broadcast company ko wajubaat ada karne ka hukum

صدرمملکت بریکنگ کی دوڑ سے نالاں۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

صدر مملکت ڈاکٹر سید عارف حسین علوی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی رسائی خطرناک ہے۔۔میرے کراچی کی حالیہ دورے کے دوران ایک رپورٹر نے مجھ سے پوچھا کہ اس وقت شہر میں آٹے کا بدترین بحران چل رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟کیونکہ اس وقت تک کسی کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں تھا اسلئے میرا جواب تھا ’’مجھے اس کا پتہ نہیں مگر پتہ ہونا چاہئے‘‘ صدر پاکستان  کی  اس مختصر گفتگو کوجس انداز میں الیکٹرانک میڈیا پر پیش کیا وہ بقول صدر ایک انداز میں پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ صدر پاکستان ملک میں گندم کے بحران سے پوری طرح بے خبر تھے‘ حالانکہ میرا جواب اس مخصوص سوال کے ردعمل میں تھا کہ بحران کا ذمہ دار کون ہے۔۔ایک تحریری بیان میں صدر عارف علوی نے کہا کہ میرے جواب کو جس طرح سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا اُس نے مہنگائی اور غربت سے دوچار افراد میں حیرت اور ناراضگی کا گہرا احساس پیدا کیا۔۔خبر کا یہ جعلی زاویہ صبح رونما ہوا لیکن سہ پہر تک تقریباً تمام چینلز صدر کی بے حسی پر مضحکہ خیز‘ طنزیہ اور توہین آمیز تبصرے کر رہے تھے۔ صدر نے کہا کہ جس طرح میرے جواب کا غلط حوالہ دیا گیا اس سے ایسے لگا جیسے مشکل وقت سے گزرنے والے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ہے۔۔اس پر سوشل میڈیا منفی ردعمل سے بھرا ہوا تھا۔ بہت سے سیاستدانوں نے اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹاک شو میں صدر کو جاہل اور بے رحم قرار دیتے ہوئے مزید طنز کا نشانہ بنایا۔

صدر پاکستان نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ اس صورتحال میں میں نے میڈیا کو ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا مگر جب میں لکھنے لگا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ میرے ذاتی معاملے سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے لہٰذا کسی چینل‘ اس کے رپورٹریا ادارتی عملہ کو مود الزام ٹھہرانے کی بجائے میں نے فیصلہ کیا کہ ایک ایسا معاشرہ جو جعلی اور غلط خبروں کے حصار میں ہے ۔۔اس میں اس چیلنج سے مستقبل میں نبرد آزما ہونے کیلئے عوامی سطح پر مباحثہ کا اہتمام ہونا چاہئے۔ صدر پاکستان نے اپنے تحریری آرٹیکل میں کہا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا اپنی بڑھتی ہوئی عمومی رسائی اور اثرو رسوخ کے ساتھ چند ہی منٹوں میں خبر عام کر دیتا ہے۔۔الیکٹرانک میڈیا کچھ گھنٹوں میں ہی اسکی پیروی کرتا ہے اور پرنٹ میڈیا 24گھنٹوں میں اس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ٹیلی وژن میں بریکنگ نیوز کا تصور انتہائی تشویشناک ہے۔ مارکیٹ میں ’’سب سے پہلے کون‘‘ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہم ’’بریکنگ نیوز‘‘ کو بہتر خیال کرتے ہوئے ترجیح دیتے ہیں۔۔صدرمملکت نے کہا کہا میری تشویش یہ ہے کہ بریکنگ نیوز بنانے کے لئے انسانوں کو بریک نہیں کرنا چاہیئے۔۔اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے جھگڑے کی ابتداء کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص کامل نہیں‘ یقیناً میں بھی نہیں۔۔چوبیس گھنٹے سیاسی  و سماجی شخصیات کی سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن پر موجودگی کی وجہ سے وہ لوگوں کی گہری نظر میں رہتے ہیں۔۔سیاست دانوں کا خود کو اس آزمائش میں ڈھالنا انکے کارہائے منصبی کا حصہ ہے جو ایک ہمہ وقت جاری انٹرویو کی صورت اختیار کر چکا ہے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں