Hassan Nisar

روحی کی روح زخمی،بانو کا بدن گھائل

تحریر: حسن نثار

منافقت ایکسپورٹ ہو سکتی تو ملک میں زرمبادلہ کے ڈھیرلگے ہوتے کیونکہ ہربالغ ایکسپورٹر ہوتا۔اسی صورتحال سے متاثر ہو کر کسی نے کمال شعر کہا تھا جس کا صرف ایک مصرعہ ہی یاد رہ گیا جو کافی ہے ۔’’ہم ہیں منافقت کے سمندر کی مچھلیاں‘‘اور اس منافقت میں ہماری ہر سرکار سرفہرست ہے۔ عرصہ پہلے اعتزاز احسن نے اک ہوائی چھوڑی تھی کہ ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسے ‘‘میں نے تب بھی اس کا مذاق اڑایا اور کہا تھا ’’ماں کے جیسی تو ہو گی لیکن سوتیلی ماں کے جیسی ‘‘آج اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ سوتیلی ماں نہیں، مگرمچھ جیسی ہے ورنہ سب مگرمچھ کی طرح آنسو نہ بہا رہے ہوتے کہ ہم سب ہی تو ریاست ہیں جو روحی بانو کی موت پر وہ آنسو بہا رہے ہیں جنہیں ’’ٹسوے‘‘ کہنا مناسب ہو گا۔ریاست صرف میدانوں، پہاڑوں، صحرائوں، ندیوں، نالوں، دریائوں، کھیتوں، کھلیانوں، باغوں، باغیچوں، عمارتوں وغیرہ کا ہی نہیں اجتماعی رویوں کا مجموعہ بھی ہوتی ہے ۔روحی بانو جیسی انمول فنکارہ برسہا برس بے بسی کی تصویر بنی ہمارے درمیان ہی رینگتی، سسکتی، جیتی مرتی، پگھلتی، بجھتی، کراہتی، مٹتی، معدوم ہوتی رہی….کسی نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔اس کا جوان اکلوتا بیٹا قتل ہوا …قاتل نامعلوم اس کے گھر پر قبضہ ہوا …قبضہ گروپ نامعلوم وہ خود قتل ہوئی …قاتل نامعلوم جہاں ہر سال اربوں ڈالر لوٹے جاتے ہیں اور اربوں روپیہ روحانی سرگرمیوں پر خرچ کیا جاتا ہے، جہاں زکوٰۃ کٹتی اور فرزانہ راجا فیم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بٹتے ہیں،جہاں بڑی بڑی پارلیمانیں چھوٹے چھوٹے لوگوں کے خرچ پر پلتی ہیں، جہاں صاف پانی اسکیمیں سانپوں کی طرح سرسراتی ہیں، میٹروز مع سبسڈی دندناتی ہیں، اورنج لائنیں اژدھوں کی طرح لپٹی ہیں،جہاں ایوان فیلڈ اور سرے محل سر اٹھاتے ہیں، پروٹوکول پرورش پاتے ہیں، ایک ایک گھر کی حفاظت پر سینکڑوں سرکاری محافظ مامور ہوتے ہیں….وہاں ایک لاوارث ’’پرائیڈآف پرفارمینس‘‘کیلئے ایک قبر کی گنجائش نہ نکلی تو کیا یہ بھی یہودوہنود کی سازش ہے ؟80ءکی دہائی کے وسط کی بات ہے جب میں ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔کسی کے ذمہ لگایا کہ روحی بانوں کا انٹرویو کرو۔انٹرویو دیکھا تھوڑا ایڈٹ کیا اور سرخی لگائی …’’روحی کی روح گھائل بانوں کا بدن زخمی‘‘’’زنجیر‘‘ شائع ہوا۔روحی کا فون آیا ۔ہذیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے بولی ’’یہ سرخی کس نے لگائی ہے ؟’’میں نے کہا ، ’’میں نے‘‘ تو پوچھا ’’اس کا مطلب ؟‘‘جواب دیا کہ ’’اگر تم نے خود کو تبدیل نہ کیا تو کہیں یہی سرخی تمہاری تقدیر نہ بن جائے۔‘‘وہ نارمل تو شاید کبھی بھی نہ تھی لیکن رکی نہیں، ابنارمیلٹی کی ڈھلان پر پھسلتے پھسلتے استنبول جا پہنچی۔جون ایلیا کا یہ شعر خود اس کیلئے تھا یا روحی بانوکیلئے۔میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں یا شایدتجھ سے شکوہ تو نہیں کاتبِ تقدیر مگررو پڑے تو بھی اگر میرا مقدر دیکھےفنکار عام طور پر ’’نارمل ‘‘ہوتے بھی نہیں اور اگر ہوں تو پھر فنکار نہیں دکاندار ہوتے ہیں لیکن معاشرے اور نظام کو تو نارمل ہونا چاہئے تاکہ اپنے ابنارملز خصوصاً بیش قیمت ابنارملز کی اس طرح دیکھ بھال کر سکے جیسی حقیقی ماں اپنے کسی کمزور بچے کی حفاظت کرتی ہے لیکن یہ تو آزاد لوگوں کا شیوہ ہے اور ہماری آزاد ی ابھی تک ادھوری ہے جس کا ادھورا پن سمجھنے کیلئے نثارناسک کے پاس جانا ہو گا جو ہمیں سمجھاتا ہے۔ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکجیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دےکیسی کیسی سرخیاں کیسے کیسے کفارے ادا کر رہی ہیں’’لیجنڈ اداکارہ روحی بانو انتقال کر گئیں، لاکھوں مداح سوگوار‘‘’’دکھوں کی ماری روحی بانو انتقال کر گئیں‘‘’’فن میں یکتا روحی بانو استنبول میں انتقال کر گئیں‘‘’’صدارتی ایوارڈ یافتہ معروف اداکارہ استنبول میں انتقال کر گئیں‘‘’’دکھیاری روحی بانو دیار غیر میں خالق حقیقی سے جا ملیں‘‘سوچ رہا ہوں کہ اگر استنبول اس کیلئے دیار غیر تھا تو کیا لاہور اس کا اپنا تھا؟یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ جو لاکھوں سوگوار ہیں ان میں سے دوچار ہی اس کے سر پہ ہاتھ اور زخموں پہ مرہم رکھ دیتے تو شاید…شاید وہ سنبھل جاتی۔چلو کچھ بھی نہ کرتے، اس کے اکلوتے بیٹے کے قاتل ہی ڈھونڈ لیتے، اس کے گھر پہ کیا گیا ناجائز قبضہ ہی چھڑادیتے کہ یہ تو احسان نہیں، ان کے فرائض میں شامل تھا….احسان تو بڑی بات ہے، احسان نام ہے کسی کی کمیوں کو پورا کرنے کا لیکن جہاں نیو سینس ویلیو کے علاوہ کوئی اور ویلیو ہی باقی نہ بچی ہو، وہاں کوئی کسی کی کمی پوری نہیں کرتا بلکہ اس کمی کو ایکسپلائیٹ کرتا ہے ۔ بیوہ کی بیوگی سے لیکر یتیم بچے کی یتیمی تک رحم کیلئے نہیں ، بے رحمی کیلئے اکساتی ہے۔ عبدالستار ایدھی ایک آدھ ،خرکار بیشمار اور اس پر بھی برکت کی امید۔پانچ سات سال پہلے میں اور طاہر سرور میر امریکہ کینیڈا آوارگی میں اکٹھے تھے جب طاہر سرور میر نے کسی پرانے ایکٹر کی کسمپرسی کا بتایا تو میں نے کہا ’’ آپ پہل کاری کرو باقی میرا ذمہ، اک ایسی تنظیم بناتے ہیں جو لاوارث فنکاروں کی برسیاں بھی منائے گی، زندگی میں ان کی ہر ممکن مدد بھی کرے گی‘‘میر صاحب مصروف رہے اور میری مجبوری میں متحرک نہیں، اتنا سست گوشہ نشین ہوں کہ ذاتی عارضہ بھی جب تک عذاب نہ بن جائے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا، انجائینا بھی ہو تو تمباکو نوشی وغیرہ نہیں چھوڑتا۔ نری نیت کو کسی نے بھاڑ میں جھونکناہے۔ سب سوگوار ہیں سوائے میرے کہ روحی بانو بالآخر نجات پاگئی۔ پھر کبھی استنبول جانا ہوا تو روحی کی قبر کیلئے پھولوں کی نہیں اخباروں کی سوگوار سرخیوں کی چادر بناکر لے جائوں گا۔ تاکہ وہ جان سکے کہ اہل وطن اس کیلئے کتنے اداس ہیں!(بشکریہ جنگ)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں