تحریر: علی عمران جونیئر
دوستو، آج یوم آزادی ہے،ملک بھر میں جشن منایاجارہا ہے، اس بار تو تعلیمی ادارے بند ہیں، ورنہ ہمارے زمانے میں تو ہر چودہ اگست پر اسکول کو سجایاجاتا تھا ، پھر بچے ملی نغمے، ٹیبلوز، ترانے اور حب الوطنی سے لبریز تقاریر کا مقابلہ کرتے تھے۔۔گزشتہ سال ہمارے دوست کے ایک اسکول میں ایسی ہی تقریب رکھی گئی۔۔پروگرام تو جشن آزادی کا تھا لیکن تقریر کے لئے ٹاپک دیاگیا ۔۔آؤ جھوٹ بولیں۔۔ ہمیں بھی اصرار کرکے اسٹیج پر بلایا گیا اور موضوع کے حوالے سے کچھ کہنے کے احکامات دیئے گئے۔۔دوست چونکہ پیارا تھا، اس لئے انکار نہ کرسکے اور اللہ کا نام لے کر شروع ہوگئے۔۔ باتیں ایسی کڑوی ہیں کہ شاید آپ کو آسانی سے ہضم نہ ہوسکیں۔۔ تو چلئے جشن آزادی جھوٹ بول کرسچے طریقے سے منانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
آج مجھے جھوٹ بولنے کی دعوت دی گئی ہے۔۔ حالانکہ جھوٹ کی اس پرفریب دنیا میں جہاں ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔۔ جہاں جھوٹ دکھتا ہے اور جھوٹ بکتا ہے۔۔ اگر سچ بولنے کی دعوت دی جاتی تو شاید بہت سے لوگوں کے نامہ اعمال میں چند نیکیاں ہی آجاتیں۔۔صدر ذی وقار۔۔ جھوٹ بولنے کی تربیت تو ہمیں ہمارے والدین بچپن سے ہی دینا شروع کردیتے ہیں۔۔ جب گھر پر پپا کو کوئی دوست آجائے اور پپا کا موڈ نہ ہو تو وہ ہم سے کہلوادیتے ہیں کہ جاؤ کہہ دو۔۔ پپا گھر پر نہیں ہیں۔۔ جب پڑوس سے بچی گھر میں پیاز یا کوئی اور چیز مانگنے آجاتی ہے تو مما کہتی ہیں جا کر منع کردو کہ ہمارے گھر بھی ختم ہوگئی۔۔گھر پر مہمان آجائیں اور انواع و اقسام کی ڈشز سے دسترخوان بھرا ہوا ہو۔۔۔ جنہیں دیکھ دیکھ کر ہماری رال ٹپک رہی ہو اور پیٹ میں چوہے چاروں قل زوروشور سے پڑھ رہے ہوں تب بھی مما ہی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ کہہ دینا ابھی کھا کے بیٹھے ہیں۔۔ جھوٹ کی ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن کی ٹریننگ دے کر ہمیں ہمارے والدین کمانڈوز بنادیتے ہیں۔۔ اب بھی یہاں کئی والدین بیٹھے ہیں جو میری کسی بات سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔۔
بچپن سے ہماری بنیادوں میں جب جھوٹ کی آبیاری کی جاتی ہے تو پھر اس کی عادت سے پڑجاتی ہے۔۔کہتے ہیں عادتیں وقت کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی ہیں پھر بوڑھی ہوکرانسان کے ساتھ ہی دم توڑ دیتی ہیں۔۔آج اگر ہم اپنے آس پاس نظریں دوڑائیں تو ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ملے گا۔۔ ہم مغرب کی نماز پڑھیں نہ پڑھیں اہل مغرب کی تقلید کرتے نظر آئیں گے۔قصاب پریشر والا گوشت بیچ رہا ہے۔سبزی والا جب اپنی سبزیوں پر پانی چھڑکتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی سبزیوں کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہا ہے بلکہ اس طرح وہ ان کا وزن بڑھا رہاہوتا ہے۔۔تربوز۔۔ خربوزہ۔۔ سردا اور گرما میں انجکشن کے ذریعے میٹھا ڈالا جاتاہے۔۔چیری پر گلابی رنگ پھیرا جاتا ہے۔۔دودھ میں جتنا پانی نظر آتا ہے اتنا تو نلکوں میں بھی نہیں آتا۔۔پہلے لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر کی جاتی تھی اب فروٹ والوں کو اپنے کیلے اور آم کیمیکل سے پیلے کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔۔صدر ذی وقار۔۔ کھانے پینے کے معاملات ہوں یا جینے کے عام حالات۔۔ادائیں ہوں یا وفائیں۔۔ پیار محبت ہو یا حیل حجت۔۔موج مستی ہو یا نااہلی و سستی۔۔ہر جگہ آپ کو جھوٹ ہی جھوٹ نظر آئے گا۔۔
محترم صاحب صدر۔۔ جب آپ کہتے ہیں کہ آو کچھ دیر جھوٹ بولیں تو پھر مجھے بھی کچھ جھوٹ بولنے کی اجازت دیجئے۔۔سب سے بڑا جھوٹ تو یہ ہے کہ ہم ایٹمی ملک ہیں۔۔ کیا کسی ایٹمی ملک میں آدھے سے زیادہ دن بجلی
غائب رہتی ہے؟؟ایک اور جھوٹ بڑے تواتر اور ڈھٹائی سے بولا جاتاہے کہ۔ ہم سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔۔ حیرت ہے یہ کیسے پاکستانی ہیں جو ٹریفک سگنل پر ایک منٹ بھی رکنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جوبسوں میں خواتین کی سیٹوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو جعلی دوائیاں بیچتے ہیں۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو اپنے نجی اسپتال میں مریض کو داخل کرنے سے پہلے ایک موٹی رقم جمع کروانے کا حکم دیتے ہیں۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جنہوں نے تعلیم کو بزنس بنالیا۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو سڑک پر زخمیوں کو تڑپتا دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیںیاپھر موبائل سے وڈیو بنانے لگتے ہیں؟۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو عید میلاد النبی پر بجلی چوری کرتے ہیں۔۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو آج تک سچے اور پکے پاکستانی نہیں بن سکے۔۔؟؟؟
جناب والا۔۔ کیا یہ جھوٹ نہیں کہ ایان علی ہماری نظر میں اتنی محترم ہوگئی کہ اسے شہر کی سب سے بڑی جامعہ میں لیکچر کیلئے بلایا جاتا ہے۔۔کیا یہ بھی جھوٹ نہیں کہ ایک سیاسی
لیڈر کے گھر طلاق کی خبر اتنی اہم ہوتی ہے کہ اس دن باقی کسی اور خبر کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔۔صاحب صدر۔۔ ایک کڑواکسیلا جھوٹ ہمیں ہر قومی سانحے پر سنایا جاتا ہے۔۔ ملزمان کی گرفتاری کیلئے کمیٹی بنادی گئی۔۔ دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔۔ کسی کو اس ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔ اب کوئی ان سے ذرا یہ پوچھے۔۔ کیا دہشت گرد اپنی کارروائی سے پہلے آپ کو چٹھی لکھیں گے کہ جناب۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون میں ایک عدد بم پھوڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے عین نوازش ہوگی۔۔ آپ کا تابعدار۔۔دہشت گرد۔۔
کچھ الفاظ ہماری زندگیوں میں ایسے شامل ہوگئے ہیں جنہیں سن کر کر دل و دماغ جھوٹ جھوٹ کی گردان کرنے لگتا ہے۔۔مثال کے طور پر۔گڈ گورننس۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ۔تعلیم فری۔علاج فری۔ بیروزگاری کا خاتمہ۔قانون کی عمل داری۔فرض شناس پولیس۔ خالص اشیا کی فروخت۔۔ ویسے اب اس معاشرے میں خالص تو صرف ماں کا پیار ہی ہے۔۔ مگر اسے بھی ٹی وی کمرشل نے خراب کرنے کی کوشش کی۔۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا۔۔ اب کون سی ماں اپنے بچوں کی صحت سے کھیلے گی؟؟؟جس ملک میں یوٹیوب کو زخموں پر لگائی جانے والی گھوڑے کی ٹیوب سمجھ لی جائے اور اسے سائیڈ پر رکھ کر بھلادی جائے۔۔ جہاں جوڈوکراٹے کے بغیر ککس بیکس عام ہوں۔۔ جہاں فائلوں کے نیچے نوٹوں کے پہیے لگتے ہوں۔ جہاں پولیس کے پاس جانے سے مدعی بھی خوفزدہ ہو۔ جہاں کرکٹ گراونڈ کے بجائے سڑکوں پر کھیلی جائے۔ جہاں لوگ فٹ پاتھوں پر چلنے پر مجبورہوں۔ جہاں ٹی وی کے بلیٹن گیت مالا بن جائیں۔ جہاں سب سے زیادہ طلاقیں لومیرج کرنے والوں کے درمیان ہوں۔ جہاں بناسپتی گھی میں ایسنس ڈال کر اسے اصلی گھی کے طور پربیچاجائے۔۔ جہاں پانی۔۔ ڈیزل اور پٹرول کی گاڑیوں پر رکھ کرفروخت کیا جائے۔۔ جہاں دودھ۔۔ پٹرول، ڈیزل اور سی این جی سے بھی مہنگا ہو۔۔ جہاں جس کی مرضی سڑک کو کھود کر رکھ دے۔ جہاں لوگ عرصے سے کھوتے کا گوشت کھاتے ہوں۔ جہاں گیس چولہوں کے بجائے نلکوں سے آتی ہو۔۔ جہاں مائیں اپنے بھوسی ٹکڑوں کی طرح بیٹوں کیلئے چاند کا ٹکڑا بہو تلاش کرے۔ جہاں گلی گلی میں انگریزی میڈیم اسکول کھلے ہوں مگر ان کی میڈیموں کو انگریزی کا ایک لفظ نہ آتا ہو۔۔جہاںٹائم کا اندازہ سورج کے بجائے لائٹ آنے جانے سے لگایا جائے۔۔ایسی جگہ پر کس کو ضرورت ہے کہ جھوٹ بولے۔اور اب جاتے جاتے آخری بات کہنا چاہوں گا۔۔اللہ نے قرآن میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے۔۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم ایسی حرکتیں کرکے لعنتیوں میں تو شمار نہیں ہو رہے؟؟ آپ سب کو یوم آزادی مبارک۔