shartiya meetha | Imran Junior

روک سکوتو روک لو۔۔

روک سکوتو روک لو۔۔

علی عمران جونیئر

روزنامہ جرات، کراچی

20 June 2021

دوستو، اخبارات میں خبریں بھی کبھی کبھی بہت مزیدار سی بن جاتی ہیں۔۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے ایک سنگل کالم خبر کی سرخی دیکھی، روک سکوتوروک لو۔۔جلدی سے پوری خبر پڑھی تولکھا تھا،پشاور میں محکمہ بہبود آبادی کی ملازمہ نے تین بچیوں کو بیک وقت جنم دیا، روک سکو تو روک لو۔۔۔کراچی میں کتا مار مہم چلی تو کسی این جی او کی پریس ریلیز ایک اخبار کے سٹی پیچ پر لگی،جس میں این جی او نے مطالبہ کیا تھا کہ ، کتوں کے ساتھ ’’غیرانسانی‘‘ سلوک بند کیا جائے۔۔ جب اخبارات میں ہم کسی وزیر کا یہ بیان پڑھتے ہیں کہ ،کسی کو دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی، جس پر ہمیں حیرت ہوتی ہے وہ کون سے دہشت گرد ہیں جو اجازت لے کر دہشت گردی کرتے ہیں۔۔ آج کل کے بچے بہت ہی زیادہ ذہین و فطین ہوگئے ہیں، ہر سوال کا جواب ان کی پٹاری میں موجود ہوتا ہے،ہم نے ایک بچے سے پوچھا، اگر پراٹھے اور پیزا کو مینارپاکستان کی ٹاپ سے نیچے پھینکا جائے تو سب سے پہلے زمین پہ کیا گرے گا؟۔۔ بچہ بولا۔۔پیزا، ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔۔ پیزا ’’ فاسٹ فوڈ‘‘ جو ہے۔۔ایک بچے نے ہم سے پوچھا، دہی جمانے کے لیے دودھ میں تھوڑا سا دہی ملانا لازمی ہوتا ہے، لیکن آج تک یہ سمجھ نہیں آیا جس نے پہلی بار دہی جمایا ہوگا وہ تھوڑا سا دہی کہاں سے لایا ہوگا؟۔۔کچھ بچے معصوم بھی ہوتے ہیں۔۔ایک بچہ اسکول سے گھر پہنچتے ہی ماں سے بولا، امی ،امی، دیکھئے تو میرے سر پر کیا ہے؟۔۔ماں نے غور سے دیکھ کر کہا، سر پر تو صرف بال ہیںاور کچھ نہیں ہے۔۔بچے نے بھولپن سے کہا، امی ، ماسٹر صاحب کتنے جھوٹے ہیں ، کہہ رہے تھے ہمارے امتحان سر پر ہیں۔۔۔ہمارے پیارے دوست کی عادت ہے،دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو ،حل ان کی جیب میں ہوتا ہے۔۔ مشورے تو ایسے فری بانٹتے ہیں جیسے داتا دربار پر لنگر بانٹا جاتا ہے۔۔ ان کا مشورہ ہے۔۔اگر آپ کے بچے مٹی کھاتے ہیں تو انہیں تھوڑا سا سیمنٹ بھی کھلا دیا کریں تاکہ ان کی بنیاد مضبوط ہو۔۔مزید کہتے ہیں۔۔اگر آپ کے دانتوں میں کیڑا لگ گیا ہے تو آپ دو ہفتے تک بھوک ہڑتال کردیں، نامراد خود ہی بھوکا مر جائے گا۔۔یہ مشورہ بھی انہی کا ہے کہ ۔۔اگر آپ کو رات کو نیند نہیں آتی تو آپ چوکیداری شروع کردیں چلو کچھ پیسے ہی بن جائیں گے۔۔ پچھلے دنوں جب ٹماٹر کی شدید قلت ہوگئی تھی،انہی دنوں ایک گھر میں دو خاندان کے بڑے بیٹھ کر رشتے کی بات کررہے تھے، لڑکی والوں نے پوچھا، لڑکا کیا کرتا ہے؟۔۔ لڑکے والوں نے جواب دیا، جی ٹماٹروں کی ریڑھی لگاتا ہے۔۔لڑکی والے فوری بولے، بس جی جلدی سے منہ میٹھا کریں، ہماری طرف سے تو ہاں ہے۔۔انہی دنوں ایک خاتون سبزی لینے گئی، سبزی والے نے سبزی پر پانی چھڑکتے چھڑکتے بہت دیر لگا دی۔ تنگ آکرخاتون نے کہا ، جب یہ ٹماٹر ہوش میں آجائیں تو دو کلو دے دینا۔۔۔ کسی نے کہا کہ آج گرل فرینڈ نے ایزی لوڈ کی جگہ ٹماٹر مانگے ہیں۔۔کسی حکیم نے انوکھا انکشاف کیا،کہنے لگا۔۔ٹماٹر 20 روپے کلو ہوں تو خون پیدا کرتے ہیں،اور 200 روپے کلو ہوں تو گردوں میں پتھری پیدا کرتے ہیں۔۔ان دنوں میں ٹماٹر خریدنے والا بازار میں ایسے سینہ چوڑا کرکے چلتا تھا جیسے وہ کشمیر فتح کرکے آرہا ہو۔۔ہمارے گھر میں مہمان آئے تو ہم نے پلیٹ میں ایک ٹماٹر کاٹ کران کے سامنے رکھا، وہ کبھی ہمیں اور کبھی ’’ٹماٹر‘‘ کو دیکھتے،پھر حیرت سے پوچھنے لگے، یار تم کب سے اتنے امیر ہوگئے۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔۔ اگر ٹماٹروں کی قمیت میں یونہی اضافہ ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب حق مہر میں بھی لڑکی والوں نے ٹماٹر لکھوانے کرنے ہیں۔۔ ایک چرسی جب تیسرے فلورسے نیچے گرا تو رش لگ گیا، لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے اور پوچھا ، کیا ہوا بھائی؟۔۔ چرسی نے ادھ کھلی آنکھوں سے لیٹے لیٹے مجمع کو دیکھا پھر بڑی معصومیت سے بولا۔۔’’ مینوں کی پتا میں تے آپ ہونے آیا۔‘‘۔۔۔کچھ دوست شکوہ کرتے ہیں کہ آپ کے کالم میں کام کی باتیں کم اور فضولیات زیادہ ہوتی ہیں، زیادہ تر لطیفے بھرے ہوتے ہیں، اب مسئلہ یہی ہے ہماری پوری زندگی لطیفہ ہی ہے، جس موضوع پر کالم ہوتا ہے اس حوالے سے مزاحیہ باتیں یاد آتی رہتی ہیں تو لکھتا جاتا ہوں، اب وہ آپ کو لطیفہ لگے تو اسے ’’لطیفـ‘‘ پیرائے میں لیجئے اور غصہ سائیڈ پہ تھوک دیجئے۔۔اچھا،دلچسپ بات یہ ہے کہ اعتراض بھی وہی لوگ کرتے ہیں جو دکاندار کے پاس کہتے ہیں۔۔ وہ والا ’’ جوک‘‘ دینا۔۔دکاندار پوچھتا ہے ،کون سا والا؟۔۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں۔۔ وہی والا جسے لوگ کہتے ہیں مارکیٹ میں نیاآیا ہے۔۔ایک لڑکی جب لالہ موسی کے اسٹیشن پر اتری تو وہاں سے گزرتے کسی پینڈو سے پوچھا۔۔ یہ کون سا اسٹیشن ہے۔۔ اس نے لڑکی کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا، پھر زوردار قہقہہ لگایااور ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔’’ جھلئے اے ریلوے ٹیشن اے۔۔۔‘‘۔۔معاملہ زنانی کا ہوتو ہر بندہ لحاظ کرجاتا ہے۔۔ایک چوہا شراب کے گلاس میں گر گیا ،باہر نکلا تو ’’ٹن ‘‘ہوگیا ،سامنے بلی دیکھ کر مونچھ کو تاؤ دیکر بولا۔۔ ذرا ادھر ادھر ہوجاؤ ،ایویں پھر لوگ کہیں گے کہ ایک ’’زنانی ‘‘کو پھینٹی لگا دی ہے۔۔۔ اب ذرا عقیدت کی ایک مثال بھی سنتے جائیں۔۔لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقع پاکر اپنے سے علیحدہ کر دیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنویں میں پھینک آیا، لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔ شور سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے۔ کنویں میں رسیاں ڈالی گئیں۔ دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنویں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔ اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گرمی درخت لگانے سے کم ہو گی۔۔املی والا شربت پینے اور ٹنڈ کروانے سے نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں