔‘‘ اب مجھے اُن صاحب کا قہقہہ اپنی ذات پر اس طرح محسوس ہوا کہ جیسے ان کے قہقے میں پیغام چھپا ہو عملی صحافت میں کام کرنے والوں کےلیے کہ تم لوگ تو بس جھک مار رہے ہو ورنہ یہاں تو صحافت برائے فروخت کا بورڈ ہر جگہ لگا ہوا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک نجی اسکول کے پرنسپل کو ایک چینل کے نمائندے نے رابطہ کرکے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی خبر چینل پر چلانے کی دھمکی دی؛ اور ساتھ کچھ پیسے بھی اینٹھ لیے۔ وہ پرنسپل کچھ پیسے گنوانے کے بعد ہوش میں آئے۔ انہوں نے اس معاملے کا تذکرہ ایک باقاعدہ پروفیشنل صحافی سے کردیا۔ انہوں نے جب اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ایک کوٹھی میں قائم اس چینل کے دفتر کی شکایات پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ اور چینل انتظامیہ نے ان کو اپنا نام استعمال کرنے کی بھی اجازت دی ہوئی ہے، اس شرط پر کہ کچھ خود لو، کچھ ہمیں دو۔ باقی اس چینل پر اس مذکورہ دفتر کے حوالے سے نہ آج تک کوئی خبر نشر ہوئی ہے نہ اس دفتر کے روح رواں افراد میں سے کوئی بھی باقاعدہ صحافی تھا، اور نہ ہی کوئی صحافتی تجربہ رکھتا تھا۔
بلکہ ایک صاحب تو پرچون کی دکان چلاتے چلاتے صحافی بن بیٹھے۔ معاملہ بڑھا، پولیس نے دھر لیا، منتوں ترلوں سے پرنسپل سے معاملات طے ہوئے اور جان خلاصی ہوئی۔
یہ پاکستان کا المیہ ہے۔ یہاں ہر شعبے میں اتائیوں کی بھرمار ہے۔ جعلی پولیس والے، جعلی ڈاکٹر، جعلی انجینئر، جعلی اساتذہ، جعلی تاجروں کے بعد اب جعلی صحافیوں کو بھلا کہاں پیچھے رہنا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ پچھلے بیس سال کے دوران پاکستان میں ایک منڈی لگ گئی، اخبارات اور چینلز کی۔ اس منڈی میں نہ تو یہ دیکھا گیا کہ معیار کس چڑیا کا نام ہے اور نہ ہی ملحوظ خاطر رکھا گیا کہ معیاری صحافت کسے کہتے ہیں۔ نتیجتاً کھمبیوں کی طرح اگنے والے اخبارات و چینلز کو اپنا وجود برقرار رکھنے کےلیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے کارڈز کی سیل لگا دی۔
عرصہ پہلے آخری نمبروں پر چلنے والے ٹی وی چینل پر ایک پٹی چل رہی تھی کہ نمائندگان کی ضرورت ہے۔ رابطے کے لیے فون نمبر اور ای میل ایڈریس بھی دیا گیا تھا۔ فون کیا، رضامندی ظاہر کی گئی۔ معاملات کچھ آگے بڑھے تو کہا گیا آپ کو ہم بیوروچیف بنا دیتے ہیں۔ لیکن اس کےلیے آپ کو دو لاکھ روپے بطور زر ضمانت جمع کروانے ہوں گے۔ یعنی اس چینل کا نام اور لوگو استعمال کرنے کے صرف دو لاکھ اور پھر آپ چاہے سیاہ کریں چاہے سفید۔
کیا صحافت کوئی سیل کا مال ہے کہ جس کا دل چاہے چند روپے خرچ کرکے صحافی بن جائے؟ کیا صحافت کےلیے کوئی قابلیت و معیار باقی نہیں رہ گیا کہ پرچون کی دکان چلانے والا بھی صحافی، ویلڈنگ کا کام کرنے والا بھی صحافی، ریڑھی بان بھی صحافی، ٹھیکیدار بھی صحافی، سیٹھ بھی صحافی، ہرکارہ بھی صحافی، کپڑے کا بیوپاری بھی صحافی، مویشی منڈی کا نمبردار بھی صحافی، اتائی ڈاکٹر بھی صحافی، طوطا فال نکالنے والا بھی صحافی، پراپرٹی ڈیلر بھی صحافی، فیکٹری کا مالک بھی صحافی۔
اگر معیار یہی رہ گیا ہے کہ صحافت بس چند سو روپوں میں فروخت ہونی ہے تو پھر درس گاہوں سے صحافت کی ڈگریاں بھی ختم کروا دیجیے اور عام کر دیجیے صحافت کی لوٹ سیل، جہاں ’’ہر چیز ملے گی دو آنے‘‘ کا بینر لگا دیجیے۔(بشکریہ ایکسپریس)