Asif Khan

سب چائنا ہے۔۔۔

تحریر:آصف خان

اللہ رب العزت نے مرد عورت کو فطری جذبات کی تسکین اور نسلی ارتقاء کے حصول کیلئے شادی جیسے بندھن میں باندھ کر ایک جانب خواہشاتِ نفسانی کی جائز طریقے سے تکمیل فرمائی۔ دوسری جانب معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی اور معاشرتی بگاڑ کا سدباب بھی کیا۔ میاں بیوی کے درمیان قائم اِس مقدس رشتے میں اللہ رب العزت نے پیار و محبت کی وہ مٹھاس رکھی ہے،جس کی لذت کو دنیا کی کسی شیرینی میں محسوس نہیں کیاجاسکتا۔

یہی وجہ ہے،دنیا میں جنم لینے والا ہر وہ رشتہ جس کی کونپلیں اِسی پاک رشتے کے وجود سے پھوٹتی ہیں ، دنیا میں اپنا پہلا پیغام” پیغام ِاُلفت” لیکرپیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مردعورت کےدرمیان فطری جذبات کی آغوش میں پنپنےوالا یہ رشتہ اُتناہی نازک ہے جتناانسانی وجوداپنی مضبوط اقامت و فراست کے باوجود ہر لمحہ غیر یقینی صورتحال میں گھرا نظر آتا ہے۔

موجودہ معاشرے میں ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہم اِس رشتے کی نزاکت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ معاشرے میں تعلیم کی کمی اورگھروں میں بہتر معاشرتی تربیت نہ ہونے کے سبب نکاح جیسے اہم بندھن میں بندھتے وقت کوتاہی کربیٹھتے ہیں اور خود کو گمراہیوں کے ایسے گھپ اندھیروں میں داخل کرلیتے ہیں کہ اپنی اچھی خاصی زندگی کو خودساختہ عذاب میں مبتلا کرڈالتے ہیں۔۔ایک خوبصورت یا پھر بدصورت زندگی کا سارے کا سارا دارومدار آپ کے لائف پارٹنر پہ ہے، آپکا لائف پارٹنر آپکی زندگی کو جیتے جی جنت بھی بنا سکتا ہے اور جہنم بھی۔۔ لہذا اپنی یا اپنے بچوں کی شادی کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیا کریں کہ کہیں آپ کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر رہے۔۔

کچھ دنوں سے ہماری میڈیا میں  کچھ خبریں گردش کررہی تھی۔ جس میں چینی لڑکوں نے پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرنی شروع کیں جیسے شروع میں خوش آٸند میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایسا خوب سراہا گیا آغاز میں تو لوگ اسے پاک چائنہ دوستی کے سلسلے کی ایک کڑی سے بھی جوڑ رہے تھے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد چاٸنا کے ان فراڈٸیوں نے ہوش ٹھکانے لگا دیٸے  ،  چینی باشندے جو ایک مافیا کی شکل  میں کام کرتے ہوئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جعلی شادیاں کرکے پاکستانی لڑکیوں کو چین لے گئے ہیں، اور چین میں  ان سے جسم فروشی جیسا مکروہ و گندہ کام کروایا جاتا ہے،بلکہ یہاں تک کہ کچھ لڑکیوں کے جسمانی اعضا تک بیچے بھی گئے ہیں۔اس گروہ کے مافیا نے اپنے اس دھندے کا آغاز پاکستان کی  کرسچن کمیونٹی کی لڑکیوں کیساتھ جعلی شادیوں سے کیا، ان شادیوں کےلیے پنجاب کے نواحی اور شہری علاقوں کا انتخاب کیاگیا۔۔۔ کرسچن لڑکیوں کے بعد اس مافیانے جعلی قبول اسلام کے سرٹیفکیٹ بنوا کر مسلمان لڑکیوں سے بھی شادیاں کرنی شروع کر دیں۔اکثریت میں چینی لڑکے اپنے آپ کو سی پیک  کے پروجیکٹ میں بڑے عہدار ظاہرکرتے تھے۔۔

غریب والدین کو دو سے چار لاکھ روپے کی رقم ادا کی جاتی تھی ، لڑکی کے والدین کو ماہانہ خرچہ دینے کا جھانسا اور چائنہ میں کاروبار کروانے کے نام پہ دھوکہ دیا جاتا ہیں۔۔ہم میں کسی نہیں سوچا کہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی لڑکیوں کی شادیاں چینی لڑکوں کیساتھ ہو رہی ہیں، ایسی کیا نئی خوبی پاکستانی لڑکیوں میں پیدا ہوگئی جو چین کی لڑکیوں میں نہیں۔۔پولیس اور ہمارے مختلف اداروں سے کیا گلہ۔۔ جب ایک بچی کے والدین نے ہی نہیں سوچا اپنی اولاد کے بارے میں، بس میڈ ان چائینہ کا ٹھپا لگا دیکھ کر اور چار پیسوں کے لالچ میں آ کر اپنی بیٹیوں کو جہنم میں جھونک دیا، اگر پال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہو،لیکن یہاں والدین کا بھی اتنا قصور نظر نہیں آ رہا مجھے جتنا ہمارا معاشرہ قصوروار ہے۔۔

ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت کی وجہ سے لاکھوں لڑکیوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے نہ جہیز بنتا ہے اور نہ ہی کوئی رشتہ آتا ہے، جس بیچارے کی بڑی بیٹی کی عمر تھوڑی سی بڑھ جائے وہ چھوٹی بیٹیوں کے لئیے آنیوالے رشتوں کو بھی اس ڈر سے ٹھکرا دیتا ہے کہ اب بڑی بیٹی کا رشتہ ساری زندگی کے لئے  رہ ہی نہ جائے۔۔ہماری بہین بٹیوں کو بیس سال سے  زیادہ عمر کی لڑکی کو ایجیڈ( aged) کہہ کر ٹھکرانا تو پرانی بات ہوئی اب تو جس بچی کا ہلکا سا رنگ سانولا ہوں یا وزن تھوڑا سا زیادہ ہو جائے اسکے رشتے کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔

رکاوٹ پہ رکاوٹ کوئی ایک ہوں جسکا حل والدین سوچےکوئی موٹی کہہ کر چلا جاتا ہے تو کوئی کالی کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے، کسی کو قد پسند نہیں تو کوئی جہیز کے لیے  منہ کھولے بیٹھا ہے۔ اب ایسے والدین جب دیکھتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا رشتہ غیر ملکی سے ہو رہا ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کے اچھے مستقبل کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔۔ لہذا بحیثیت ایک قوم اب ہمیں تھوڑا سا سمجھدار ہو جانا چاہیے  اور ایک دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہوئے سب سے پہلے اس جہیز جیسی لعنت کو چھوڑ دینا چاہیے  اب۔۔ نہیں تو ایسے ہی باہر سے لوگ آ کر ہماری عزتوں اور جانوں سے کھیلتے رہیں گے، اور ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔(آصف خان)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں