تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،بارش ایسی سازش ساتھ لاتی ہے کہ خارش شروع ہوجاتی ہے۔۔ ہر بندے کو بارش دیکھ کر خارش ضرور ہوتی ہے۔۔کسی کو خارش ہوتی ہے کہ ایسے شاندار موسم میں سموسے ،پکوڑے اور چائے ضرور ہونے چاہیئے، پھر وہ اپنی اپنی بیویوں یا اہل خانہ کو آرڈر لگادیتے ہیں۔۔کسی کو خارش ہوتی ہے کہ ۔۔موسم کا لطف لانگ ڈرائیوسے لینا چاہیئے۔۔کسی کو خارش ہوتی ہے کہ ۔۔بائیک لے کر سڑکوں پرمٹر گشت کیا جائے۔ کسی کو خارش ہوتی ہے کہ۔۔ بارش کا بہانہ کرکے آفس سے چھٹی کرلی جائے۔۔ کسی کوخارش نہیں بلکہ تکلیف ہوتی ہے کہ بارش سے چھت تو ٹپک ہی رہی ہے کہیں چھت بیٹھ نہ جائے۔۔الغرض بارش کے ساتھ ہی سب کو الگ ،الگ طرح کی خارش شروع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے ہم بارش کو سازش کہتے ہیں۔۔کراچی ان دنوں بارشوں کی لپیٹ میں ہے۔ آج بھی بارش کی پیشگوئی ہے۔۔عید سے پہلے کی بارشیں اسٹارٹ ہیں۔۔ بارش کراچی والوں کے لیے ہمیشہ رحمت کے بجائے زحمت ہی بنتی دیکھی ہے ہم نے۔۔ان بارشوں میں بھی جگہ جگہ ’’واٹرپارک‘‘ بنے ہوئے تھے، شاہراؤں پر دریا بہہ رہے تھے۔۔خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔ آئیے اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔ ہمیں لگتا ہے مرزا غالب اپنے دور میں کراچی میں رہے ہیں۔وہ ایک خط میں برسات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔ ۔دیوان خانے کا حال محل سرا سے بدتر ہے، میں مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدان رحمت سے گھبرا گیا ہوں، چھت چھلنی ہو گئی ہے، ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔۔برسات کی ایک خوبصورت رات میں شبنم سے بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!۔۔ایک بچے نے اپنی بڑی بہن سے پوچھا۔۔ باجی جب آسمان سے بارش گرنے لگتی ہے تو پانی کہاں چلا جاتا ہے؟۔۔باجی نے جواب دیا۔۔ مجھے کام کرنے دو میں مصروف ہوں۔۔بچہ ضدی تھا، اڑ گیا، بولا۔۔ نہیں نا مجھے بتائیے!۔۔باجی نے ڈانٹ کر کہا۔۔ میرا کام ختم ہونے دو۔۔ضدی بچے نے جواب دیا۔۔ بتاؤ ورنہ میں آپ کو کام نہیں کرنے دوں گا۔۔باجی نے ناک صاف کرتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا۔۔ میرے سر میں۔۔بچہ کہنے لگا۔۔ اچھا اسی لیے تو میں کہوں کہ ہر وقت ناک کیوں صاف کرتی ہو۔۔ایک خان صاحب جب بھی کپڑے دھونے لگتا ،موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی۔ ایک دن موسم صاف دیکھ کر خان صاحب نے کپڑے دھونے کا سوچا اور دکان سے سرف خریدنے چلا گیا۔ جیسے ہی وہ دکان میں داخل ہوا تو بہت زور سے بادل گرجا۔۔خان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔کدر؟ ام تو نسوار لینے آیا ہے۔۔۔ باباجی کی بیٹھک میں ہم سب چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔۔باباجی بڑے مضطرب سے نظر آئے۔ہمیں کچھ پلے نہ پڑا کہ بارش شروع ہونے سے باباجی اتنے پریشان کیوں ہو رہے ہیں۔بالآخر پوچھ ہی لیا۔۔باباجی ،خیرتو ہے، پریشان سے لگ رہے ہیں بہت۔۔ باباجی بولے۔۔ آپ کی بھابھی مارکیٹ گئی ہوئی ہے اور بارش شروع ہو گئی ہے۔۔ہم نے باباجی کی بات سنی تو حوصلہ دیا۔۔تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ کوئی بچی تو نہیں ہیں کہ بارش میں بھیگ جائیں گی۔ بارش سے بچنے کے لیے کسی نہ کسی شاپنگ مال میں چلی جائیں گی۔۔۔باباجی نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔۔یہی تو پریشانی کی بات ہے۔۔ ملک میں بجلی کا جو شارٹ فال چل رہا ہے اور جس تندہی سے لوڈشیڈنگ جاری ہے۔۔ ہمیں لگتا ہے کچھ ہی روز میں وزیرداخلہ ایف آئی اے کو ہدایت دے رہے ہوں گے کہ۔۔وہ تمام اداکارائیں جن کے انگ انگ میں بجلی بھری ہے ان کو گرفتار کر کے قوم کو بجلی فراہم کی جائے۔۔ویسے سنا ہے کہ وفاقی حکومت ان دنوں اُس گلوکارہ کی تلاش میں ہے جس نے 1976میں ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘گایا تھا۔گورنمنٹ انہیں132KV گرڈ اسٹیشن نندی پورمیں انسٹال کرنا چاہتی ہے۔۔ویسے حکومت نے جس اندھادھند طریقے سے ٹیکس نافذ کرنا شروع کردیئے ہیں، اس نے لوگوں کی ازدواجی زندگیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔۔ ایک خاتون خانہ نے اپنے شوہر سے سوال کیا۔ تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟۔۔شوہر نے جواب دیا۔۔ بہتر فیصد۔۔ بیوی نے حیران ہوکر پوچھا۔۔ سوفیصد کیوں نہیں؟؟ شوہر بے چارگی سے کہنے لگا۔۔28فیصد جی ایس ٹی اشیائے تعیش پر عائد ہوتا ہے۔۔شوہروں کو ہر دم دھڑکا لگارہتا ہے کہ بیوی کہیں پیسے نہ مانگ لے۔۔ میاں بیوی کمرے میں خاموش بیٹھے تھے۔۔ بیوی سوچ رہی تھی کہ۔۔ یہ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا؟۔۔کیا میں موٹی اور بھدی ہو گئی ہوں؟۔۔ کیا اس نے میرے چہرے پر کیل دیکھ لیا ہے جو صبح نکلا تھا؟۔۔ کیا یہ کسی اور کو چاہتا ہے؟۔۔ کیا یہ دوسری شادی کے بارے میں سوچ رہا ہے؟۔۔دوسری طرف ٹیکسوں اور کم تنخواہ کے بوجھ تلے شوہر سوچ رہا تھا کہ۔۔گل کیتی تے کتھے پیسے ای نہ منگ لیوے، چُپ ای رہنا چاہی دا اے۔۔شادی کی چھٹی سالگرہ پر کراچی کا ایک جوڑا پہلی مرتبہ تفریح کے لیے سوات گیا۔ سوات کی خوبصورتی سے دونوں بہت خوش تھے۔۔وادی کالام پہنچے تو بیوی نے کہا ۔۔یہاں کی مسحور کن فضا اور حسین مناظر نے تو میری زبان گنگ کر دی ہے۔۔شوہر نے خوشی سے لبریز لہجے میں جلدی سے کہا۔۔میرا خیال ہے ہم گلشن والا فلیٹ بیچ کر یہیں ایک مکان بنا لیتے ہیں۔۔۔ ایک جلسے میں تقریر کرنے کے بعد سیاستدان نے اپنے سیکریڑی کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔میں نے تمہیں 15 منٹ کی تقریر لکھنے کو کہا تھا، تم نے ایک گھنٹے کی تقریر لکھ دی۔۔۔سیکرٹری نے سیاست دان کو غور سے دیکھتے ہوئے جلدی سے جواب دیا۔۔جناب میں نے پندرہ منٹ کی ہی تقریر لکھی تھی۔لیکن آپ جاتے ہوئے تقریر کی چار کاپیاں اٹھا کر لے گئے تھے۔۔ گزشتہ عام انتخابات میں موبائل فون پر پاکستان تحریک انصاف کی کمپین کے سلسلے میں ایک ہی سوال پوچھا جاتا تھا۔۔ ایک لہوری کو اچانک موبائل فون پر پی ٹی آئی کی طرف سے پیغام آیا۔۔۔کیا آپ عمران خان کے ساتھ ہیں؟۔۔لہوری نے جواب لکھا۔۔نئیں، تہاڈی بھرجائی کول بیٹھا واں۔ خیریت؟۔۔آپ نے برسات یا بارش کے حوالے سے پڑوسی ملک کا یہ سپرہٹ گانا تو ضرور سنا ہوگا۔۔یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو۔بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی۔مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون۔وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔۔اس کا سیاسی ورژن کچھ اس طرح سے ہوگا۔۔۔زرداری بھی لے لو، شہباز بھی لے لو۔۔ بھلے چھین لو مجھ سے میرا نیازی۔۔مگر مجھ کو لوٹا دو وہ قیمتیں پرانی۔۔وہ آٹا، وہ چینی، وہ بجلی وہ پانی۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سب مطلب کی بات سمجھتے ہیں،کاش کوئی بات کا مطلب بھی سمجھے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔