dawn news ke reporter par jaan lewa hamla

صداقت عباسی کے انٹرویو پر ڈان نیوز کی ٹرولنگ۔۔

پاکستان تحریک انصاف کے لاپتہ رہنما صداقت علی عباسی کا انٹرویو نشر نہ کرنے پر ڈان نیوز ٹی وی کی تعریف پیر کی رات اس  انٹرویو کے چینل  پر نشر ہونے کے بعد مذمت اور افسوس میں بدل گئی۔سینئر صحافی مظہر عباس کو اس بات کا دکھ تھا کہ ڈان نے کچھ دن مزاحمت کی لیکن پھر ہار مان لی۔ ان کا کہنا ہے کہ ۔۔ آزاد ٹی وی کے دن گئے،  ڈان نے کچھ دنوں تک دباؤ کا مقابلہ کیا لیکن آخر کار پی ٹی آئی رہنما صداقت عباسی کا انٹرویو آن ائیر ہو گیا۔ڈان نیوز پر ایک شو کی میزبانی کرنے والی اور اسلام آباد میں ڈان کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر عارفہ نور نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ۔۔صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ڈان نیوز پر ٹاک شو زارا ہٹ کے کے میزبانوں میں سے ایک ضرار کھوڑو نے کہا کہ۔۔ہم نے کوشش کی اور ہم ناکام رہے۔ جتنی گالیاں دینی ہیں دے دیں۔ صحافی مبشر زیدی، جنہوں نے انٹرویو نشر نہ کرنے کے فیصلے کی حمایت کی اور کہا کہ انہیں ڈان کے ساتھ اپنی 23 سالہ طویل وابستگی پر فخر ہے، صرف اتنا لکھا کہ ۔۔ “آج مجھے بہت دکھ ہوا ہے”۔خاتون اینکرپرسن منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ۔۔ پی ٹی آئی کے لاپتہ رہنما عثمان ڈار اور عباسی کے انٹرویو سے پاکستان میں صحافت ایک نئی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جبری گمشدگیوں کے متاثرین کو ان کے اغوا کاروں کی طرف سے زبردستی انٹرویو دینے کے بعد ان کا انٹرویو لینا غیر اخلاقی اور جرم کی حوصلہ افزائی اور مدد کرنا ہے۔معروف تجزیہ کار اور وکیل عبدالمعیز جعفری نے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میزبان اور مہمان دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ڈان کے ایک سابق ملازم سیرل امیڈیا نے کہا کہ ٹی وی صحافت ختم ہو چکی ہے کیونکہ اس نے اختیارات کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ٹی وی مر گیا ہے کیونکہ ٹی وی حکومت کے ساتھ بستر پر ہے،خاتون اینکرپرسن شفا یوسفزئی کا خیال تھا کہ یہ  انٹرویو ڈان کی ادارتی ٹیم کے دباؤ کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد نشر کیا گیا ہو گا۔ “انٹرویو  دینے  والا اس انٹرویو کے لیے ایک نیوز چینل پر آنے سے پہلے کئی دنوں سے لاپتہ تھا۔ اس انٹرویو کے بعد انٹرویودینے والا گھر واپس آیا اور ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں اسے اپنے اہل خانہ سے ملتے ہوئے تباہ حال حالت میں روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چینل نے اس انٹرویو کو نشر کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اداریہ نے محسوس کیا کہ یہ انٹرویو زبردستی اور آزاد اظہار رائے  کے خلاف دیا گیا ہے۔ تو اب جب اسے نشر کیا جا رہا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ چینل اور پوری ادارتی ٹیم پر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے نشر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہو گا؟ حکمرانوں کے ملک میں سیاست اور صحافت کی یہ افسوسناک حالت ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں