تحریر: زاہدہ حنا
2018 رخصت ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں سالانہ جائزے شائع ہو رہے ہیں۔ ہم لکھنے والے ادب اور صحافت سے جڑے ہوئے ہیں، ہمیں ان لوگوں کی زندگی سے گہری دلچسپی ہے جو سر ہتھیلی پر رکھ کر سچ تلاش کرتے ہیں۔ اپنے خاندان اور دوستوں سے دور زندان میں زندگی گزارتے ہیں، عقوبتیں سہتے ہیں اور بہت سے جان سے چلے جاتے ہیں۔2018 کے اختتامی مہینوں میں جمال خشوگی کی پر اسرار گمشدگی اور پھر بہیمانہ قتل کی اطلاعات اور تفصیلات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ قتل، جس سفاکی سے کیا گیا، اس کی بازگشت ساری دنیا میں سنی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ قتل سیکڑوں اور ہزاروں برس پرانے اس قبائلی رویے کا عکس ہے، جس میں اب سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے حسین ابن علیؓ اور ان کے ساتھیوں کو ذبح کیا گیا اور پھر ان کی لاشیں گھوڑوں کے سموں سے روندی گئیں اور جب اس سے بھی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوئی تو عترت حسینؓ کا قافلہ بے چادر و مقنع سیکڑوں میل اس طور پھرایا گیا کہ اس کے آگے آگے سر حسین ؓ نیزے پر تھا اور یہ آوازہ لگایا جا رہا تھا کہ دیکھنے والو عبرت پکڑو، یہ ہمارے باغی کا سر ہے اور یہ ہے اس کا خانوادہ۔اس سے ہزاروں برس پیچھے چلے جائیں تو دیو مالائی کہانیاں ہیں جن میں سب سے دہشت ناک پرومی تھیس کا قصہ ہے جس نے رب الارباب زیوس سے اختلاف کیا، بے کس و بے بس انسانوں کو آگ فراہم کی جس سے انھوں نے زندگی کے مشکل مرحلے طے کیے۔ زیوس کے غیظ و غضب کی انتہا نہیں رہی، پرومی تھیس کو دیوتا کے حکم سے سر تابی کی سزا دی گئی، 30 ہزار برس تک وہ دو پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان پا بست رہا اور ایک گدھ دن میں اس کا کلیجہ نوچتا، رات کو شبنم اس کے زخموں پر مرہم رکھتی۔
حکومت وقت سے اختلاف رکھنے والے ادیبوں اور صحافیوں کا یہی عالم رہا ہے اور وہ سرکارِ والا تبار کے عتاب کا اسی طرح شکار رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ لکھنے والوں پر سزاؤں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور 2018 ایک ایسا سال ثابت ہوا جس میں صحافیوں کو جیل میں ڈالنے، غائب کر دینے اور قتل کر دینے کا سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ رپورٹرز بیانڈ بارڈرز کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے 80 صحافی قتل کیے گئے، 60 یرغمال بنائے گئے اور 348 زندانی ہوئے۔ صحافیوں کے بارے میں خبریں مہیا کرنے والی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد میں 2017 کی نسبت 15 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ تنظیم ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عالمی سطح پر اس سے پہلے صحافی کبھی اتنی بڑی تعداد میں تشدد کا نشانہ نہیں بنے تھے، نہ اتنے ’’غائب‘‘ کر دیے گئے تھے۔ افغانستان اور شام میں صحافیوں کا انجام بہت برا ہوا۔ افغانستان میں 15 اور شام میں 11 صحافی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔
وہ ملک جو کسی جنگ کا شکار نہیں ہیں، ان میں میکسیکو پہلے نمبر پر آتا ہے جہاں ایک برس کے دوران 9 صحافی قتل ہوئے اور اس کے بعد امریکا ہے۔ وہاں کیپیٹل گزٹ نامی اخبار میں کام کرنے والے 5صحافی اپنے دفتر میں گولیوں کا نشانہ بنے۔
رپورٹرز بیانڈ بارڈرز کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد، قتل اور ان کو غائب کیے جانے کا معاملہ اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ کچھ سیاستدان، مذہبی رہنما اور کاروبار کرنے والے صحافیوں کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ صحافی ان کے سیاسی ، مذہبی اور کاروباری مفادات کے خلاف لکھتے ہیں، ان کے پس پردہ رہنے والے جرائم کا راز فاش کرتے ہیں، اسی لیے وہ ہمارے دشمن ہیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
2018 میں افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک رہا۔ ان میں انتہا پسندوں کے ظلم و ستم کی خبر دینے والے صحافیوں کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافر بھی قتل کیے گئے، ایجنسی فرانس پریس کا افغانستان میں چیف فوٹوگرافر شاہ مارائی بھی ان 8 صحافیوں میں سے ایک تھا جو ایک بم دھماکے میں مارے گئے۔ انتہا پسندوں کو فوٹوگرافروں سے بہ طور خاص نفرت ہے، اس لیے کہ تصویریں ان لوگوں کی سمجھ میں بھی آتی ہیں جو خواندہ نہیں ہیں۔ یہ تصویریں تشدد اور انتہا پسند گروہوں کا شکار ہونے والے بے گناہ شہریوں کی حالتِ زار عام لوگوں تک پہنچاتی ہیں اور ان کے دلوں میں انتہا پسندوں کے لیے ناپسندیدگی اور نفرت پیدا کرتی ہیں۔
یہ ایک نہایت تشویش ناک صورت حال ہے۔ صرف ان لوگوں کے لیے نہیں جو صحافت سے وابستہ ہیں، یہ دنیا کی جمہوریتوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اب سے پہلے صحافی اور صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھے جاتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ امریکا جہاں صحافت ایک محترم پیشہ سمجھی جاتی تھی وہاں کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ رپورٹر اور صحافی عوام کے دشمن ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو بیسویں صدی میں سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن نے کہی تھی۔ امریکی صدر کی طرف سے صحافیوں، بہ طور خاص رپورٹروں کی توہین ایک روزمرہ ہے۔ چند دنوں پہلے انھوں نے سی این این کے نمائندے کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس میں جو سلوک کیا، وہ دنیا نے دیکھا۔ حالیہ ہفتوں میں فلپائن کے صدر بھی رپورٹروں کی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب تو انھوں نے برسر عام صحافیوں کو دھمکیاں بھی دینی شروع کر دی ہیں اور یہ تک کہا ہے کہ وہ ’’قتل‘‘ بھی کیے جا سکتے ہیں۔ رپورٹروں کو دھمکانے کے رویے میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
ہم میں سے سب ہی اس بات سے واقف ہیں کہ یورپ میں صحافت کو جمہوریت کی اساس سمجھا جاتا ہے اور صحافیوں کو جمہوری روایات کا اثاثہ لیکن اب وہاں بھی کچھ سیاستدان صحافیوں کے ساتھ زبانی طور پر بدکلامی کو روا رکھتے ہیں۔ بات کہاں تک پہنچی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چیک ری پبلک کے صدر ایک پریس کانفرنس میں اس دھج سے شریک ہوئے کہ وہ ایک نقلی کلاشنکوف لیے ہوئے تھے جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ ’’یہ صحافیوں کے لیے ہے‘‘۔ سلوواکیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم نے صحافیوں کو ’’طوائف‘‘ اور ’’بے وقوف لگڑ بگھے‘‘ کے خطابات سے نوازا، سلوواکیہ میں فروری 2018میں ایک رپورٹر کو گھر میں گھس کر گولی مار دی گئی۔
صحافیوں کے خلاف سیاستدان جس بڑے پیمانے پر نفرت بھڑکا رہے ہیں، اس سے ہر ذی فہم شخص خوفزدہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنے وقتی مفاد میں کچھ سیاستدان اور بعض کاروباری ادارے جمہوریت کو پسپا کرنے میں اپنا مفاد سمجھتے ہیں۔ ایسے خود غرض افراد کو یہ اندازہ نہیں کہ جمہوریت کے حصول کی خاطر دانشوروں، سیاستدانوں، ادیبوں اور عوام نے سیکڑوں برس ایک مشکل جنگ کی ہے، اگر چند افراد یا کاروباری اداروں کے وقتی فائدے کے لیے جمہوری اصولوں کو پسپا کیا گیا، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی روایت کو کچل دیا گیا تو یہ مہذب اور شریف روایات کا انہدام ہو گا۔
ہم یورپ کی تعریف و توصیف کرتے تھے اور اس بات پر خوش ہوتے تھے کہ وہاں کے ادیب اور دانشور آزادیٔ اظہار کا حق رکھتے ہیں اور وہاں کے صحافی جان کے خوف و خطر کے بغیر خبریں دیتے اور تجزیے لکھتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ وہاں بھی آزادیٔ تحریر کی پسپائی ہو رہی ہے۔ مالٹا، چیک جمہوریہ، سلوواکیہ اور سربیا میں حالات کچھ اچھے نہیں، یورپ میں بھی صحافی قتل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک المناک صورت حال ہے۔ جان کے خوف سے کئی ملکوں میں صحافی سیلف سنسر شپ پر مجبور ہوئے ہیں۔ شام، یمن، مصر اور بحرین میں ’’آزادی اظہار‘‘ سے نمٹنے کے لیے ’’دہشتگردی‘‘ اور ’’غداری‘‘ کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ الزامات ہیں جو ’’آزادیٔ تحریر‘‘ اور ’’آزادی اظہار‘‘ کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہیں۔
صحافت عالمی سطح پر ایک خطرناک پیشہ بن چکی ہے۔ وہ ادیب جو اپنے ملکوں کی حکومتوں کے جبر اور حبس کے بارے میں لکھنے کی ہمت کرتے ہیں، وہ بھی ہمہ وقت نامعلوم قاتل کے خوف میں گرفتار رہتے ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ 2019 میں صحافیوں ، فوٹوگرافروں اور ادیبوں کے لیے کیا سوغات لا رہا ہے؟(بشکریہ ایکسپریس)