تحریر: امجداسلام امجد۔۔
اس سے پہلی ملاقات پی ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ ٹرانسمیشن کے دور میں لاہور سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہونے والی ایک ڈرامہ سیریز ’’کہانی کی تلاش‘‘ سے ہوئی جسے ڈاکٹر انور سجاد، ڈاکٹر خالد سعید بٹ اور فاروق ضمیر مل کر تیار کرتے تھے۔ روحی ان دنوں گورنمنٹ کالج (جو اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کہلاتا ہے) میں سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہی تھی لیکن یہ تعارف ایک طرح سے یک طرفہ تھا کہ یہ ملاقات ٹی وی اسکرین اور اخبارات و رسائل کے قلمی صفحات تک محدود تھی کہ اس وقت تک ٹی وی سے میرا بطور ڈرامہ نگار رشتہ استوار ہی نہیں ہوا تھا۔
بہت بعد کی ایک ملاقات میں اس نے بتایا کہ وہ بھی مجھ سے پہلے میری شاعری سے مل چکی تھی مگر اظہار اس لیے نہیں کیا کہ ان نظموں میں میرا روئے سخن پتہ نہیں کس کی طرف تھا! اب بھلا کسی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کیوں بنے؟ میں تو تب مانوں گی جب آپ خاص طور پر میرے لیے کوئی نظم لکھیں گے۔ میں نے اپنی طرف سے بات کو مذاق میں ٹالنے کے لیے کہا، شاعری کوئی بیان حلفی نہیں ہوتی، بہت سی نظمیں ایسی ہوتی ہیں جن پر آسانی سے To whom it may Concern لکھا جا سکتا ہے۔ اس پر اس نے میرے دیے ہوئے اس وقت کے تازہ شعری مجموعے کی ایک نظم ’’ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو‘‘ پر ہاتھ رکھ کر کہا اگر ایسا ہی ہے تو پھر آج سے یہ نظم میری ہے۔
میں نے کہا اتنی تیزی سے تو قبضہ مافیا والے بھی خالی پلاٹوں پر قبضہ نہیں کرتے۔ بچوں کی طرح خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے بولی، اجازت ہو تو اب اس قبضے کی اطلاع فردوس (میری بیگم) کو بھی دے دوں؟ پھر خود ہی کہنے لگی، پتہ نہیں آپ نے انھیں کیا گھول کر پلا دیا ہے۔ زندگی کے ساتھی پر ایسا اعتماد تو کہانیوں میں سنا تھا پھر ایک دم اس کی آنکھیں بھیگ سی گئیں۔ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ’’ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر بہروپئے ہی ملے ہیں۔‘‘
اس کے قریبی لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ اندر سے دکھی عورت تھی۔ اس کا خاندانی پس منظر بالخصوص اس کی والدہ کا اس کی زندگی کے فیصلوں میں ضرورت سے کہیں زیادہ عمل دخل اور پہلی ناکام شادی کے تجربے نے اس کے الجھے ہوئے ذہن اور بے چین روح میں ایک ایسی کشمکش کی سی صورتحال کو مستقل کر دیا تھا جس میں اس کی ذات ایک تیز آندھی میں اڑتے ہوئے پتے کی طرح بے جہت اور بے ٹھکانہ ہوگئی تھی۔ ہر روز اس کی غائب دماغی کا ایک سے ایک نیا قصہ سننے کو ملتا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ جب وہ کیمرے کے سامنے کسی کردار کے روپ میں آتی تھی تو جیسے سب کچھ بدل سا جاتا تھا۔
ریہرسلز کے دوران وہ اپنی لائنیں ایسی روا روی میں پڑھتی چلی جاتی تھی کہ بالکل اندازہ نہیں ہو پاتا تھا کہ وہ اپنے کردار اور جملوں کے اتار چڑھائو میں موجود مطالب اور باریکیوں پر زرہ برابر بھی توجہ دے رہی ہو۔ DR یعنی ڈائیلاگ ریہرسل کے بعد CR یعنی کیمرہ ریہرسل کے اندر سے جیسے ایک نئی روحی بانوں نکل آتی۔ اس کی ہر Move، چہرے کے تاثرات اور مکالموں کی ادائیگی میں ایک ایسی ناقابل بیان کیفیت پیدا ہو جاتی کہ بعض اوقات خود مجھ پر اپنے ہی لکھے ہوئے مکالموں کے نئے معنی آشکار ہونے لگ جاتے تھے۔ وہ جیسے اداکار کے بجائے خود اس کردار کی شکل میں ڈھل جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ڈرامہ سیریل ’’دہلیز‘‘ کے ایک سین میں جس میں وہ قوی خان کی بیٹی اور آصف رضا میر کی بہن کا کردار ادا کر رہی تھی۔
اس نے ایک مکالمے کو کئی حصوں میں اس طرح سے توڑا کہ قوی کے لیے اپنا Q پکڑنا مشکل ہوگیا۔ سچوئشن یہ تھی کہ قوی اپنے لائق لیکن کنفیوزڈ بیٹے آصف رضا میر کی خود سری، غیر ذمے داری اور گستاخانہ رویے سے بے حد دکھی تھا اور اس کی بیٹی روحی نے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر اسے حوصلہ دیتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ اس کی وجہ محبت کی کمی نہیں بلکہ اس پر پڑنے والے ذہنی بوجھ کی زیادتی ہے۔ یہ جملہ کہتے ہوئے اسے قومی کو چپ کرانا اور خود رونا تھا اور یہ کام اس نے اس طرح سے کیا کہ سیٹ پر موجود ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور خود روحی کو اپنے آنسوئوں پر قابو پانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔
اس واقعے کے کئی برس بعد فائونٹین ہائوس کی ایک تقریب میں (جہاں وہ بطور ذہنی مریضہ کے زیر علاج تھی) وہ جس طرح سے میرے گلے لگ کر سچ مچ روئی تو مجھے وہ سین بے طرح یاد آگیا۔ اس کی آنکھوں کی وحشت اور ویرانی میں ایک ایسا درد تھا جسے برداشت کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ ایک دم وہ پہلے خاموش ہوئی اور پھر زور زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگی ’’آپ کو یاد ہے نا وہ نظم، ان جھیل سے گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو‘‘ مجھے بیچ میں سے کچھ کچھ بھول گئی ہے آپ کسی کے ہاتھ مجھے وہ کتاب بھجوا دینا۔
پھر معلوم ہوا کہ اس کی ذہنی حالت بہت بگڑ گئی ہے اور اب اسے کچھ ہوش نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔ کئی بار سوچا کہ اس کا پتہ کیا جائے مگر اسے تو خود اپنا پتہ نہیں تھا۔ وہ ترکی کب کیوں اور کیسے گئی اس کے بارے میں بھی ابھی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی لیکن اگر آ بھی گئی تو کیا ہو گا وہ جس طرح سے جی رہی تھی اس سے یہ بہتر ہی ہوا کہ وہ جھیل سی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں کہ اب ان میں سوائے الجھنوں اور بے چینی کے اور کچھ تھا بھی نہیں۔
روحی بانو خود تو چلی گئی ہے مگر جو کردار اس نے اپنی یاد گار چھوڑے ہیں ان میں سے ہر ایک ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ وہ ایک بہت بڑی فنکارہ تھی اور یہ سوال بھی اس کو دیکھنے والی آنکھوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا کہ اتنے اچھے لوگوں کے ساتھ قدرت ایسا سلوک کیونکر روا رکھتی ہے کہ الجھنوں کا ہجوم بالآخر انھیں خود فراموشی کے جنگل میں لے جا کر تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوال کرے کون! روحی بانو ہوتی تو شاید اپنے مخصوص الجھے ہوئے لہجے میں پوچھ ہی لیتی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔