تحریر: مسرور احمد
یوکرائن پر حالیہ روسی حملے نے ایک بار پھر دنیا کے امن کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ کیونکہ موجودہ دنیا کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ایک دوسرے پر انحصار ہونے کی وجہ سے ملکوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جب دنیا کے کسی خطے میں جنگ کی صورتحال پید اہوتی ہے تو اس میں صرف دو فریق ہی متاثر نہیں ہوتے۔ جس کی تازہ مثال افغانستان ہے جہاں عالمی سطح پر ایک غیر مقبول قوت کی طرف سے طاقت کے زور پرغیر جمہوری انداز میں اقتدار سنبھالنے کی قیمت پوری افغان قوم ادا کر رہی ہے اور افغانستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے کیونکہ دنیا طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کر رہی۔چنانچہ معاشی، تجارتی، سفارتی اور سماجی اعتبار سے دنیا سے کٹے ہونے کے سبب افغانستان اس وقت ایک سنگین انسانی المیے سے دوچار ہے جہاں عام عوام بنیادی اشیائے ضرورت سے محروم اور کسمپرسی کا شکار ہیں۔یوکرائن سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہا ہے جسے اسّی کی دہائی میں جاری افغان وار کے نتیجے میں کمزور ہونے والی روسی فیڈریشن سے دیگر بہت سے ملکوں کے ساتھ آزادی نصیب ہوئی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے برعکس روس نے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور توانائی کے وافر زخائر کی وجہ سے اس کی معیشت کو بھی بہت زیادہ استحکام ملا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے اپنی فوجی قوت کو بھی مضبوط کر لیا ہے۔جبکہ ہم آدھا ملک گنوا کر بھی باقی آدھے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے، ملک کے مختلف طبقات میں معاشی،سماجی ا ور معاشرتی تفاوت دورکرنے کی بجائے بیرونی امداد کے سہارے جینے کی سفاکانہ آرزو کے سہارے ملک چلا رہے ہیں۔ بہر حال روس کا یوکرائن پر حملہ کسی طور پر بھی ایک عقلمندانہ خیال نہیں ہے اور یہ حملہ بیس سال کے عرصے میں بمشکل تمام مستحکم ہونے والی روسی ترقی کو ریورس گیئر بھی لگا سکتاہے۔ یہ ترقی بھی زیادہ تر بیرونی قرضوں کی مرہون منت ہے اور روس دنیا کا بیسواں مقروض ترین ملک ہے۔لگتا ہے کہ صدر ولادی میر پوٹن نے یوکرائن پر حملہ کر کے ایک بہت بڑا جوا کھیلا ہے کیونکہ تلاش بسیار کے باوجود مجھے اس حملے کی کوئی ٹھوس وجوہات نظر نہیں آئیں سوائے اس کے کہ روس کے توسیع پسندانہ عزائم ماضی کی طرح ایک بار پھر انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ اس غیر ضروری جنگ کی وجہ سے روس کو اموات کی صورت میں شدیدعالمی تنقید، روسی لوگوں کی طرف سے دوسرے ملک میں مداخلت کے سبب پوٹن کی مقبولیت میں کمی، یورپ اور امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں اور بھاری سیاسی قیمت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر دیکھا جائے تو روس یوکرائن تنازعہ میں محض ساس بہو کے روائیتی جھگڑے کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو زرا زرا سی بات پر توتکار کرتی رہتی ہیں۔ اور اس لگائی بجھائی میں کبھی بہو تو کبھی ساس غالب رہتی ہے اور آس پاس والے اس لڑائی اور نوک جھوک سے محض چسکا لیتے ہیں جیسا کہ اب یوکرائن کے مغربی اتحادی لے رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو روس اور یوکرائن کا کوئی مقابلہ نہیں اور ماضی میں ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری اب یوکرائن کے گلے پڑ رہی ہے۔ اگر یوکرائن اپنی ایٹمی صلاحیت برقرار رکھتا تو غالب امکان ہے کہ روس کو جارحیت کی جرات نہ ہوتی۔ یوکرائن کے کچھ سیاسی عناصر روس نواز ہیں جبکہ یوکرائنی حکومت معاشی فوائد سمیٹنے کیلئے اپنا جھکاؤ یورپ اور امریکہ کی طرف رکھتی ہے۔ روس چاہتا ہے کہ اس سے آزاد ہونے والی تمام ریاستیں روسی خارجہ پالیسی کے زیر نگیں رہیں اور یوکرائن پر حملہ روسی فیڈریشن میں رہنے والی آزاد ریاستوں کیلئے ایک دھمکی ہے۔یوکرائنی حکومت اپنی سلامتی کیلئے ناٹو سے اتحاد کرنا چاہتی تھی اور روس اسے اس سلسلے میں کئی بار تنبیہہ کر چکا تھا لیکن یوکرائن کا اصرار تھا کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہونے کے ناطے اسے اپنی خارجہ پالیسی طے کرنا کا اختیار حاصل ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روس یوکرائن پر دباؤ ڈالنے اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے فوجی طاقت استعمال کر رہا ہو۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کے اچانک دورہ روس کی کوئی توجیح کی کسی کو کوئی سمجھ نہیں آرہی۔ میرے خیال میں ان حالات میں جبکہ یورپ اورامریکہ پہلے ہی پاکستان پر فیٹف کا دباؤ ڈالے ہوئے ہیں روس کا دورہ مناسب نہیں تھا جبکہ یوکرائن سے بھی ہمارے بہتر تعلقات ہیں۔ یوکرائن کے امیر ترین بزنس مین اور سٹیل ٹائیکون ڈاکٹر ظہور احمد بھی پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کی مستقل رہنے والی یوکرائنی کمیونٹی کے علاوہ ہمارے ہاں تعلیم کے سلسلے میں بہت سے طابعلم یوکرائن جاتے ہیں۔ یوکرائن کو یقین تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک روس کو جنگ سے باز رکھیں گے لیکن یہاں بھی ان کے ساتھ وہی ہاتھ ہوا جو پاکستان کے ساتھ مشرقی پاکستان میں امریکہ کے ساتویں بیڑے اور چین کے چھاتہ بردار دستوں کا انتظار کرتے ہوا، جنھوں نے نہ آنا تھا اور نہ ہی آئے۔یوں امریکہ، یورپ اور ناٹو کے لالی پاپ نے یوکرائن کی لٹیا ڈبو دی۔ میرے خیال میں امریکہ اور یورپ کے زبانی جمع خرچ سے ذیادہ اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑانے کی ایک وجہ تو روس کی طرف سے دی جانے والی سنگین دھمکیاں ہو سکتی ہیں اور دوسری وجہ روس کو معاشی دلدل میں دھکیلنا بھی ہو سکتا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ اس وقت روس آدھے یورپ کی توانائی کی ضروریات پوری کر رہا ہے اس لئے اسے اپنے اس اقدام پر اعتماد ہے کہ یورپ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اب یہ وقت طے کرے گا کہ اگر یورپی ممالک نے توانائی کے حصول کیلئے متبادل راستے اختیار کرنا شروع کر دیے تو ذیادہ معاملات کس کے بگڑتے ہیں۔ اس سے ایک یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ خارجہ پالیسی طے کرتے وقت ہمسایوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات ملکوں کی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔آپ اچھی لڑائی تب ہی لڑ سکتے ہیں جب آپ کی پشت ننگی نہ ہوورنہ کوڑے پڑنے کے امکانات روشن رہتے ہیں۔ روس یوکرائن تنازعہ نیا نہیں ہے بلکہ سال 2014 اور درمیانی سالوں میں بھی روس وقفے وقفے سے یوکرائن کو یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات سے باز رکھنے اور یوکرائن کے روسی باشندوں کے تحفظ کے بہانے فوجی کاروائی کرتا رہا ہے۔اس کے علاوہ حملے سے قبل یوکرائن میں خانہ جنگی کروا کے روس نے اپنا کام مزید آسان کر لیا اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے یوکرائن کے بڑے علاقے کو روسی یونین میں بھی شامل کرلیا۔ جب کہ یوکرائن کے علاقے کریمیا، لوہانسک اور ڈونیٹسک بھی حالیہ سالوں کے دوران روسی کنٹرول میں جا چکے ہیں۔بہرحال آگ باقی ممالک تک پھیلنے سے پہلے سفارتی طریقے سے اس لڑائی کو روکنا ہو گا۔ امریکہ اور یورپ کو بھی کسی کو نیچا دکھانے کیلئے باقی ممالک کے داخلی معاملات میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے سے رجوع کرنا چاہئے۔ تمام فریقوں بشمول روس کو اپنے مؤقف میں لچک رکھتے ہوئے انسانیت اور عالمی امن کی خاطر اس جنگ کو روک کر مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے چاہئیں۔ ہاں ازراہ تفنن اس لڑائی سے روس کو ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ یوکرائن پر قبضے اور اسے روسی فیڈریشن میں شامل کرنے کی صورت اگر پیدا ہو گئی تو آئندہ عالمی مقابلہ حسن میں مس روس اور مس یوکرائن کے مابین ہونے والے کانٹے دار مقابلے کا پلڑا اب روس کی طرف جھک جائے گا۔(مسروراحمد)۔۔