تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
چار مئی کو شکرگڑھ میں عزیز ترین صحافی دوست جناب ملک یونس کی دختر نیک اختر کی شادی تھی۔۔شادی تقریب کیا ٹھہری “مجلس یاراں” ہی بن گئی۔۔کئی دیرینہ دوستوں کے ساتھ ایک عرصے بعد بغل گیر ہونے کاشرف ملا۔۔نارووال کے واحد ادب دوست اخبار نویس جناب ملک سعید الحق۔۔سنئیر صحافی جناب اعظم خاور۔۔رکن پنجاب اسمبلی جناب رانا عبدالمنان خان۔۔شکرگڑھ پریس کلب کے سابق صدور جناب عبدالستار دنیا۔۔جناب انعام الحق چودھری۔۔جناب اظہر عنایت۔جناب دلشاد شریف۔منظور حسین ۔ قبلہ حافظ ابرار نصیب اور” بھائی جان” یاسین چودھری سے مل کر ماضی کے کتنے ہی دریچے وا ہو گئے۔ماضی کے جھروکوں سے خوش گوار یادیں شبنم کی طرح بوند بوند برسیں۔۔تقریب کے دوران سوچنے لگا کہ وقت بھی کیسے سر پٹ بھاگتا ہے۔پتہ بھی نہیں چلا اور پچیس چھبیس سال پر محیط دوستی کا نا قابل فراموش دورانیہ بیت بھی گیا۔۔دوستوں کی اس” کہکشاں” میں مجھے سات سمندر پار دو دوست جناب افضل ضیا اور جناب توحید سرور شدت سے یاد آئے۔۔یہ دونوں دوست میری ملک یونس سے دوستی کی وجہ بنے۔ ۔ فرانس میں مقیم “مہم جو”توحید سرور اور امریکہ میں رہائش پذیر “صلح جو “افضل ضیا کا میرے ساتھ عجیب “ٹیکنیکل لنک”تھا۔ ۔ ۔ ۔۔نوے کی دہائی میں ترانوے سے ستانوے ہمارے کالج کا زمانہ تھا۔۔ صحافت کا “جنون” سر چڑھ کر بول رہا تھا۔۔اتنا سر چڑھ کر کہ میٹرک سے ایف ایس سی چار سال سائنس پڑھنے کے بعد زندگی میں عجب موڑ آیا۔۔پسرور کے گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور میں ساتویں کلاس کے دانشور استاد جناب “ابن آدم پسروری” کی ادب و صحافت کے بارے میں” سلگائی چنگاری ” شعلہ بن کر بھڑک اٹھی اور ہم نے گریجویشن میں صحافت پڑھنے کی ٹھان لی حالانکہ تب کیا اب بھی شکرگڑھ کالج میں جرنلزم کا مضمون نہیں۔۔اس “ایڈونچر” کے لیےہم بی اے فارسی کے” مرشد “جناب سید جعفر حسین جعفر سے بھی ہاتھ کر گئے۔۔وہ یوں کہ ہم نے کالج میں ریگولر طالب کے طور پر باقاعدہ دو سال فارسی کی کلاس لی…تھرڈ ائیر میں اچھے نمبر لیے..فورتھ ائیر کے تمام ٹیسٹ کلئیر کیے لیکن جب بی اے امتحان کے لیے داخلے کا وقت آیا تو ہم کالج سے “غائب “ہو گئے۔۔پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس گئے…لائن میں لگ کر جرنلزم سبجیکٹ کے ساتھ پرائیویٹ داخلہ بھجوادیا۔۔امر واقعہ یہ تھا ہم کالج میں فارسی مگر “پس پردہ” گھر میں صحافت کی تیاری فرما رہے تھے…جناب عبدالسلام خورشید سے عابد تہامی صاحب تک ،تمام بڑے اساتذہ کرام کی ساری کتابیں حفظ کر چکے تھے۔ ۔۔جعفر شاہ صاحب ہماری اس “نا زیبا حرکت “پر ہم سے کئی سال کئی سال خفا رہے۔۔آخر 2008میں ہماری دعوت پر ہمارے پاس روزنامہ آج کل تشریف لائے۔۔میں نے انہیں جناب تنویر عباس نقوی سمیت اپنے کئی دوستوں سے ملوایا۔۔جاتے وقت مجھے گلے لگایا اور کہنے لگے آج مجھے آپ کو صحافی دیکھ کر خوشی ہوئی۔۔میں نے بھی عقیدت سے ان کے ہاتھ چوم لیے۔۔جعفر صاحب میرے مہربان تھے۔۔انہوں فرسٹ ائیر کی فارسی گائیڈ بک لکھی تو اس میں میرا بھی نام لکھا۔۔کالج میں بیٹھے ایک دن ایک لطیفہ ہوا۔ ۔ کہنے لگے بیٹے آپ کا لہجہ شکرگڑھ سے نہیں ملتا ۔۔میں نے کہا کہ سر میں پسرور سے اعلی تعلیم کے لیے شکرگڑھ آیا ہوں۔۔اس پر خوب قہقہے لگے۔۔جناب افضل ضیا ان دنوں شکرگڑھ میں روزنامہ جنگ کے باقاعدہ نامہ نگار تھے اور توحید سرور بے قاعدہ نامہ نگار۔۔توحید کو اخبار اور خبروں سے عشق تھا۔۔وہ ایک طرح طرح کے “ہد ہد” تھے۔۔ان کی پٹاری طرح طرح کے آئیڈیاز بھی ہوتے تھے۔۔وہ اللہ واسطے خبریں ڈھونڈتے۔۔ پانچ دس کلومیٹر سفر کرکے میرے پاس آتے۔۔مجھ سے خبر لکھواتے۔۔افضل صاحب کے پاس جاتے۔۔مہر لگواتے۔۔پھر پوسٹ یا فیکس کرتے۔۔۔افضل صاحب ٹھہرے نظریاتی آدمی۔۔انہوں نے بھی ہمارے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔۔جو لکھ دیتے وہ مہر تصدیق ثبت کر دیتے۔۔۔توحید صاحب ایک دن تحریک انصاف شکرگڑھ کے صدر کی خبر لے آئے اور وہ صدر تھے ملک یونس۔۔کہنے لگے ملک صاحب دوست ہیں ان کی خبر بہت ضروری ہے۔۔اگلے دن جنگ میں ملک یونس کی سنگل کالم خبر چھپی تو وہ دیوانے ہوگئے۔۔کچھ مہینے گذرے تو توحید سرور کو دور کی سوجھی اور انہوں نے ملک یونس کو بھی نامہ نگار بنانے کی مہم شروع کردی۔۔وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے ملک یونس یار باش آدمی ہیں۔ ۔ذرا جناب ضیا شاہد کے نام خوشخط درخواست لکھ دیں۔۔ضیا صاحب خود بھی کاتب تھے اور خوش خطی پسند کرتے تھے۔۔توحید سرور ملک صاحب کو ضیا صاحب پاس لے گئے۔۔انہوں نے درخواست دیکھی اور ملک صاحب کو بھی اور پھر انہیں عدنان شاہد صاحب پاس بھیج دیا۔۔عدنان صاحب بھی درخواست میں کھو گئے اور پھر “اپروول”دیدی۔۔یوں ملک صاحب روزنامہ خبریں کے نور کوٹ میں نامہ نگار بن گئے۔۔ملک یونس کے نامہ نگار بننے کے بعد گویا میں اور توحید سرور نمائندے بن گئے۔۔کالج ہوتا۔۔خبریں ہوتیں اور افضل صاحب یا پھر ملک صاحب کا دفتر ہوتا۔۔میں اور توحید سرور صاحب وہ خبریں تلاش کر لاتے جو نامہ نگاروں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوتیں اور نامہ نگار انگشت بدنداں رہ جاتے کہ ملک صاحب کہاں سے خبریں لیتے ہیں۔۔کئی بار تو نامہ نگاروں کو اپنے اداروں سے نوٹس بھی ہوجاتے۔۔ملک یونس میں ایک خاندانی بندے والی تمام خوبیاں بدرجہ اتم ہیں۔۔وہ مہمان نواز بھی ہیں اور باادب بھی۔۔مجھے یاد ہے کہ میں بطور طالب علم ان کے پاس جاتا تو وہ تپاک سے ملتے اور اپنی کرسی چھوڑ دیتے۔۔میں جب تک کوئی خبر یا فیچر لکھتا وہ مؤدب کھڑے دیکھتے رہتے۔۔وہ حیران ہوتے کہ میں کوئی خبر “رف” نہیں لکھتا۔۔انہیں شوق تھا کہ ان کا بیٹا زید بھی خوش خط لکھتے۔۔وہ کبھی زید کو بھی بھلا بھیجتے اور مجھے اس کی ہینڈ رائٹنگ دکھاتے۔۔بات توحید سرور سے کہاں جا نکلی۔۔وہ ایک مرتبہ عجیب خبر ڈھونڈ لائے اور وہ یہ کہ شکرگڑھ کی خاتون ایجوکیشن افسر نے ایک سکول کی ہیڈ مسٹریس کو مراسلہ بھیجا کہ فلاں تاریخ کو کلاس فور کے ساتھ پیش ہوں۔۔محترمہ لیٹر دیکھ کر اتنا بوکھلا گئیں کہ درجہ چہارم کے ملازمین کے بجائے چوتھی جماعت کی طالبات کو لیکر اے ای او آفس پہنچ گئیں۔۔خبر چھپی تو تعلیمی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔۔ان دنوں ایک اور خبر نے تہلکہ مچا دیا۔ ۔ شکرگڑھ کے تاریخ ساز گورنمنٹ مینگڑی سکول کے ہیڈ ماسٹر اشرف کو سیاسی بنیاد پر ہٹا کر محمود نامی استاد کو ادارے کا سربراہ بنادیا گیا۔۔اشرف صاحب نے محکمے کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔۔محکمے نے ماسٹر محمود کا امتحان لیا تو وہ فیل ہو گئے۔۔یہ رپورٹ میرے اور ملک یونس کے ہاتھ لگ گئی۔۔۔رپورٹ میں لکھا تھا کہ محمود صاحب پانچ سو پانچ تقسیم پانچ کا سوال بھی حل نہیں کرسکے۔۔اسی طرح اسلامیات کے ایک آسان سے سوال کا بھی جواب نہیں پائے۔۔رپورٹ میں لکھا گیا کہ موصوف ہیڈ ماسٹر تو کیا ٹیچر رہنے کے بھی اہل نہیں۔۔ اس خبر نے پورے پنجاب میں طوفان اٹھا دیا۔۔اس وقت کے وزیر تعلیم عمران مسعود نے کسی ایک پریس کانفرنس میں یہ موضوع اٹھایا اور کہا کہ سکول اساتذہ کو ریفریشر کورسز نہ کرائیں تو کیا کریں انہیں تو پانچ سو پانچ تقسیم پانچ بھی نہیں اتا۔۔شکرگڑھ میں تو پانچ سو پانچ تقسیم پانچ باقاعدہ مذاق بن کر رہ گیا۔۔اسی خبر نے اس درویش نامہ نگار کو بھی نکھار دیا جس نے فوٹو کاپی کراکے خبر اپنے اخبار کو بھیجی اور پھر انہیں دھمکیوں کے باعث لاہور ہجرت کرنا پڑی۔۔یہ کہانی کبھی پھر سہی۔۔تب کسی نامہ نگار کی خبر صفحہ اول اور صفحہ آخر پر چھپ جاتی تو” پھنے خاں” سمجھا جاتا۔۔خبریں کے صفحہ اول پر کوٹلی آزاد کشمیر سے مجاہدین کے کیمپ سے بھارتی جاسوس کی گرفتاری کی خبر ملک یونس کے نام سےچھپی تو کھلبلی مچ گئی۔۔اتنی خبریں اور اتنے فیچر ہیں کہ ان کے لیے کالم نہیں کتاب درکار ہے۔۔خبروں کے علاؤہ بھی کتنے ہی ایڈونچر ہیں۔۔ملک صاحب کی مشروب کمپنی کی فرنچائز۔۔باردانے کے حصول اور بابرکت دکان کی بحالی کے لیے ہم کہاں کہاں نہیں گئے۔؟؟؟
قبیلے اور برادریاں” گفتار نہیں کردار سے کھلتی ہیں۔۔خاندانی بندے کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ وقت بدلنے پر بدلتا نہیں بلکہ برے وقت میں دوستوں کے احسانات دوگنا کرکے لوٹاتا ہے۔۔ملک یونس چاہتے تھے کہ میں لاہور میں صحافت کروں۔ خبریں لاہور کے نیوز ایڈیٹر ندیم شیخ اور فضل حسین اعوان کے ساتھ ان کے اچھے مراسم بن گئے تھے۔۔انیس ننانوے کے وسط میں ابھی میں ایم ایس سی ماس کمیونیکشن کے دوسرے سیمسٹر کا طالب علم تھا کہ وہ میری انگلی پکڑ کر مجھے روزنامہ صحافت میں فضل اعوان صاحب کے قدموں میں بٹھاآئے۔۔فضل صاحب مجھے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب طاہر پرویز بٹ کے پاس لے گئے۔۔انہوں نے میرے تعلیمی کوائف دیکھے اور مجھے ٹرینی سب ایڈیٹر بھرتی کرلیا۔۔تب سے اب تک بٹ صاحب اور اعوان صاحب سے بھی احترام کا رشتہ ہے۔۔”اچھل کودیوں” کے ہجوم میں ملک یونس وہ علاقائی کارسپانڈنٹ ہیں جن کی ایمان داری کی گواہی آنکھیں بند کرکے دی جا سکتی ہے۔۔ انہوں نے صحافت کے نام پر ایک پائی بھی نہیں کمائی۔۔انہوں نے آدھے مرلے کی زرعی شاپ سے رزق حلال کمایا۔۔شاید اسی رزق حلال کی برکت ہے کہ ان کی صاحب زادی نے ایف ایس سی میں لاہور بورڈ ٹاپ کیا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لیکر اپنے والد کا سر فخر سے بلند کیا جبکہ ان کے بیٹے نے بھی انجنئیر بن کر ان کا مان بڑھایا۔۔ہم اسی ہونہار بیٹی کی رخصتی کی تقریب میں شریک تھے اور اسی انجنئیر بیٹے نے ہمیں اپنے باپ ساتھ “خوش آمدید”کہا۔۔اللہ کریم ہماری بیٹی کو زندگی کا نیا سفر مبارک کرے۔۔(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔