تحریر: سید بدرسعید۔۔
میں نے بولنے اور چلنے سے پہلے اخباری کاغذ کی خوشبو محسوس کی تھی ۔ والد محترم اس وقت کے معروف اخبار پاکستان ٹائمز میں ملازمت کرتے تھے ۔ ہمارے گھر دو اخبارات آتے تھے ۔ ایک اخبار گھر کے سب افراد پڑھتے تھے ۔ دوسرا اخبار صرف میرے لیے آتا تھا ۔ میں اس اخبار سے اس وقت تک کھیلتا رہتا تھا جب تک وہ بری طرح پھٹ کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہو جاتا تھا ۔ گھر والے بتاتے ہیں یہ میرا سب سے پسندیدہ کھیل تھا ۔ اخباری کاغذ کی مہک میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے میرے وجود میں رچی بس گئی تھی ۔ کچھ بڑا ہوا تو میں نے پڑھنا بعد میں سیکھا پہلے رسالوں کے کاغذ کی خوشبو محسوس کی تھی ۔ والد محترم نے میرے سکول داخل ہونے سے قبل ہی گھر پر بچوں کے دو تین رسالے لگوا دیے تھے۔ یہ رسالے میرے نام پر آتے تھے ۔ اس عمر میں ڈاکیہ جب میرا نام لے کر آواز لگاتا تو احساس ہوتا تھا کہ یہ اخبارات اور رسائل میری ملکیت ہیں ۔ اباجی اور ماں جی مجھے روز ان رسالوں سے کہانیاں پڑھ کر سناتے تھے ۔ شاید کہانی انہی دنوں میری شخصیت کا اٹوٹ انگ بن گئی تھی۔ یہ کہانی اور اخباری کاغذ کی مہک کچھ اس طرح سے مجھ میں جذب ہوئی کہ ایک وقت آیا ۔ میں نے میڈیکل میں داخلہ لینے کی بجائے ماس کمیونیکیشن کا انتخاب کیا ۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ پاگل پن تھا لیکن شاید اخبار اور کہانی آپ کو پاگل کر دینے کی طاقت رکھتی ہے ۔ مجھے اعتراف ہے کہ قلم قرطاس اور کہانی سے میرا تعلق جوڑنے میں سو فیصد ہاتھ میرے والدین کا تھا ۔ میری پہلی نظم ، پہلی کہانی ، پہلے مضمون اور پہلی رپورٹ پر مجھے پہلی تھپکی والدین کی جانب سے ملی تھی ، آج والدین شکوہ کرتے ہیں کہ بچے کتب کی جانب نہیں آتے تو میں سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ نے اپنے ڈرامے اور پارٹیز چھوڑ کر بچوں کو کہانی سنائی تھی ؟
کچھ عادتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں ۔ کچھ کام خون کی تاثیر سے ہوتے ہیں ۔ اب میں ایک چھ ماہ کے بچے کا باپ ہوں ۔ گھر میں ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے ۔ ہمارے گھر اب پھر دو اخبار آتے ہیں ۔ ایک اخبار ہم سب پڑھتے ہیں ۔ دوسرا اخبار میرے چھ ماہ کے بیٹے داؤد شاہ کی ملکیت ہوتا ہے ۔ وہ اسی طرح اخبار سے کھیلتا ہے اور پھر اس کے کئی ٹکڑے کر دیتا ہے ۔ میرے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر کئی کتب موجود رہتی ہیں ۔ ایک آدھ کتاب سرہانے تلے دبی ہوتی ہے ۔ بیڈ پر داؤد شاہ کے لیے الگ اخبار موجود رہتا ہے ۔ وہ روئے تو اخبار ملنے پر چپ ہو جاتا ہے ۔ آج عید تھی ۔ داؤد شاہ کا اخبار کہیں آگے پیچھے ہو گیا ۔ وہ رونے لگا تو بیگم کہنے لگیں ۔اخبار نہیں مل رہا ، آپ کے اس ڈاءجسٹ کا ایک صفحہ پھاڑ کر داؤد کو دے دوں؟ اس جملے سے مجھے احساس ہوا کہ میرا ولی عہد میری طرح اخبار اور کتابوں کی مہک اپنے اندر جذب کرنے لگا ہے ۔ یہ خوبصورت احساس ہے کہ یہ وراثت ہماری چوتھی نسل میں منتقل ہو رہی ہے۔ داؤد شاہ کی اخبار سے اس دوستی میں بھی ابا جی کا اہم کردار ہے ۔ میرے دادا مرحوم بھی کالم لکھا کرتے تھے ، والد صاحب اخبار کی ملازمت کرتے رہے ، میں اور میرا چھوٹا بھائی بھی میڈیا انڈسٹری کا ایندھن بنے لیکن اب میری خواہش ہے میرا بیٹا صحافی نہ بنے ۔ صحافت وہ رہی ہی نہیں جس کے ہم اسیر تھے ۔ میں نہیں چاہتا میرا بیٹا سیٹھ کی منشی گیری کرے ۔ کمرشل صحافت میں اب سیٹھ کی منشی گیری کے سوا بچا ہی کیا ہے ؟ لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ ہماری اگلی نسل کا کاغذ اور قلم سے رشتہ برقرار رہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ داؤد شاہ کو سوچنے اور سمجھنے کا شعور عطا ہو ۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ کسی کی سوچ کے تابع ہونے کی بجائے اپنے ذہن سے سوچنا سیکھے ۔ وہ تخلیقی صلاحیتوں اور مضبوط فیصلوں کا حامل بنے ۔ میری خواہش ہے کہ وہ اپنے لیے جس بھی شعبے کا انتخاب کرے لیکن زندگی میں کم از کم ایک کتاب ضرور لکھے ۔ میرا ارادہ ہے کہ جس طرح میرے والد محترم نے مجھے سکول داخل کروانے سے پہلے بچوں کے رسائل سے آشنا کروایا اسی طرح میں بھی دو سال بعد داؤد شاہ کے لیے گھر پر ماہانہ رسائل لگواوں گا ۔ وہ پڑھنا بعد میں سیکھے گا ، پہلے کہانی اس میں جذب ہو گی، کیونکہ ہم سب بھی کسی نہ کسی کہانی کا ہی ایک کردار ہیں لہذا ہمیں کہانی میں اپنا کردار بہتر انداز میں نبھانا تو آنا چاہیے(سید بدر سعید )