دوستو، رمضان المبارک کتنی جلدی ہم سے رخصت ہوگیا ،پتہ ہی نہیں لگا۔۔آج چھبیس روزے ہوچکے اور ستائیسویں شب ہوگی۔۔ یعنی اسلامی کیلنڈر کے حساب سے ہمارے پیارے وطن کا آج یوم آزادی ہے ، اور قرآن پاک بھی اسی ماہ مبارک میں نازل ہوا۔۔رمضان المبارک کا یہ تیسرا عشرہ اب اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے،جہنم سے آزادی والے اس عشرے میں جتنا ممکن ہوسکے معافی تلافی کرلیں کیوں کہ موت اور زندگی کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، پتہ نہیں اگلے سال ہم رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔۔ اللہ پاک آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور آپ تمام لوگوں کوصحت،تندرستی کے ساتھ لمبی زندگی عطا کرے۔۔ آمین، ثم آمین۔۔۔ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔ چلیں اپنی اوٹ پٹانگ باتیں شروع کرتے ہیں۔۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ آپ بور ہوں۔۔ہمارا کام آپ کی بوریت ختم کرنا ہے۔۔
رمضان کا مہینہ ہے، روزانہ افطاری کے لئے پھل فروٹ بھی لینا ضروری ہوتا ہے۔۔ دسترخوان پر جب تک بھرپور افطاری نہ ہو تو مزہ ہی نہیں آتا، کراچی اور لاہور کی افطار میں ہم نے یہ فرق بخوبی دیکھا کہ لاہور میں افطار ہلکی پھلکی ہوتی ہے جس کے فوری بعد کھانا کھایاجاتا ہے، جب کہ کراچی میں بہت تگڑی قسم کی افطار ہوتی ہے، جس کے بعد کسی کھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔۔ تو ہم کہہ رہے تھے کہ جب آپ افطار کے لئے فروٹ لینے بازار جاتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا تربوز والے آپ کو کس انداز سے تربوز دیتے ہیں۔۔ ہم نے نے ایک تربوز والے سے سوال کیا۔۔یار تمہیں کیسے تربوزکو تھپکی دینے سے پتہ چل جاتا ہے کہ تربوز میٹھا اور لال نکلے گا؟؟ تربوز والا ہماری بات سن کر مسکرایا، پھر اس نے اپنی بڑھی ہوئی شیو والا چہرہ کھجایا،پھر پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔پتہ نہیں صاحب جی،لیکن میرے باپ نے مجھے سمجھایا تھاکہ دو تربوز پر تھپکیاں ماروپھر تیسرے والا تربوزگاہک کو پکڑا دو،گاہگ خوش ہو جاتا ہے۔واقعہ کی دُم: نوازشریف پہلا تربوز،آصف زرداری دوسرا تربوز۔تربوز والے نے یہی کیا، عوام کو تیسرا تربوز یعنی ’’خان صاحب‘‘ کو پکڑادیا،عوام بھی تیسرا تربوز لے کر خوش ہوگئے، وہ تو اس وقت پتہ چلا جب گھر آکر تربوز کاٹا۔۔۔
گزرے رمضان المبارک کے ایک جمعہ کا واقعہ ہے۔۔ اس بار تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے نمازجمعہ کے اجتماعات پر شدید قسم کی پابندی ہے اور اطلاعات ہیں کہ عیدین کے اجتماعات بھی نہ ہوسکیں، سندھ حکومت نے تو گلے مل کر عید مبارک کہنے پر بھی پابندی لگادی ہے۔۔تو ہم بتارہے تھے کہ گزشتہ سال رمضان المبارک کے ایک جمعہ کو ہمارے ساتھ ایک ’’سین‘‘ ہوگیا، اسے ’’شین‘‘ مت سمجھئے گا، ورنہ آپ کے ساتھ بھی کبھی عین،غین ہوسکتا ہے۔۔ہوا کچھ یوں کہ ۔۔جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے علاقے کی جامع مسجد گئے، رمضان المبارک کی وجہ سے کافی رش کا اندازہ تھا اس لئے عین دوسری اذان کے وقت جانے کے بجائے کچھ پہلے جانے کی ٹھانی اور مسجد کے اندر سایہ دار جگہ میں ’’جگہ‘‘ بناکربیٹھ گئے۔مولوی صاحب کا اردو میں خطاب یا بیان جاری تھا، بڑے پرجوش اور ولولے کے انداز میں وہ اپنی تقریر جاری رکھے ہوئے تھے، مولوی صاحب کے لہجے سے بالکل اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ ان کا روزہ ہے(یہ ہمارے اندر کا راڈار بتارہاتھا،واللہ اعلم باالصواب)آواز میں گھن گرج، ہاتھوں کا فضا میں ہلانا، باربار ریش مبارک پر ہاتھ پھیرنا، روزے میں تو انسان بالکل ڈھیلا ڈھالا سا ہوجاتا ہے،(شاید یہ ہماری آبزورویشن ہو، ممکن ہے آپ اتفاق نہ کریں)، بہرحال مولوی صاحب کے خطاب کے دوران چندے کا بکس نمازیوں کے آگے کیاجارہاتھا، بکس ہمارے سامنے پہنچا تو ہم نے بسم اللہ پڑھ کر جیب سے دس روپے کا کڑک نوٹ نکالا اور اسے چندہ بکس کے سپرد کرڈالا، ہمارے پیچھے بیٹھے صاحب نے اسی دوران ہمارا کاندھا ہلایاپھر ممکن ہے تھپکی دی اور پانچ سو کا نوٹ ہمارے ہاتھ میں تھمادیا،ہمارے دل میں ان صاحب کے لئے جذبات امڈ آئے، ہم نے وہ نوٹ پکڑا اور اسے بھی جلدی سے چندہ بکس کی نذر کردیا اور پلٹ کر ان صاحب کو بڑے عقیدت بھرے انداز میں کہا، جزاک اللہ جناب۔۔ وہ صاحب تھوڑا سا آگے کی طرف جھکے ، ہمارے کان کی طرف اپنا منہ لائے اور بہت ہی آہستہ سے بولے، احتیاط کیا کیجئے، یہ نوٹ آپ کی جیب سے گر گیا تھا۔۔
کبھی شناختی کارڈ کے بغیر سِم مل جاتی تھی ،اور اب شناختی کارڈ کے بغیر ایک کلو چینی نہیں مل رہی ۔۔یہی ہے نیاپاکستان، یہ ہے ریاست مدینہ کا ویژن۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔عورتیں جتنا مرضی لیموں پانی، روح افزا، لسی اور ستو پی لیں لیکن ان کے کلیجے کو ٹھنڈ شوہر سے لڑائی کر کے ہی پڑتی ہے۔۔رمضان المبارک میں شدید قسم کا لاک ڈاؤن بھی جاری ہے،تاجروں کا مطالبہ ہے کہ دکانیں کھولو، صنعت کاروں کا مطالبہ ہے کہ فیکٹریاں کھولو، علماء کرام کا مطالبہ ہے کہ مساجد کھولو جب کہ طالب علموں کا مطالبہ ہے کہ، اسکول،کالجز اور یونیورسٹیاں خدا کے لئے نہ کھولو۔۔باباجی کا فرمان عالی شان ہے۔۔ افطاری کے بعد پہلا سگریٹ پینے والے کی پرواز شاہین کی پرواز سے بھی اونچی ہوتی ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔پاکستان کے کھانے پینے کی تمام چیزوں میں سگریٹ انتہائی کم مضر صحت ہے۔۔ باباجی نے تو اس رمضان المبارک میں فتویٰ بھی صادر کردیا کہ۔۔افطار کے بعد چائے پلانے والا دنیا میں چلتا پھرتا جنتی ہے۔۔باباجی کو ابلیس نے واٹس ایپ بھیجا ہے کہ۔۔ بس تین،چار دن اور صبر کرلو، میرے رہا ہوتے ہی، پھل اور سبزیاں سستے ہوجائیں گے۔۔یہ میسیج انہوں نے ہمیں فاروڈ کرتے ہوئے کہا کہ۔۔ بس چند دن اور رہ گئے، پھر نوجوان نسل اپنے کرتوتوں کے الزامات شیطان کے اوپر ڈال کر بری الزمہ ہوجائے گی۔۔۔باباجی نے حالات حاضرہ پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔پوری دُنیا جہاں آکسیجن ڈھونڈ رہی ہے،وہاں پاکستانی نئے نوٹوں کی گڈیاں ڈھونڈ رہے ہیں۔۔ایک میراثی چھپ چھپ کے سگریٹ پی رہا تھا۔۔پیر صاحب نے غصہ کے عالم میں اس سے پوچھا ۔۔اوئے ، تیرا روزہ نئیں؟؟ میراثی معصوم سی شکل بناکر دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا۔۔سرکارو! مولا آباد رکھے، روضے تے تہاڈے ہوندے نیں، ساڈیاں تے کچیاں قبراں ہوندیاں نیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔درخت جتنا اونچا ہوگا اس کاسایہ اتناہی چھوٹا ہوگا اس لیے’’اونچا‘‘ بننے کی بجائے’’بڑا‘‘ بننے کی کوشش کرو۔۔زمین کے اوپر عاجزی کے ساتھ رہنا سیکھ لو ، زمین کے نیچے سکون سے رہ پاؤ گے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔