تحریر: شہباز اکمل جندران۔۔
محققین کا کہنا ہے کہ مطالعہ کی عادت ذہنی صحت کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر روزانہ صرف 20منٹ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ”ڈیمنشیا“ کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ ”ڈیمنشیا“ ایک خطرناک بیماری ہے۔لاحق ہو جائے تو دماغی خلیات کو نقصان پہنچاتی ہے جس کے باعث یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم کتب بینی سے ڈیمنشیا کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جاتاہے۔
گزشتہ برس مجھے ڈاکٹر شاہد صدیقی کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں لیکچرار شپ کے امیدواروں کے سلیکشن بورڈ میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان میں کچھ امیدوار پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھے۔ جب امیدواروں سے پوچھا گیا کہ پچھلے ایک برس میں انہوں نے نصاب کے علاوہ کوئی کتاب پڑھی ، تو ان سب کا جواب نفی میں تھا۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے کی عادت کسی حد تک زوال پذیر ہے۔ جبکہ معاشرتی پسماندگی کی بنیادی وجہ بھی کتب بینی کا فقدان ہی ہے۔ ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماریوں کا خطرہ کتب بینی سے اڑھائی فیصد کم ہو جاتا ہے۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اسی طرح ضروری ہے جیسے جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کے لیے ورزش ضروری ہوتی ہے۔
انگریز شاعر شیلے کہتا ہے مطالعہ ذہن کو جلا دینے اور اس کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ابراہیم لنکن کے بقول کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے۔ کتابوں کی سیاحت میں انسان شاعروں، ادیبوں، مفکروں اور داناﺅں سے ہمکلام ہوتا ہے۔ ان تمام اقوال سے کتب بینی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کتب بینی کے یوں تو بے شمار فائدے ہیں تاہم چیدہ چیدہ فوائد یہہیں۔ کتب بینی سے معلومات اور ذخیرہ¿ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذہن تمام معلومات کی پروسیسنگ کے بعد جو مواد تخلیق کرتا ہے اسے علم کہا جاتا ہے۔ لہٰذا جس قدر کتابوں کا مطالعہ کیا جائے گا اسی قدر علم اور زیادہ پختہ ہو گا۔ کتب بینی سے انسان کے اندر تحقیقی اور تجزیاتی سوچ بھی پروان چڑھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان دینی، قومی اور بین الاقوامی امور پر ایک واضح سوچ رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
ملک میں جب سے الیکٹرانک میڈیا نے رواج پایا ہے، کتب بینی کا ذوق سرے سے ہی مفقود ہو گیاہے۔ محلہ لائبریریاںہی نہیں رہیں جہاں سے کبھی ایک آنہ کرایہ پر کوئی بھی کتاب پڑھنے کو مل جاتی تھی۔ لوگ اب نجی ٹی وی چینلز کی سکرین پر سب کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ ناشرین میں بھی بہت کمی آئی ہے۔ کتب بینی کا رجحان نمایاں حد تک کم ہوا ہے۔ تاہم کچھ لوگ اب بھی کتابوں کو زندرہ رکھے ہوئے ہیں۔ نثر ہو یا شاعری، ہر طرح کے موضوعات پر کتابیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں اردو لٹریچر پر کراچی میں ایک کتاب میلے کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں لوگ آئے اور کتابوں میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
اردو شاعری کی اپنی ایک روایت رہی ہے۔ ہمارے خطے میں بڑے نامور شاعر ہوئے جنہوںنے شاعری میں بہت نام کمایا۔ اُن کی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں۔ جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور ہماری لائبریریوں میں بھی مل جاتی ہیں۔ شاعری کی کافی ساری اقسام ہیں۔ اردو شاعری جنوبی اشیاءکی تہذیب کا ایک اہم حصہ مانی جاتی ہے۔ میر، درد، غالب، انیس، داغ، اقبال، ذوق، جوش، اکبر، فیض، فراق، شکیب جلالی، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز اردو شاعری کے بڑے شعراءمیں سے ہیں جنہوں نے خاص طور پر غزل کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
عصرِ حاضر میں دیکھیں تو اب بھی کچھ لوگ شاعری کی صنف کو آگے بڑھا رہے ہیں جن میں ایک نام سعید آسی کا بھی ہے۔ جو ہیں تو صحافی اور کالم نگار___ لیکن شاعری کرتے ہیں تو اس میں بھی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں۔ سعید آسی نوائے وقت سے وابستہ ہیں۔ پاکپتن اُن کا آبائی ڈسٹرکٹ ہے۔ لاءکی ڈگری کے حامل ہیں۔ لیکن صحافت کو اپنی پہچان بنایا ۔ صحافت میں آئے تو اسی کے ہو کے رہ گئے۔ ذہن شاعری کی طرف بھی مائل تھا۔ اس لیے شاعری بھی کرنے لگے۔ اور چند برسوں میں ہی شاعری کے کئی مجموعوں کے خالق بن گئے۔ اس وقت سعید آسی کی شاعری پر مبنی ایک کتاب ”کلامِ سعید“ میرے سامنے ہے جو ایک دوست نے پچھلے دنوں تحفتاً مجھے دی۔ اس میں چھوٹے بحر کی شاعری ہے۔ آخری صفحات میں پنجابی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جو پنجاب کی دھرتی کی پہچان ہے۔
ادب و صحافت میں سعید آسی کا سفر 1970ءمیں شروع ہو گیا تھا۔ وہ ادب و صحافت کے ایسے شہسوار ہیں جن کا قلم آج بھی علم کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ وہ ایک مثبت سوچ کے حامل شاعر اور ادیب ہیں۔ صحافت اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مختلف موضوعات پر اب تک سینکڑوں کالم قارئین کی نذر کر چکے ہیں۔ ایک ایسے رائٹر ہیں جو اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیشہ عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی و استحکام کے لیے کام کرتے نظر آئے ہیں۔ سب ایڈیٹر سے ڈپٹی ایڈیٹر اور رپورٹر سے چیف رپورٹر تک کے سفر میں انہوں نے پوری تندہی سے ہر شعبہ میں صحافتی خدمات سرانجام دیں۔ بے لاگ تجزیہ کار کی حیثیت سے بھی الیکٹرانک میڈیا پر اپنی شناخت قائم کی۔
اچھے دن آئے یا بُرے، سعید آسی نے کبھی قلم سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ قلم ہی کو حصولِ رزق کا ذریعہ بنایا۔ ایک کامیاب انسان اور صحافی کے طور پر ہمیشہ نمایاں اور سر بلند رہے۔ اپنی زندگی صحافت کی آبیاری کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ لاہور پریس کلب کے سیکرٹری ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل رہا ہے۔ کلب کے الیکشن 2024ءکے چیف الیکشن کمشنر بھی رہے۔ صحافتی کمیونٹی میں انہیں بہت عزت و توقیر حاصل ہے۔
اب ہم اُن کی شاعر ی کے کچھ حصّے ملاحظہ کرتے ہیں:
پاﺅں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے
اب تو بس عزتِ سادات بچا لی جائے
حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
کر کے تدبیر کوئی تازہ ہوا لی جائے
ایک نظم:
روشن خیالوں کی نگری میں
بھوکی مر گئی خلقت یارا
اور کس سے کیا پاﺅ گے
درد کی ایسی لذت یارا
”کلامِ سعید“ آفسٹ پیپر پر چھپی ہوئی 407صفحات پرمشتمل شاعری کی ضخیم کتاب ہے جو میرے ہاتھ لگی اور اس پر کالم لکھنے کا فیصلہ کیا۔
سعیدآسی پر جتنا بھی لکھا جائے، کم ہے کہ وہ ہماری صحافت کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ صحافت میں نصف صدی گزارنے کے بعد بھی سمجھتے ہےں کہ ابھی انہوں نے بہت کچھ کرنا ہے۔ اُن کے کالم، شاعری اور مختلف موضوعات پر تحریریں صحافت سے وابستہ نئے لوگوں کے لیے رہنمائی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اُن سے صرف رہنمائی ہی حاصل نہیں کی جاتی ، بہت کچھ سیکھا بھی جاتا ہے۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔