shartiya meetha | Imran Junior

ساگ سرزمین شادباد۔۔۔

علی عمران جونیئر

دوستو،سردیوں کی آمد آمد ہے، راتیں طویل اور دن چھوٹے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں تو گرم کپڑے تک نکل آئے ہیں، کراچی سمیت سندھ میں ابھی ٹھنڈ محسوس نہیں ہورہی ، لیکن شام ہوتے ہی خنکی بڑھ جاتی ہے اور ہوائیں پتہ دیتی ہیں کہ جلد کوئی آنے والا ہے۔ جس طرح سردیوں کے ملبوسات الگ ہوتے ہیں اس طرح سردیوں کی خوراکیں، کھانے اور سوغاتیں بھی سب سے الگ ہوتی ہیں۔ دیہات میں تو ساگ پکنے کے مقابلے شروع ہوجاتے ہیں،سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ سردیاں آنہیں رہیں بلکہ آچکی ہیں۔ساگ کے حوالے سے ہمارے پیارے دوست نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر کچھ ریسرچ کی، جس کے بعد انہوں نے ہمیں جو تحریر بھیجی ہے۔ پیش خدمت ہے۔

ساگ ایک سبز رنگ کی ڈھیٹ قسم کی سبزی ہوتا ہے، ڈھیٹ اس لیے کہ جس گھر میں گھس جائے دو دو ماہ پڑا رہتا ہے، سردیوں کے کچھ ماہ تو اس کی حیثیت گھر کے فرد جیسی ہوجاتی ہے، ناشتے، لنچ اور ڈنر میں ماؤں کو اتنی فکر اپنے بچوں کی نہیں ہوتی جتنی ساگ کی ہوتی ہے، اکثر گھروں میں ۔۔ارے ساگ کہاں ہے۔۔ جیسے جملے تواتر سے سننے کو ملتے ہیں۔ سو، یوں کہا جائے کہ ساگ اور روزے سال میں ایک مہینہ ہر مسلمان مرد عورت پہ فرض ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ساگ میں کلیشیم، پوٹاشیم، فولاد، فاسفورس اور آلو کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں، اکثر قدامت پسند گھروں میں ساگ میں آلو نہ ڈالنا ساگ کی بلاسفیمی سمجھا جاتا ہے، بعض گھروں میں تو اتنے برتن بھی نہیں ہوتے جتنی قسموں کا وہاں ساگ بنا ہوتا ہے۔

سردیوں میں اکثر فریج کھولیں تو آلو ساگ، قیمہ ساگ، چکن ساگ، میتھی ساگ ، اور اسی طرح کے چند اور ساگوں سے فریج ”ساگو ساگ” ہوا ہوتا ہے۔ایک عالمی شہرت یافتہ مشہور فیس بکی مورخ اپنے ایک اسٹیٹس میں فرماتے ہیں کہ ساگ کو چاہے پانچ منٹ پکاؤ چاہے پانچ گھنٹے پکاؤ یہ اپنا رنگ نہیں بدلتا، اگر اس کے کچھ اور کلرز مارکیٹ میں لانچ کردئیے جائیں تو یہ ایک اچھی سبزی ثابت ہوسکتا ہے۔ ۔ساگ کے متعلق عورتیں اتنی ایموشنل ہوتی ہیں کہ اگر آپ اپنی امی کے سامنے ساگ کی برائی کردیں تو وہ رو بھی سکتی ہے۔ فی زمانہ اگر کوئی فرد یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے کبھی ساگ نہیں کھایا تو یا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے یا پھر اس کے رشتے دار پنجاب میں موجود نہیں ہیں۔پنجاب کے ضلع جھنگ کی چوڑیاں اور مولوی پورے ملک میں مشہور ہیں، اسی طرح ”لیہ” کا ساگ بھی مشہور ہے۔ اگر کوئی دور پرے کا رشتے دار مہمان بن کر آئے اور ساگ ساتھ نہ لائے تو پھر یا تو وہ رشتے دار نہیں رہتا یا پھر مہمان نہیں رہتا۔

ساگ کی ایک اور خراب بات کہ یہ ایک دن پکاؤ تو ہفتہ ہفتہ چل جاتا ہے، جو لوگ ساگ کو قریب سے جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہوگا کہ اسے کھا کھا کر بندہ خراب ہو جائے تو ہو جائے یہ خود کبھی خراب نہیں ہوتا۔ ہمارے پیارے دوست فرماتے ہیں کہ ساگ انسانی صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ یہ جسم کی کسی چیز کو چھیڑتا ہی نہیں جیسا اندر جاتا ہے، ویسا ہی باہر نکل جاتا ہے۔۔ بہرحال ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ ساگ اور آگ جس گھر کو لگ جائے وہ مشکل سے ہی بچتے ہیں۔ ساگ کے متعلق تاریخ ایسے ہی خاموش ہے جیسے ہم ہر روز سامنے ساگ کو دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر بات پاکستان کی ہو تو اس کے جھنڈے اور ساگ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے یوں لگتا ہے جھنڈے کا ڈیزائن بنانے والا اس وقت ساگ کھا رہا تھا اس لیے ہوبہو ساگ والا رنگ دے دیا ۔اور شاید ساگ میں مکھن بھی موجود تھا اس لیے ساتھ سفید رنگ بھی شامل کردیا۔۔وہ تو شکر ہے حفیظ جالندھری کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ورنہ قومی ترانہ بھی۔۔ساگ سرزمین شاد باد۔۔ ہوجانا تھا۔۔

مورخین لکھتے ہیں کہ سکندراعظم نے یہ کہتے ہوئے پنجاب پر چڑھائی کی کہ۔۔جو قوم ایک پورا دن ساگ پکانے پر ضائع کردیتی ہے وہ انسانیت کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے ۔۔محمود غزنوی کو بتایا گیا کہ دنیا میں ایک ایسا خطہ بھی ہے جو ساگ کو انسانوں کی خوراک کہتے ہیں یوں سترہ حملے وجود میں آئے۔۔غوری سے لیکر ابدالی تک کے لشکر کے جانوروں کا ساگ اسی خطے سے جاتا تھا۔۔یہ تو آپ لوگوں کو پتہ ہی ہوگا کہ انگریزوں نے اس خطے پر کس طرح قبضہ کیا، وہ لوگ پہلے ایسٹ انڈیا نامی کمپنی بناکر تاجروں کی روپ میں اس خطے میں داخل ہوئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے پہلے تاجر کا کہنا ہے کہ ۔۔مجھے یقین ہے ایک دن ہم اس ملک پر قابض ہوجائیں گے کیونکہ یہ ساگ خور قوم ہے۔ ۔ لارڈ میکالے کے بقول۔۔جو قوم ساگ کھاتی ہو وہاں تعلیم کچھ نہیں کرسکتی۔ ۔مشہور سائنسدان نیوٹن کہتا ہے کہ ۔۔ہمارے اور تمھارے درمیان اب ساگ فیصلہ کرے گا۔ الفریڈ نوبیل کا کہنا ہے ۔۔میری بڑی خواہش تھی پنجاب کے لوگ بھی نوبل انعام جیتیں مگر وہ ساگ کھانا نہیں چھوڑ سکتے۔ ۔فرانس کا معروف فاتح نپولین بوناپارٹ نے انکشاف کیا کہ نیپال پر آج تک کوئی حملہ آور فتح حاصل نہیں کرسکا کیونکہ وہ ساگ نہیں کھاتے۔ ۔سرسید احمد خان نے فرمایا۔۔میری قوم اگر ساگ کھانا چھوڑ دے تو کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔ ۔کولمبس کو راستے میں ہی پتہ چل گیا تھا برصغیر میں ساگ کھایا جاتا ہے اس لئے وہ راستہ بدل کر امریکہ نکل گیا۔۔ایک بار عرب کے جانوروں کا ساگ کم پڑگیا تو معلوم ہوا جہاں سے آتا تھا وہاں کے لوگوں نے خود کھانا شروع کردیا ہے اور پھر ان کی سرکوبی کیلئے حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو بھیجا۔ایک منگول کو جب بغداد میں ساگ کھانے کو دیا گیا تو اس نے واپس جاکر چنگیز خان کو شکایت کردی اور پھر چنگیز خان قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ اسکے ایک تاجر نے بتایا کہ دنیا بھر کا ساگ پنجاب سے آتا ہے تو چنگیز خان نے اپنی فوجوں کو پنجاب پر حملہ کا حکم دے دیا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خونی رشتے وہ ”وٹامنز” ہیں جن کے بغیر جوانی تو گزرجاتی ہے لیکن بڑھاپا نہیں گزرتا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں