rumaiza nizami ka zulm kab tak

رمیزہ نظامی کاظلم کب تک؟

تحریر:محمد شاکر حسین

نوائے وقت کے سابق نیوزایڈیٹرحاجی احمد مجاہد ریٹائرمنٹ کے 4 سال بعد بھی واجبات سے محروم۔۔حاجی احمد مجاہد نے 39 سال نوائے وقت کی خدمت کی ،بارش طوفان ہنگامے فائرنگ جلائو گھیرائو میں جان ہتھیلی پر رکھ کر دفتر پہنچے،جوانی کی حسین ورنگین راتیں نوائے وقت کے صفحات کی تزئین وآرائش میں صرف کرتے ہیں،ان کے ماتحت ساتھی بھی مخلص اور نوائے وقت کے جاں نثار تھے۔۔رمیزہ نظامی نے کنٹرول سنبھالتے ہی نوائے وقت اور محترم مجید نظامی کے قلمی سپاہیوں (ملازمین)کے ساتھ وہی سلوک کیاجو فاتح فوج کاسفاک جرنیل مفتوحہ ملک وقوم کے ساتھ کرتاہے ایک طرف قومی اثاثہ نوائے وقت کو تباہ وبرباد کرڈالاتو دوسری طرف اس کے ملازمین کو معاشی طورپر تہ تیغ کرکے نشان عبرت بنادیا۔۔بے روزگاری،بیماری اور بھوک وافلاس کے مارے درجن بھر ملازمین اپنامقدمہ لےکر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے،بہت سے ملازمین کے بچے اسکولوں سے فیس کی عدم ادائیگی پر نکال دیئے گئے۔کئی ورکربیماری اور کسمپرسی کے باعث زندہ لاش بنے ہوئے ہیں۔

صحافی تنظیمیں،وکلاء برادری،انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی کی مسلسل خاموشی پر ماتم کرنے کو دل چاہتاہے۔۔حکمراں اور ارباب اختیار کی چشم پوشی رمیزہ نظامی کے مظالم کی خاموش پشت پناہی کررہی ہے۔۔کیاروزقیامت اللہ کریم ان سے نہیں پوچھیں گے؟

سینئر صحافی حاجی احمد مجاہد ایم اے صحافت گولڈ میڈلسٹ 1979 میں نوائے وقت کراچی کا حصہ بنے ان کا شمارنوائے وقت کراچی کے بانی اراکین میں ہوتاہے۔ان کی صحافت کامطمع نظر محترم مجید نظامی مرحوم کے مشن کی تکمیل اور نسل نو کو نظریہ پاکستان کامحافظ بناناتھا۔ دوران ملازمت دیگر میڈیا ہائوسز سے کئی گناہ زیادہ سیلری پر ملازمت کی آفر ہوئی لیکن انہوں قبول نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ محترم مجید نظامی ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔اخلاقی تقاضہ یہ تھاکہ حاجی احمد مجاہد صاحب اور ان جیسے دیگر سینئر ملازمین کی خدمات کو سراہاجاتااگر ریٹائرمنٹ ضروری تھی تو مکمل واجبات کے ساتھ عزت وتکریم سے ریٹائر کردیاجاتا اور وہ ملازمین جو ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہیں پہنچے تھے ان کی ملازمت کو تحفظ دیاجاتا۔ایسا کرنے سے یقینا  نوائے وقت گروپ بھی  خوب خوب ترقی کرتا جیساکہ میرخلیل الرحمان کی اولادوں نے ملازمین کے ساتھ مل کر جنگ گروپ کو بام عروج پر پہنچایا۔

نوائے وقت کی ترقی سے نظامی صاحبان کی ارواح کو سکون نصیب ہوتا۔لیکن محترم مجید نظامی صاحب کی لے پالک بیٹی رمیزہ نظامی نے نوائے وقت کا کنٹرول سنبھالتے ہی محترم مجید نظامی مرحوم کی 50 سالہ محنت کا ثمرپھلتا پھولتا نوائے وقت اور نظامی صاحب کے  قلمی سپاہیوں اور جانثاروں کے ساتھ وہی سلوک کیاجو کسی ملک کی فوج کا سفاک جرنیل فتح کی مستی میں مفتوحہ ملک و قوم کے ساتھ کرتاہے۔ایک طرف قومی اثاثہ اورملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ نوائے وقت کو تباہ وبرباد کرڈالا تو دوسری طرف اس کے سیکڑوں ملازمین کو معاشی طور پر تہ تیغ کرکے نشان عبرت بنادیاگیا۔  رمیزہ نظامی نے سیکڑوں  ملازمین کی طرح حاجی احمد مجاہد صاحب کو بھی آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ سے محروم رکھنے کے لئے 2018 میں واجبات اور کئی ماہ کی تنخواہیں دیئے بغیر ہی گھر بھیج دیا۔

 سڑسٹھ سال کی عمر میں جب انسان اپناذاتی کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔بیماری اور کسمپرسی کے شکارحاجی احمد مجاہد صاحب اپنے واجبات کی وصولی کے لئے عدالتوں کے دھکے کھانے ،چلچلاتی دھوپ و سخت سردی میں سڑکوں پر احتجاج کرنے اور دھرنادینے پر مجبور ہیں۔۔

محترم حمید نظامی مرحوم کے بعد جب محترم مجید نظامی صاحب نے نوائے وقت کا کنٹرول سنبھالاتو نوائے وقت کی حالت ایک مرجھائے ہوئے پودے سے زیادہ نہ تھی۔یہ نظامی صاحب کے مخلص اور جانثار ملازمین ہی تھے جنہوں نے نوائے وقت کو تناور درخت بنایا۔مجاہد صاحب نے 39 سال نوائے وقت کی ترقی میں دن رات ایک کیاانہوں نے تقریبا30 سال بحیثیت نیوز ایڈیٹر خدمات انجام دیں اپنی جوانی کی حسین راتیں نوائے وقت کے صفحات کی تزئین و آرائش میں صرف کرتے رہے بارش طوفان ہنگامے جلائو گھیرائو میں بھی جان ہتھلی پر رکھ آفس پہنچے اور نوائے وقت نکالا جس روز نوائے وقت کے آفس پر حملہ تین ملازمین شہید اور متعددزخمی ہوئے پورادفتر جل چکاتھا اس رات بھی مجاہد صاحب کی قیادت میں ملازمین نے اخبار کی اشاعت کو معطل نہیں ہونے دیا دنیاشاہد ہے اگلی صبح قارئین کے ہاتھوں نوائے وقت موجود تھا یہ صحافتی تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔کیاکوئی مہذب  معاشرہ اس بات کی اجازت دیتاہے کہ کسی ایسے ملازمین  جنہوں  نے اپنی پوری زندگی  جس ادارے کی آبیاری میں صرف کی ہو اسے زندگی بھر کی کمائی پرویڈنٹ فنڈ،گریجویٹی، لیوانکیشمنٹ، ساتویں اور آٹھویں ویج بورڈایوارڈ کے واجبات،کئی ماہ کی رکی ہوئی تنخواہوں کے بغیر ریٹائر کرکے اسے مفلسی اور کسمپرسی کی دلدل میں دھکیل دیاجائے؟؟؟

ملازمین کوریٹائر کرنے کاحق مالکان کو ہے لیکن واجبات دیئے بغیر ملازمت سے بے دخل کرنے کااختیار کسی کو نہیں۔

ہمارے حکمران جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں ان کاحکم یہ ہے کہ “مزدوروں کو اسکاپسینہ خشک ہونے سے قبل اجرت دیدو” تو کیانوائے وقت کے ملازمین کو واجبات دلانا ریاست مدینہ کے قیام کے دعویدار ہمارے وزیر اعظم صاحب پر فرض نہیں ہے؟

کیا اللہ کریم ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار سے نہیں پوچھیں گے؟؟؟

 کیایہ حکمراں  رمیزہ نظامی کے مظالم پر چشم پوشی کرکے خود بھی شریک جرم نہیں ہورہے ہیں؟؟؟

ہمیں یاد رکھناچاہئے اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔۔اللہ کریم کی چھوٹ تو ایک حد تک، لیکن پکڑ بڑی سخت ہے۔۔۔

“ظلم پھر ظلم ہے بڑھتاہے تو مٹ جاتاہے”یقینا ایک روز رمیزہ نظامی کا ظلم بھی مٹ کررہے گا”

کیونکہ اللہ غاصبوں اور ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔۔(محمد شاکر حسین)

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں