sacchi achi sakht baatein | Wasi Baba

سچی اچھی سخت باتیں

تحریر: وصی بابا۔۔

مر جانے کا خیال آنا ۔ حالات سے گھبرا کر خود کشی کا سوچنا شائد نارمل بات ہی ہے ۔ بلکہ جب بندہ اتنا ڈاؤن ہو کر کہتا کہ چل بہت ہو گئی اب چلتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ حساب کتاب لگاتا ہے ۔زندگی بہرحال اسے واپس بلا لیتی ہے ، راستے سوجھ جاتے ہیں مشکل سے نکلنے کے اور وہ چل پڑتا ہے پھر وقت آ جاتا ہے کہ وہ کبھی اکیلے بہہ کر اپنی اس حالت پر ہنستا ہے ۔بات دل ٹوٹنے کی ہو تو بندہ نئی ایشیوریہ آتے ہی دھیانے لگ جاتا ہے ۔ بندی بھی کچھ کر کرا لیتی ہو گی ۔

مالی معاملات پر اکثر لوگوں کی بس ہو جاتی ہے ۔ چار یار بنائے ہوں کبھی ۔ سجنون بیلیوں والا ہو تو بندے کو اس کے یہ یار ہی نہیں گرنے دیتے ۔ پیسوں کے مسلے حل کر دیتے ہیں ، کام دھندا دیکھ لیتے ہیں ۔ وقت دلوا دیتے ہیں ۔ یا ویسے ہی اگے پیچھے کر دیتے ہیں کہ وہ دوڑ گیا ہے ، تمھارے پیسے ڈوب گئے اب صبر کر لو ۔مذہب سے مثال دینے کو دل نہیں کرتا اس کی فرنچائز جن کے پاس ہے انہی کو دینی چاہئے ۔ قرض کسی کو دیا جائے تو وہ قرض حسنہ ہی ہوتا ہے ۔ مقروض جتنی بار وقت مانگے اس کو اتنی بار دینا چاہئے ۔ سود حرام کرنے کی منطق یہ بھی تھی کہ ادھار میں منافع نہ تلاش کرنے بہہ جائے یہ شئرنگ ہے اسے شئرنگ ہی رہنے دیا جائے ۔

مشکل انسان پر آتی رہتی ہیں ۔ ان کا سامنا کرنا ہوتا ہے یا ان سے بچنا ہوتا ۔ ان سے بھاگ جانا بھی ایک آپشن ہوتا ہے ۔ ہر مشکل گزرتی ہے تو آسانی لاتی ہے ۔ کسی بھی مشکل کو اتنا سر پر سوار کر لینا کہ زندگی کا ہی خاتمہ کر لینا ۔یعنی نہ انسان پر یقین رہا نہ خدا پر ۔ خدا کو خفہ کر لیا اور بندے پر اعتبار ہی نہ کیا ۔ مرنے والا اتنا اکیلا ہو گیا تھا یا خود کو سمجھنے لگ گیا تھا ۔ایسا نہیں کرتے یار ، مر پچھلے جاتے ہیں ۔ بچے جو یہی سوچتے رہتے کہ باپ کے مرنے کی وجہ ہم تھے ۔ کتنی خوشیاں کتنے ساتھ کتنے خیال ارمان ہی رہ جاتے ہیں ۔

صحافی نے ساٹھ ہزار قرض اور بیروزگاری سے تنگ آ کر خود کشی کر لی ۔ پیچھے بچے بیگم رہ گئے اور لمبی زندگی ۔ اتنا اکیلا کسی کو ہونے نہیں دینا تھا ۔ دوست ہمسائے رشتے یہ سب کدھر مر گئے تھے ؟(وصی بابا)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں