تحریر: امجداسلام امجد۔۔
گزشتہ پندرہ برس میں جوان ہونے والی نسل نے اپنے بزرگوں سے ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کا نام اور اُس کی مقبولیت کے قصے تو یقیناً سُنے ہوں گے مگر بچشمِ خود یہ رسالہ دیکھنے یا اس کے اوصاف سے آشنا نہ ہونے کے باعث وہ عام طور پر اسے ان بزرگوں کے ناسٹیلجیا کا ایک ایسا حصہ ہی قیاس کرتی ہے جس کا کوئی تعلق اُن کی اپنی زندگیوں سے نہیں اور نہ ہی شائد وہ اُس انتظار اور بے صبری کا اندازہ کرسکتے ہیں جو اس کی ہر تازہ اشاعت سے قبل قارئین سے بار بار بُک اسٹالز کے چکر لگواتے تھے۔
اتفاق سے ہماری نسل نے اس کی ابتدا ، فروغ، بے مثال مقبولت اور اشاعتی تسلسل کی کمی سے لے کر اس کے باقاعدہ بند ہونے کے تمام مرحلے صرف دیکھے ہی نہیں محسوس بھی کیے ہیں اورجہاں تک اس کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ کا تعلق ہے تو اُن کی ذاتی خصوصیات سے لے کر مدیرانہ جادوگریوں تک ہر چیز سے میں ذاتی طور پر واقف ہی نہیں ان کا دلداہ بھی ہوں اور اب اُن سے ذاتی تعلقِ خاطر کو بھی چار دہائیوں سے اُوپر کا زمانہ ہوگیا ہے، اپنی تمام تر کاہلی اور کم آمیز فطرت کے باوجود اُن کو اپنے رشتے نبھانے کا ڈھنگ بہت اچھی طرح سے آتا ہے، سو وہ دوستوں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں۔
سب رنگ‘‘کیسے شروع ہوا اور کن کن منازل سے گزرا اس کا مختصر سا ذکر انھوں نے اس کتاب ’’سب رنگ کہانیاں ‘‘ کے دیباچے میں کیا تو ہے مگر اپنی طبیعت کے مخصوص ’’انکسار‘‘ کے باعث بہت سی کہنے و الی باتیں ایک طرح سے گول بھی کرگئے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس کے ’’مرتب‘‘ حسن رضا گوندل نے اپنے تعارفی مضمون میں کئی ایسی باتوں کو بالواسطہ طریقے سے بیان کردیا ہے اگرچہ ادبی، نیم ادبی، فلمی اور بعض دینی رسائل کے کچھ اور ایڈیٹروںنے بھی عوامی شہرت حاصل کی ہے لیکن ڈائجسٹوں کی حد تک شکیل عادل زادہ کا نام میرے نزدیک پہلے نمبر پر آتا ہے کہ کسی بھی ڈائجسٹ میں ایڈیٹر کی اُن جیسی بھر پور موجودگی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
وہ جس طرح اس کی ایک ایک کہانی بلکہ ایک ایک سطر کو دیکھتے، چُنتے اور سنوارتے تھے وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اب جو حسن رضا گوندل، شکیل عادل زادہ اور بُک کارنر کے دوستوں نے مل کر اس بے مثال ڈائجسٹ میں شائع شدہ مختلف کہانیوں کے انتخابی مجموعے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ نہ صرف اس کے پُرانے قارئین اس کا کُھلی بانہوں سے استقبال کریں گے بلکہ نئی نسل کے لوگ بھی ان کے مطالعے کے بعد یہ جان سکیں گے کہ اُن کی بزرگ نسل کیوں اس کو اتنی محبت سے یاد کیا کرتی تھی ۔ اس پہلی قسط میں تیس غیر ملکی کہانیوں کا ایک ایسا انتخاب شائع کیا گیا ہے کہ ہر کہانی پڑھنے کے بعد دل سے واہ نکلتی ہے ’’سب رنگ‘ ‘ اور شکیل عادل زادہ کے بارے میں آج کے چند بڑے ناموں نے جو توصیفی کلمات استعمال کیے ہیں اُن میں سے کچھ اس طرح ہیں۔
میں نے کسی انٹرویو میں کہا تھا شکیل ہی نے ’’سب رنگ‘‘ نکال کے عالمی ڈائجسٹ کا پھندا میرے گلے میں ڈالا تھا… اس کتاب کے کئی ترجمہ نگار دوسرے ڈائجسٹوں کے لیے بھی کہانیاں ترجمہ کرتے تھے مگر دیکھئے ’’سب رنگ‘‘ میں ان کا کیا رنگ ہوجاتا تھا، افسوس سب رنگ جاری نہ رہ سکا مگر سچ تو یہ ہے کہ سب رنگ کے جتنے بھی شمارے چھپ سکے وہ تو یادگار شاہکار ہیں‘‘ (زاہدہ حنا)اُردو اور دنیا بھر کے ادب سے چنیدہ کہانیوں کے انتخاب کا جو معیار جناب شکیل عادل زادہ کی ادارت میں شائع ہونے والے’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ کے اولین سے آخری شمارے تک قائم ہوا اس تک تاحال کوئی اور جریدہ پہنچ نہیں پایا ،کسی ایک شمارے میں کبھی کوئی بھرتی کی کہانی شامل نہیں کی گئی، اس بلند ترین درجے کی پرکھ وہی مدیر کرسکتا تھا جو بذاتِ خود صاحبِ کمال ادیب ہو، قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے عوض شکیل بھائی نے اپنی زندگی ہی میں بے پایاں محبتوں کے وہ خزانے سمیٹے ہیں جس کی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی(محمد الیاس)۔سب رنگ ادبی رسائل و جرائد کا امام باقی سب مقتدی ، ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے ادب کے سنہرے دور،’’دورِ سب رنگ‘‘ میں زندگی بسر کی سب رنگ میں شائع ہونے والی ہر کہانی ، تحریر دمکتے ہیرے کی مانند اور شکیل عادل زادہ اُس کے جوہری ٹھہرے پس سب رنگ شہرِ ادب کا دروازہ ہے (عرفان جاوید)۔شکیل عادل زادہ نے سب رنگ کے توسط سے کہانی کے فن کو نئی زندگی بخشی، انھوں نے دنیا کی تمام زبانوں سے کہانیاں چُن چُن کر سب رنگ میں شائع کیں اور خود بھی ایک لازوال اور دلچسپ کہانی ’’بازی گر‘‘ کے نام سے لکھی، دنیا میں ایسی مثال کم ہی ملے گی کہ کوئی ماہانہ رسالے برسوں ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوتا رہا ہو، یہ معجزہ شکیل عادل زادہ نے کر دکھایا۔ مبارک ہو مبارک ۔ (انور خواجہ)جن لوگوں نے سب رنگ کا زمانہ نہیں دیکھا وہ اُس سچی تاہنگ کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے جو ہمارے من میں ہر شمارے کے لیے جاگا کرتی تھی، اس تاہنگ کا سبب اس ڈائجسٹ میں ہر بار ہاتھ لگنے و الا عالمی ادب کا وہ انمول انتخاب تھا جو ہمیں عمر بھر کے لیے لفظ اور کہانی سے محبت سکھا گیا… حسن رضا گوندل نے سب رنگ کی وہ روشن روایت جو ماضی میں کہیں گم ہو رہی تھی اُسے پھر سے زندہ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ وہ ہمارے شکریئے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سب رنگ مین چھپنے والے شاہکار عالمی فکشن کو کتابی صورت میں دے کر شکیل عادل زادہ کے نگار خانے کا دریچہ آج کے قاری پر بھی کھول دیا ہے ۔ (محمد حمید شاہد) سب رنگ ہمارے افسانوی ادب کی تاریخ میں ایک عہد کا نام ہے، تخلیقی فکشن ہو، عالمی ادب سے مستعار لیے گئے افسانے یا قسط وار کہانیاں ، سب رنگ کا انتخاب حرفِ آخر تھا جس نے افسانوی ادب پڑھنے و الوں کی ایک بڑی تعداد کے ذوق کی تربیت کی سب رنگ کی کہانیوں کی کلیات ایک اہم ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی قابلِ قدر کوشش ہے‘‘ (اشرف شاد)اُردو ادب میں شکیل عادل زادہ کی وہی حیثیت ہے جو زبانوں میں ابجد کی ہوتی ہے اُردو بہرحال اُن کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔(جاوید چودہری) سب رنگ کا نام آتے ہی ’’بازی گر‘‘ کے بٹھل بابر زمان، کورا،’’جانگلوس‘‘ کے رحیم داد اور لالی، قاضی عبدالستار اور چچا ابوالفضل صدیقی کی جادو بھری انگلیوں سے لکھی کہانیاں ، دنیا بھر کے ادب کے شاندار تراجم اور پھر شکیل عادل زادہ کا ’’ذاتی صفحہ‘‘ یہ سب دل کو تڑپانے آجاتے ہیں، اُردو ادب کے رنگ ’’سب رنگ‘‘ کے بغیر پھیکے رہتے۔(رؤف کلاسرا)
آخر میں اس کتاب کے حوالے سے حسن رضا گوندل، شکیل عادل زادہ اور بُک کارنر والوں سے یہی کہا جاسکتاہے کہ اس سلسلے کو اُس وقت تک جاری رکھیے جب تک اس میں شائع شدہ ایک بھی کہانی باقی ہے ۔ (بشکریہ ایکسپریس)۔۔