Ruba Zawal Sahafat By Farukh Shahzad

روبہ زوال صحافت۔۔

تحریر:فرخ شہزاد‘کوئٹہ

لاہور کے صحافی خاور نعیم ہاشمی کا خاتون صحافی ثمن اسد کے حوالے سے کالم نظروں سے گزرا تو ایسا محسوس ہوا کہ صحافی ثمن اسد کے ساتھ یہ واقعہ لاہور نہیں بلکہ کوئٹہ میں ہی پیش آیا ہو۔2002کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی گلیمرس نے نہ صرف میڈیا کو وسیع کیا بلکہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ صحافت کی ساکھ تباہ و برباد کر کے رکھ دی ۔ میڈیا میں ایسے لوگوں کی بھر مار ہو گئی جن کا دور دور تک صحافت سے کوئی تعلق نہیں جس کے باعث آج پیشہ صحافت بری طرح بد نام ہو چکا ہے ۔پرنٹ میڈیا کے عروج کے دور میں صحافی تربیت کے کئی مراحل گزرنے کے بعد تیار ہوتے  اور صحافی رپورٹنگ سب ایڈیٹنگ سمیت صحافت کے تمام شعبوں میں مہارت کا حامل ہوتا ۔ اس کی خبریں و رپورٹس انتہائی تحقیق و محنت کے بعد اشاعت کے قابل ہوتیں ۔ لیکن اب جسے تھوڑا بہت بولنا آتا ہے وہ مائیک پکڑ کر صحافی بندجاتا ہے ۔ماضی میں  سینئر صحافیوں کے بقول  اخبار میں صرف سنگل کالم  خبر لگنے پر انتظامیہ اور حکومت حرکت میں آ جاتی ہے لیکن آج شہ سرخیاں لگنے کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ماضی میں ’’صحافت برائے مشن‘‘ کا جذبہ تھا آج ’’صحافت برائے کاروبار ‘‘ بن چکا ہے جس میں بڑا ہاتھ مالکان کا بھی ہے جو خبروں کی اشاعت میں پہلے اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں۔اخبارات ڈی جی پی آر اور پی آئی ڈی کے  زیر اثر ہیں اور انہی کی ہدایات پر کوریج کی جاتی ہے۔ کوئی بھی شخصیت ادارہ اور سیاسی پارٹی لاکھوں روپے دیکر اخبارات کے  صفحات خرید لیتی ہے ۔ آج اکثر اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو نظر آئیگا کہ  فلاں سردار نے یہ کہا، فلاں وزیر نے شہر کو پیرس بنا دیا، فلاں افسر نے یہ حکم صادر کیا۔  کسی سرکاری دفتر میں جائیں تو کوئی نہ کوئی صحافی بیٹھا  نظر آئیگا ارکان پارلیمنٹ سیاسی شخصیات بیورو کریٹس سرکاری افسران سے تعلقات کی بنیاد پر ہی صحافی کو ’’بڑا‘‘ صحافی تسلیم کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے اخباری تنظیموں کے زیادہ تر عہدیدار کارکنوں کی بجائے مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں سائیکل خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والے اکثر اخباری تنظیموں کے عہدیدار آج بنگلوں کے مالک بن چکے شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن اخباری کارکنوں کی اکثریت کا معیار زندگی دن بد ن پست ہوتا جا رہا ہے۔آج صحافت کا یہ معیار ہے کہ جو جتنا زیادہ بلیک میل کر سکتا ہے وہ اتنا بڑا صحافی ہے ۔ جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہونگے ہم کسی ادارے کو، کسی کرپٹ انسان کو، کسی دو نمبر، فراڈئیے کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔میڈیا ہائوس کے مالکان سے گزارش ہے کہ خدا را اس مقدس پیشہ کی لاج رکھیں اسے بدنام ہونے سے بچائیں ۔ یہ پیشہ ہمارے معاشرے کی آنکھ کہلاتا ہے ، پیغمبرانہ پیشہ کہلاتا ہے ۔ سب سے زیادہ اور بھاری ذمہ داری ان اداروں کی ہے جو ایسے نا تجربہ کار ، بلیک میلر، دو نمبر، ٹاؤٹ قسم کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے اور ان کی  پشت پناہی کرتے ہیں ۔اکثر ادارے تو ایسے بھی ہیں جو اپنے ملازمین کو صرف ’’پریس کارڈ‘‘ جاری کر دیتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ خود بھی کھائو اور ہمیں بھی کھلائو۔ گزشتہ ایک سال سے میڈیا میں خود ساختہ بحران پیدا کر کے ہزاروں کی تعداد میں ورکروں کو فارغ کر دیا گیا اور ’’بحران‘‘ کا بہانہ کر کے حکومت سے اربوں کھربوں روپے بٹور لئے گئے ۔اسی طرح  ادارے خود تو ماہانہ کروڑوں میں کمارہے ہیں لیکن ورکروں کو انتہائی قلیل تنخواہیں دیتے ہیں جس کے باعث کرپشن جنم لیتی ہے ۔لہذا ان کے معاوضوں میں معقول اضافہ کریں تا کہ  انہیں ہاتھ پھیلانا نہ پڑیں ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ’’صحافیوں‘‘ کو لوگ ’’بھکاری‘‘ کے نام سے پکاریں گے۔(فرخ شہزاد،کوئٹہ)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں