kia sahafion ko fake news ki ijazat milni chahiye?

صحافت اب پیچھے رہ جائے گی۔۔

تحریر: سید بدرسعید۔۔

نیو میڈیا وقت کے ساتھ ہی میچور ہوتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ ہم اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔ اسی مملکت خداداد میں ہم نے گستاخانہ ویڈیو  کو بنیاد بنا کر یوٹیوب پر پابندی لگائی تھی لیکن یوٹیوب دوبارہ اتنی شدت سے آئی کہ اب پاکستانیوں کے یوٹیوب پر جتنے اکاونٹ ہیں اس وقت اس سے آدھے بھی نہ تھے ۔ ہمیں یوٹیوب پر پابندی ہٹانی پڑی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یوٹیوب پر پابندی لگانا عشق رسول ص تھا تو کیا پابندی ہٹانا کمزور ایمان کی علامت ہے ؟ اسی یوٹیوب پر مولانا خادم رضوی ، طارق  جمیل سمیت دیگر اکابرین بھی ہیں ۔ ماضی میں جو مذہبی راہنما ٹی وی کو حرام قرار دے کر توڑ دیا کرتے تھے اب وہ خود ٹی وہ پر پورے اہتمام کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جب اخبار کے بعد نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو اخباری صنعت سے منسلک لوگ اسے پانی کا بلبلہ قرار دیتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا اخبار کی خبر مستند اور ریکارڈ  کا حصہ ہوتی ہے ، جب چاہو پرانی فائل سے خبر نکال کر دیکھ لو لیکن ٹی وی کی خبر گزر گئی تو سمجھو مر گئی لیکن بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ ٹی وی کی خبر بھی آرکائیو میں سے مل جاتی ہے ۔ ٹی وی نے پوری طاقت سے اخبار کو دیوار سے لگا دیا اور پھر ہم نے دیکھا جو دوست ٹی وی کا مذاق اڑاتے تھے وہی ٹی وی میں کام کرنے لگے ۔ مجھے یاد ہے جب سٹی 42 نے بطور سٹی چینل نشریات کا آغاز کیا تھا تو لوگ اس کی خبریں دیکھ کر ہنستے تھے ۔ تب َٹیکرز چلتا تھا کہ لاہور کے فلاں علاقے کی فلاں گلی سے موٹرسائیکل چوری ہو گئی یا فلاں گاڑی برائے فروخت ہے ۔ جس کونسلر کو کوئی پوچھتا نہ تھا اب اس کے بیان چلنے لگے ۔ اس قدر گراونڈ لیول کی خبریں دیکھ کر میڈیا انڈسٹری کے بابے ہنسا کرتے تھے کہ گلی کی خبر میں گلی کے سوا کس کی دلچسپی ہو گی لیکن پھر ایک وقت آیا کہ بیوروکریسی سے وزرا تک کے دفاتر میں ایک ہی چینل لگا ہوتا تھا اور اس کا نام سٹی 42 تھا کیونکہنیہ واحد چینل تھا جو نہ صرف ان کی کوریج کرتا تھا بلکہ ان سے متعلقہ مسائل ان کے سامنے لاتا تھا  ۔ یہ تجربہ اتنا کامیاب ہوا کہ دیگر اداروں نے بھی اپنے سٹی چینل شروع کر لیے جبکہ سٹی 42 کے مالک نے بھی یہ  دیگر شہروں کے لیے الگ سٹی چینلز شروع کر دیے ۔یہ ساری باتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر بار نیو میڈیا کا پہلے مذاق بنتا ہے لیکن پھر اس کی میچورٹی سامنے آنے لگتی ہے

 اب اخبار اور ٹی وی کا دور لد گیا ہے ، مارکیٹ میں نیو میڈیا کے طور پر سوشل میڈیا سامنے آ چکا ہے ۔ فیس بک ٹویٹر ، انسٹاگرام ، واٹس ایپ ، یوٹیوب ، ڈیلی موشن ، ٹک ٹاک ، لائیکی سمیت ایسے بھی کئی میڈیم ہیں جو ابھی پاکستان میں اتنے استعمال نہیں ہوتے لیکن بیرون ممالک ان کی دھوم ہے ۔ یہ نئے دور کا میڈیا ہے ، اس پر پابندی لگانے کا فیصلہ شاید کامیاب نہ  ہو کیونکہ بہتے پانی کا راستہ زیادہ عرصہ نہیں روکا جا سکتا ، اگر بہتے پانی کو روکیں تو یہ بنیادوں کو ہلا کر اپنا راستہ نکال لیتا ہے ۔ آپ کو آج ٹک ٹاکرز غیر سنجیدہ لگتے ہوں گے لیکن یہ تسلیم کیجیے کہ یہ بہت اچھے کمیونیکیٹر ہیں جو چند سیکنڈز میں اپنا میسج آپ تک پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ جس طرح پہلے جرنلزم تھی ، پھر ماس کمیونیکیشن آئی یا جیسے پہلے جرنلسٹ یا رپورٹر  تھا ، پھر میڈیا پرسن اور اینکرز آئے اسی طرح اگلا دور کمیونی کیٹرز کا ہے ، اگلے سالوں میں صحافت بہت پیچھے رہ جائے گی اور میڈیا کے نام پر کمیونی کیٹرز آ جائیں گے جن کا کام کمیونیکیٹ کرنا ہو گا۔ یہ آپ کو مختلف چیزوں کے بارے کمیونی کیٹ کریں گے ، ایک پیغام دوسری جگہ پہنچائیں گے ۔ فوڈ و دیگر انفوٹینٹمنٹ  پیکجز اسی کی ایک قسم ہے جو اردو پوائنٹ ، پاکستان ویب سمیت دیگر ویب ٹی وی پر نظر آ رہے ہیں ۔ سرکار نے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے ، شاید کچھ عرصہ ٹک ٹاک بند ہو جائے لیکن اب تک ملک میں جتنے کمیونی کیٹرز تیار ہو چکے ہیں ، کیا یہ اپنا کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں گے ؟ یہ ممکن نہیں ہے ، یہی سب آپ کو دیگر ایپس پر نظر آنے لگے گا. جو آپ ٹک ٹاک پر بند کروانا چاہتے ہیں  ۔ یہ وہ نشہ ہے جس کی وجہ سے ایک صحافی برے حالات میں بھی صحافت سے جڑا رہتا ہے ۔ یہ نشہ اب ملک کے لاکھوں نوجوانوں کو لگ چکا ہے ، سراہے جانے کا نشہ ، اپنے اندر ٹیلنٹ ہونے کا نشہ اور مشہور ہونے کا نشہ اس ملک میں پھیل چکا ہے ، شاید سرکار ایک ایپ بند کر رہی ہے لیکن کمیونیکیشن کا یہ سلسلہ اب  بند ہونا مشکل ہے ۔ یہ لوگ آپ کو راستہ بدل بدل کر نظر آتے رہیں گے اور اپنا کام کرتے رہیں گے (سید بدر سعید )

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں