تحریر: جاوید چودھری۔۔
سحر صدیقی ہم سے سینئر تھے‘ یہ مختلف اخبارات میں دھکے کھاتے کھاتے روزنامہ پاکستان میں آگرے‘ اظہر سہیل اس وقت ہمارے ایڈیٹر تھے‘ سحر صدیقی کو نوکری کرنا آتی تھی لہٰذا وہ چند دنوں میں اظہر سہیل کی ناک کا نتھنا بن گئے‘ دفتر کے لوگ سحر صدیقی کو پسند نہیں کرتے تھے‘ میں بھی ان میں شامل تھا لیکن صدیقی صاحب مجھے بلاوجہ پسند کرتے تھے اورمجھے بلا کر چائے بھی پلاتے تھے اور گپ شپ بھی کرتے تھے‘ ہمارے کولیگز اس رابطے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ان کا خیال تھا میں بھولا بھالا اور ’’لائی لگ‘‘ قسم کا پینڈو ہوں جب کہ سحر صدیقی انسانی شکل میں لومڑی ہے‘ یہ مجھ سے گپ شپ کے دوران دفتر کی باتیں اگلوالیتا ہے اورپھر اظہر سہیل کو بتا دیتا ہے‘ میں ساتھیوں کو جتنی تسلی اور صفائی دیتا ان کا شک اتنا ہی پکا ہو جاتا لیکن بہرحال سحر صدیقی میرے استاد ثابت ہوئے‘ انھوں نے مجھے صحافت کی وہ باریکیاں سکھائیں جن سے میں بالکل نابلد تھا‘ مثلاً انھوں نے مجھے فون کرنا سکھایا‘ ان کا کہنا تھا ‘آپ جب بھی کسی اسٹوری کے لیے کسی شخص کو فون کریں تو اپنے لہجے میں سات قسم کی شہد کی مٹھاس‘ سات اولیاء کرام کی عاجزی اور لکھنؤ جیسی سات تہذیبوں کی شائستگی ڈال دیا کریں‘ آپ ہیلو کر کے بات شروع کر دیتے ہیں‘ یہ بدتہذیبی اور ناشائستگی ہے۔
میں نے ایک دن ان کے سامنے فاروق لغاری صاحب کو فون کیا‘ لغاری صاحب نے فون اٹھایا‘ میں نے چھوٹتے ہی کہا‘ لغاری صاحب میں ڈیلی پاکستان کے میگزین سیکشن سے بول رہا ہوں‘ لغاری صاحب نے فوراً جواب دیا ’’میں بزی ہوں‘ آپ پھر کسی وقت فون کیجیے گا‘‘ اور ساتھ ہی فون بند کر دیا‘ سحر صدیقی دیکھ رہے تھے‘ وہ مسکرائے‘ مجھ سے فون لیا‘ نمبر ملایا‘ لغاری صاحب نے فون اٹھایا تو یہ نہایت شائستگی سے بولے ’’کیا میں سردار فاروق احمد خان لغاری صاحب سے بات کر سکتا ہوں‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ’’جی میں بول رہا ہوں‘‘ صدیقی صاحب نے عاجزی سے کہا ’’سردار صاحب آپ زیادہ مصروف تو نہیں ہیں۔
مجھے آپ سے بس ایک منٹ چاہیے‘ آپ اگر بزی ہیںتو میں آپ کو دوبارہ فون کر لوں گا‘‘ لغاری صاحب نے کہا ’’آپ کون صاحب بول رہے ہیں‘‘ یہ بولے ’’مجھے آپ کا نمبر ڈیلی پاکستان کے چیف ایڈیٹر اظہر سہیل صاحب نے دیا ہے‘ یہ آپ کے بہت اچھے دوست ہیں‘ میں ان کا نیوز ایڈیٹر ہوں‘‘ لغاری صاحب نے فوراً جواب دیا ’’سر آپ حکم کریں‘ میں بالکل فارغ ہوں‘‘ اور اس کے بعد وہ سحر صدیقی کے ساتھ آدھ گھنٹہ گفتگو کرتے رہے‘ میں نے یہ گُر پلے باندھ لیا‘ میں آج بھی جب کسی کو فون کرتا ہوں تو مجھے سحر صدیقی یاد آتے ہیں اور میرے دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔
انھوں نے مجھے دوسرا گُر سرخی کا بتایا تھا‘ ان کا کہنا تھا اگر خبر کم زور ہو تو سرخی مضبوط ہونی چاہیے اور اگر خبر بڑی ہے تو سرخی نرم ہونی چاہیے‘ تیز خبر کے ساتھ تیز سرخی اخبار اور صحافی دونوں کو بند کرا دیتی ہے اور کم زور خبر کے ساتھ کم زور سرخی خبر کو قتل کر دیتی ہے۔انھوں نے مجھے ذرایع کا استعمال بھی سکھایا‘ ان کا کہنا تھا ‘صحافت میں ذرایع ایک طلسماتی لفظ ہے‘ آپ اس لفظ کی آڑ میں عورت کو مرد اور مرد کو عورت ثابت کر سکتے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’اور ذرایع ہوتے کون ہیں‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ خبر دینے والا ہوتا ہے لیکن ہم اس کا نام نہیں لکھ سکتے لہٰذا ہم معلومات کو ذرایع کے کپڑے پہنا دیتے ہیں‘ ذرایع اطلاع کو عوام تک پہنچانے کا بہترین طریقہ ہوتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور اعلیٰ ذرایع کون ہوتے ہیں‘‘ سحر صدیقی نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’اعلیٰ اور اعلیٰ ترین ذرایع ملک کی مقتدر ترین شخصیات ہوتی ہیں‘‘ میں بھی ہنسا اور یہ سبق بھی گرہ سے باندھ لیے۔
میرے ساتھ کل پنجاب کے ’’ذرایع‘‘ نے رابطہ کیا‘ یہ 9ستمبر کے کالم ’’ٹرائی کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘ کی وضاحت کرنا چاہتے تھے لیکن اپنا نام اور عہدہ بھی بچانا چاہتے تھے لہٰذا میں نے انھیں ذرایع مان لیا‘ ان کا کہنا تھا ’’پنجاب میں بے شک تین برسوں میں ساتواں آئی جی اور پانچواں چیف سیکریٹری آیا لیکن یہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے پہلے چیف سیکریٹری اور پہلے آئی جی ہیں۔
پنجاب کو تین برسوں میں جتنے آئی جی اور چیف سیکریٹری ملے وہ وزیراعظم آفس سے ملے اور وزیراعلیٰ کو صرف وہ برداشت کرنا پڑے لیکن اس بار سی ایم نے پہلی مرتبہ آئی جی اور چیف سیکریٹری کے لیے وزیراعظم سے بات بھی کی اور باقاعدہ خط لکھ کر اپنی مرضی کے آفیسر بھی لیے چناں چہ آپ کو وزیراعلیٰ کی چوائس کو تھوڑا سا وقت دینا چاہیے‘‘ میں نے ذرایع سے اتفاق کیا اور پوچھا ’’لیکن پرانی ٹیم میں کیا خرابی تھی؟‘‘ ذرایع نے مسکرا کر جواب دیا ’’آئی جی انعام غنی کی تمام پرفارمنس بریفنگز اور پریزنٹیشن تک محدود تھی۔
وزیراعلیٰ نے اپنے ذرایع سے پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا تو پنجاب کی صورت حال بہت خراب نکلی‘ مینار پاکستان کے واقعے سے قبل اسپیشل برانچ نے آئی جی آفس کو مینار پاکستان پر سیکیورٹی کی کم زوریوں سے مطلع کر دیا تھا لیکن یہ خط فائلوں میں پڑا رہ گیا‘ مینار پاکستان کے واقعے کے بعد آئی جی کا ردعمل بھی عمومی تھا‘ وہ اس واقعے کو چھوٹا اور غیر اہم سمجھ رہے تھے جب کہ وزیراعلیٰ کی نظر میں یہ بہت اہم تھا‘ آئی جی نے گھنٹی ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے گلے میں باندھنے کی کوشش بھی کی لیکن وزیراعلیٰ نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ساجد کیانی کو او ایس ڈی بنادیا جب کہ ایس ایس پی آپریشنز سید ندیم عباس اور ایس پی سٹی حسن جہانگیر کو عہدوں سے ہٹا دیا۔
آئی جی نے مزاحمت کی کوشش کی اور یہ بھی فارغ ہو گئے‘ چیف سیکریٹری جواد رفیق ملک بھلے انسان ہیں لیکن وہ صرف نوکری کر رہے تھے ‘وہ تمام تقرریاں اور تبادلے وزراء اور وزیراعلیٰ آفس کے اشارے پر کرتے تھے اور وزیراعلیٰ کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا‘ ان کی خواہش تھی چیف سیکریٹری آدھے ہی صحیح لیکن میرٹ پر فیصلے کرے مگر ان میںشاید اتنی ہمت نہیں تھی چناں چہ یہ بھی چلے گئے‘ وزیراعلیٰ اس بار خود اپنی مرضی سے تگڑے افسر لے کر آئے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں پنجاب میں تبدیلی آئے‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیا یہ تبدیلی صرف یہاں تک رہے گی‘‘ ذرایع نے ہنس کر جواب دیا ’’نہیں اب کابینہ میں بھی تبدیلی آئے گی‘ وزیراعلیٰ خود اپنی مرضی کی ٹیم چنیں گے اور انھیں وزیراعظم کی مکمل حمایت حاصل ہو گی‘‘ ذرایع نے لمبا سانس لیا اور فرمایا ’’آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے ملک میں کوئی اور ایک پیج پر ہو یا نہ ہو لیکن عمران خان اور عثمان بزدار دونوں ون پیج پر ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کس قدر؟‘‘ ذرایع نے ہنس کر جواب دیا ’’آپ دو مثالیں لے لیں۔پنجاب کے آدھ درجن وزراء واٹس ایپ کے ذریعے وزیراعظم کو روزانہ وزیراعلیٰ کی شکایتیں لگاتے تھے وزیراعلیٰ نے آج فلاں اہم میٹنگ منسوخ کر دی‘ یہ فلاں جگہ پر لیٹ پہنچے‘ یہ اپوزیشن کے فلاں شخص سے مل رہے ہیں‘ یہ اور ان کا خاندان اتنی کرپشن کر رہا ہے اور وزیراعلیٰ نے یہ بات غلط کر دی وغیرہ وغیرہ اور آپ دونوں کے درمیان کوآرڈی نیشن دیکھیں‘ عمران خان یہ تمام پیغامات وزیراعلیٰ کو بھجوا دیتے تھے چناں چہ سی ایم جانتے ہیںکون ان کا حامی اور کون مخالف ہے؟یہ بس خاموشی سے مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے اور وہ وقت آگیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے فردوس عاشق اعوان کو ہٹاکر اپنے مسلز چیک کر لیے‘ یہ فیصلہ ان کا تھا اور وزیراعظم نے فردوس بی بی کو ’’آپ اپنے باس سے بات کریں‘‘ کہہ کر وزیراعلیٰ کو پوری سپورٹ دی‘ وزیراعلیٰ اب کابینہ میں بھی باس بن کر دکھائیں گے‘ کابینہ ری شفل ہو گی اور بڑے بڑے وزراء فارغ ہو کر گھر چلے جائیں گے‘ دوسری مثال ملک کے تمام طاقت ور حلقوں‘ اپوزیشن اور پارٹی کے اہم لیڈروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن وزیراعظم نے عثمان بزدار کو نہیں ہٹایا‘ اسد عمر تبدیل ہو گئے۔
عمر ایوب‘ خسرو بختیار‘حماد اظہر‘شبلی فراز‘ فواد چوہدری اور شیخ رشید بدل گئے لیکن عثمان بزدار نہیں بدلے‘ کیا یہ ون پیج نہیں ہے؟‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’یہ دونوں مثالیں حیران کن ہیں اور میرے پاس اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘ میں نے چند لمحے توقف کیا اور پھر پوچھا ’’آپ کو عثمان بزدار کی کس خوبی نے حیران کیا‘‘۔
ذرایع نے ہنس کر جواب دیا’’ یہ شخص بے شک ناتجربہ کار اور زیادہ پڑھا لکھا نہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہے جو آج تک پنجاب کے کسی وزیراعلیٰ میں نہیں تھی‘ یہ عام اور غریب آدمی کے ساتھ بہت کمفرٹیبل ہوتا ہے اور غریب اور عام لوگ بھی ملاقات کے بعد اس کو اپنا مان لیتے ہیں‘ یہ ہر ماہ 90 شاہراہ قائداعظم پر آٹھ آٹھ‘ نو نو سو غریب لوگوں سے ملتا ہے‘ان کی شکایت خود سنتا ہے‘ خود آرڈر جاری کرتا ہے اور ان آرڈرز پر فالو اپ بھی لیتا ہے۔یہ عام لوگوں کے ساتھ زمین پر بھی بیٹھ جاتا ہے‘ ان سے گلے بھی مل لیتا ہے اور ان کے ساتھ کھا پی بھی لیتا ہے‘ میں نے یہ خوبی کسی وزیراعلیٰ میں نہیں دیکھی اور شاید اللہ تعالیٰ اسے اسی لیے نواز رہا ہو‘‘ ذرایع خاموش ہو گئے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔