تحریر: خرم علی عمران
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے،، سوال غور طلب بالکل نہیں اور جواب ہے نہیں۔۔ کوئی ذات کوئی فرد ،کوئی مادی چیز ایسی نہیں جسے سب اچھا کہیں،، کوئی حجتی کوئی منطقی یہ بھی کہہ سکتا ہے تڑُپ کر کہ، کیوں یار،یہ کیا کہہ رہے ہو بہت سا ہے ایسا مثلا پیسہ،، کوں برا کہہ سکتا ہے اسے؟،،اور پھر اس طرح فاتحانہ نظروں سے دیکھے گا کہ ہا ہا ہا، لاجواب کردیا نا بیٹا! تو جوابا آپ بھی اسے ایسی نظروں سے دیکھ کر کہ جیسے کوئی بہت احمقانہ سی بات کردی ہو بڑے فلسفیانہ لحجے میں علم کا دریا بہاتے ہوئے کچھ یوں اسے کہیں کہ، بھائی میرے یا بہن میری،بات تو خوب سوچی ہے مگر اس دنیائے رنگ و بو میں ایک طبقہ تارک الدنیا لوگوں کا ،درویشوں، فقیروں،راہبوں کا بھی تو ہوتا ہے،ہر خطے میں، ہر علاقے میں ہر مذہب میں، ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مال دولت پیسے کو زہرِ قاتل اور زہریلا ناگ سمجھتے ہیں،، اور بدھ مذہب میں تو مایا کو ،مایا مطلب دولت،تو دولت کو بیماری سمجھا جاتا ہے ،تو میرے حجتی اور کچھ لاؤ،پیسہ تو فیل ہوگیا اس معیار پر پورا اترنے کو۔۔۔ وہ مارا پاپڑ والے کو ،لا استاد ہاتھ ادھر،،
پھر شخصیات کی اگر بات کریں تو بھی مسئلہ ہے بھیا! کسی ایک طبقے کا ہیرو،دوسرے طبقے کا ولن۔کسی ایک قوم کا پیارا لیڈر،قائد۔ دوسری قوم کے لئے قابل نفرت اور دشمن، کسی ایک مزہب ،مسلک،عقیدے کی کوئی محترم سے محترم شخصیت،مخالف مذہب، مسلک عقیدے والوں کے لئے غیر محترم،، زندگی کے کسی شعبے کے کسی بھی مہان سے مہان انسان کو اٹھا لیں،، کوئی کھلاڑی،کوئی ادیب،کوئی اداکار فنکار ، کوئی سیاسی و سماجی شخصیت ،کوئی ایب قلمکار، ایسا کوئی نہیں ملے گا،جسے سب اچھا کہیں ،ناممکن،،اگر ایک طبقہ کسی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گا تو دوسرا طبقہ اس میں ضرور کیڑے نکالے گا،،انتہا تو یہ ہے کہ یہ اصول خدا تک بھی جاتا ہے یعنی ایک طبقہ جنہیں ،دہریئے،ملحد،مادہ پرست، کہا جاتا ہے وہ خدا کو بھی نہیں بخشتے،کبھی ذرا ان عقل کے اندھوں کی تحاریر تو پڑھیں خدا اور مذہب کے بارے میں،کانوں سے دھواں نہ نکل آئے تو کہیئے گا۔۔
تو حاصلِ کلام کچھ یہ بنا کہ اس دنیا میں کسی ایسی چیز ،کسی ایسی شخصیت ،کسی ایسے کا ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ جسے سب ہی اچھا کہیں اور مانیں، سب کے اپنے اپنے، پورے ادھورے سچ اپنے اپنے آئیڈیل اپنے اپنے بت ،اپنے اپنے ہیروز ہیں جو کسی دوسرے کے لئے قطعا ناقابلِ قبول ہیں، اور یہی اختلاف زندگی کا حسن ہے، وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ”ایسا کہاں سے لاؤں سب اچھا کہیں جسے،، جو بھاتا ہے مجھے نہ بھاتا ہے تھجے” ارے ہاں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ پرانی کہانیوں کے بادشاہوں کی طرح جب اس سوال کا جواب کہیں سے اطمینان بخش نہ مل پایا تو کسی نے ایک بزرگ کا پتہ بتایا کہ جا مرے بھایا! جواب ملے گا تو اسی در سے ملے گا،، میں بھاگم بھاگ ،سی این جی بند ہونے کے باوجود پٹرول والی مہنگی ٹیکسی کرکے منگھوپیر کی پہاڑی پر اس مردِ درویش سیاہ پوش کی خدمت میں حاظر ہوا بابا جی پہاڑی پرذرا اوپرکی طرف مریدوں میں گھرے بیٹھے تھے، ہوا میں عجیب عجیب طرح کی بوئیں چکرا رہی تھی، کہیں دھویں کے مرغولے اور کہیں بھنگ کے پیالوں کی بہاریں نظر آ رہی تھیں،، یہ درویش لوگ جان بوجھ کر ایسا حال بنا کر رکھتے ہیں بھائی جی،ٹیکسی ڈرائیور، جو مزاروں اور ملنگوں کا پرانا مارا تھا اور با با جی کا سن کر ساتھ آگیا تھا، بولا، مجھے بھی کچھ کچھ یقین سا ہونے لگا کہ جواب یہیں ملے گا،ہم قریب پہنچے تو ڈرائیور مجھ سے پہلے ہی لپک کر بابا کے قدموں میں گر پڑا،بابا جو اپنی دھن میں مگن جانے کن خیالوں میں ڈوبے بیٹھے تھے اچھل پڑے اور ایک نعرہء مستانہ بلند گیا،فورا دو تگڑے سے مرید لپکے اور ڈرائیور کو اٹھا کر نجانے کہاں لے گئے،اب با با میری طرف متوجہ ہوئے،سرخ ابلی ہوئی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے پاس بلایا میں کانپتے قدموں سے انکے سامنے جا بیٹھا فرمایا۔ہمم؟ میں نے عرض کی کہ اے درویش، یہ تو بتا کہ کچھ ایسا بھی ہے جسے سب اچھا کہیں؟ بابا نے یہ سن کر خلاؤں میں گھورنا شروع کردیا، جب بہت دیر گزرگئی تو میں نے ڈرتے ڈرتے سوال دہرایا،، بابا چونکے ،مجھے قریب آنے کا اشارہ کہا اور کان کے پاس منہ لے کر آئے،میں خوشی کے مارے لرز رہا تھا کہ اب مجھے میرے سوال کا جواب ضرور ملے گا، بابا نے اپنا منہ میرے کان میں تقریبا گھسیڑ دیا اور لاؤڈ اسپیکر کے جیسی گرجدار آواز میں فرمایا،بھوووں،ں،ں،، بس دوستوں اس دن سے اب اس کان میں بس زوں زوں ہوتی رہتی ہے اور کچھ سنائی نہیں دیتا،،تو بھائی اب میں نے تو طے کرلیا ہے کہ اس شعر پر عمل کروں گاکہ”کس کس پہ غور کیجئے کس کس کو روئیے،،آرام بڑی چیز ہے منہ ڈھک کے سوئیے۔۔(خرم علی عمران)۔۔