تحریر: ناصر جمال۔۔
اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ، بیورو کریسی، سرمایہ دار تو پہلے ہی ننگے تھے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے، عدلیہ اور میڈیا بھی الف ننگے ہوگئے ہیں۔ پورا معاشرہ ہی بے پیراہن ہے۔ اس کے حتمی تباہ کن اثرات، انتہائی خوفناک انداز میں سامنے آئیں گے۔ اس کی ابتدائی شکل اتنی بھیانک ہے تو انتہا کیسی ہوگی۔؟
لگتا ہے۔ حافظ صاحب نے طے کر لیا ہے کہ اس معاشرے میں کوئی ایسا مرد نہیں چھوڑنا، جس کی جیب میں پیسے اور گاڑی میں پٹرول ہو۔ اور نہ ہی کوئی ایسا دوست اور ہمدرد رہنے دینا ہے۔ جو دوست، احباب اور ضرورتمندوں کی مدد کرتا ہو۔ نفسا، نفسی کا سنا کرتے تھے۔ اب دیکھ بھی رہے ہیں۔یہاں مسئلہ دوسرا ہے۔ جو، جو شعبے ننگے یا الف ننگے ہوئے۔ وہاں سب ہی خوشحال ہیں۔ میڈیا۔۔ وہ واحد شعبہ ہے۔ جہاں پر صحیح معنوں میں پروفیشنل اور نظریاتی لوگ مارے گئے ہیں۔ جبکہ مالشیوں کے درجات بدرجہ اُتم بلند ہوئے۔
گزشتہ ہفتے، عزیزی عاطف شیرازی (جنگ) کے بڑے بھائی، ڈینگی سے دو دن میں ہی انتقال کرگئے۔ رواں سال ہی اُن کے والد بھی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ اُن کے والد اور بھائی دونوں سے ملاقاتیں تھیں۔سوشل میڈیا سے اس اندوھناک خبر کا پتا چلا۔ اتنا ہاتھ تنگ تھا چاہتے ہوئے بھی، عاطف شیرازی سے تعزیت کے لئے، خوشاب نہیں جاسکا۔ سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ جس دوست کے ساتھ کئی شامیں اکٹھی گزرتی ہیں۔ اُسے پُرسہ بھی نہیں دے سکے۔ بمشکل فون کرکے اس سے تعزیت کی۔ پہلے پیغام چھوڑا۔ پھر ڈرتے، ڈرتے پوچھا کہ کوئی حکم ہو تو بتائو۔۔ ہمارےدرویش دوست نے کونسا ہاں کرنی ہوتی ہے۔ وہ ملنگ شخص ہے۔ کبھی اس کے چہرے سے تکلیف کا اندازہ ہو بھی جائے تو اُسے منت سماجت کرکے زبردستی کچھ اُس کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ وگرنہ وہی پالش والے سے لیکراحباب تک کی مدد پر ہروقت آمادہ برضا رہتا ہے۔ بڑا ہی خودار اور درویش شخص ہے۔
اس تمہید کا مطلب ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ اور اُن کے ٹٹوئوں کو کچھ بھی نہیں ہونا۔ غریب آدمی، خطِ افلاس والے ساڑھے گیارہ کروڑ اور پانچ کروڑ غربت والے، ویسے ہی عادی ہیں۔ اصل تباہی تو سفید پوشوں کی ہوئی ہے۔ جس میں لوئر، مڈل اور اپر مڈل کلاس ہے۔ پچیس کروڑ میں ان کی تعداد کسی طورپر بھی آٹھ کروڑ سے کم نہیں ہوگی۔ یعنی پچاس لاکھ لوگ، جن میں اشرافیہ ، اور ان کے حواری ہیں۔ وہ سب کچھ ’’کھا‘‘ گئے ہیں۔ سب سے زیادہ پرابلم سفید پوشوں کی ہیں۔ جو تعلیم، اور محنت سے خوشحال مستقبل کے خواب بُنتے اور اُن کی تعبیر کے لئے ڈٹ جاتے ہیں۔ صحافیوں میں ایسے ہی لوگ تھے۔ جو پروفیشنل ازم نظریئے اور مشن کو ساتھ ساتھ لیکر چل رہے تھے۔ پھر میڈیا انڈسٹری بن گئی۔ میڈیا پر بزنس ڈیپارٹمنٹ اور سیٹھوں کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا۔ پروفیشنل ہونا جرم ہوگیا۔ میڈیا اور میڈیا اسکرینز پر، ہالی اوربالی وڈ کا گماں ہونالگا۔ صُبح کے پانچ گھنٹے، خواتین اینکرز کھا گئیں۔ ان کی غالب ترین اکثریت، خواتین کو زندگی کے گُر سکھاتی، سکھاتی، طلاق یافتہ ہوگئیں۔ کئی نے تو شنید ہے ھیٹرک بھی کی۔ اس کے بعد، ٹی۔ وی پر ایجنڈے اور ڈنڈوں نے جگہ لے لی۔ اخبارات اور ٹی۔ وی چینلز کے سیٹھ اپنے، اپنے مفادات کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ ہائوسنگ، انڈسٹری اور ایجوکیشن مافیاز نے 95 فیصد ٹی۔ وی چینلز پر قبضہ کرلیا۔ باقی 99.99 فیصد ان کے ساتھ مل گئے۔ انھیں اپنے مفادات سے غرض تھے۔ سب بندوق کے سامنے، بندروں اور ریچھوں کی طرح ناچنا شروع ہوگئے۔ کوئی رئوف کلاسرہ ، ندیم ملک، شہباز رانا جیسے دانے آٹے میں نمک کی طرح برداشت کرنا پڑے ہیں۔
مگر اس مضمرات اتنے تباہ کن ہیں کہ ’’اخبارات‘‘ تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ ان کی کریڈبلٹی 99 فیصد ختم ہوچکی ہے۔ ڈبہ ( ٹی۔ وی ) بھی اپنی معتبریت، تباہ کرچکا ہے۔ اب اس معتبریت کو بچانے کے، وزارت اطلاعات کے ذریعے ڈرامے کئے جارہے ہیں۔ خط لکھوائے جارہے ہیں کہ صرف ڈیکلریشن اورپیمرا کے لائسنس کے حامل ٹی۔ وی چینلز کے نمائندوں کو سرکاری اداروں میں ”انٹرٹین“ کیا جائے گا۔دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ میرے جیسا بونیفائیڈی جرنلسٹ، انفارمیشن سے استفادہ کے لئے، سوشل میڈیا سے رجوع کرتا ہے۔
میں آج بیانگ دُھل لکھ رہا ہوں کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا، آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس کی جان کنی کا عالم ہے۔ ان کے سرھانے، سورہ یٰسین پڑھی جارہی ہے۔ جو کچھ ان لوگوں نے صحافت کے سچے فرزندوں کے ساتھ سلوک کیا ہے۔ آپ یہ اپنا بویا ہوا کاٹیں گے۔اگر یہ نالائقوں، میرٹ کے برخلاف لوگوں کے ساتھ، پروفیشنل سلوک کرتے تو، ان کے ساتھ یہ حشر نہ ہوتا۔ اب یہ اور سیٹھ بھگتیں۔ وہ دن دور نہیں ہے۔ جب مجید نظامی، ضیاء شاہد کی طرح، میر شکیل الرحمان، میمن ٹی۔ وی نیٹ ورک سمیت پراپرٹی ٹائیکون میڈیا کی دنیا میں نشان عبرت بن جائیں گے۔اس کا اندازہ آپ کو اس بات سے بھی ہونا چاہئے کہ ایک بڑی ہائوسنگ سوسائٹی نے، ٹی۔ وی، اخبارات اور بل بورڈز پر 25 کروڑ سے چالیس کروڑ روپے خرچ کئے۔ اس کا ریسپارنس ایک فیصد بھی نہیں تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا کیمپین پر صرف دو لاکھ روپے خرچ کئے۔ رسپانس روایتی میڈیا سے چھ سو گنا زیادہ تھا۔ آگے، آپ خود سمجھدار ہیں۔ٹی۔ وی اور اخبارات میں ’’خبر‘‘ نام کی کسی چیز کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر لوگ اس سے استفادہ کیوں کریں۔
ڈیجیٹل میڈیا نے ابھی ’’ری شیپ‘‘ ہونا ہے۔ اگلے بیس سال اِسی کے ہیں۔ اب پروفیشنل صحافیوں کو مرتے ہوئے روایتی میڈیا کو خیر باد کہہ کر نئی دنیا بسانی ہوگی۔ اب جیت خبریت اور تفریحی مواد کی ہوگی۔ ڈیجیٹل پروڈکشن کی جدت، اس کو چار چاند لگا دے گی۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی مارکیٹ اب لوکل کی بجائے، انٹرنیشنل ہوگئی ہے۔ بزنس کے نئے دروازے کُھل گئے ہیں۔ پیسے روپیوں کی بجائے ڈالرز اور پائونڈز سمیت ہر کرنسی میں مل سکتے ہیں۔سیٹھوں کی غلامی کا دور ختم ہونے کو ہے۔ پرنٹ کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور اینکرز کے پاس زیادہ ٹائم نہیں بچا۔ روایتی وی لاگ بھی ختم ہونے جارہے ہیں۔ ایک خبر کی لائن کو آپ پندرہ منٹ نہیں پیٹ سکیں گے۔ پانچ سے سات منٹ میں وہ بھی تکرار کے بغیر بات کرنا ہوگی۔ اپنی شکل دکھانے کی بجائے، وژویل اور گرافکس دکھانا ہونگے۔دنیا بدل رہی ہے۔ آج پورے ملک میں دو لاکھ اخبار بھی نہیں چھپتے۔ میں جعلی اے۔ بی۔ سی کی بات نہیں کررہا۔ جس کے مطابق ملک میں شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد پچاس کروڑ سے ایک ارب روزانہ سے بھی زائد ہے۔
اسی طرح آج کل لوگ نیوزچینل اور اینکرز کے پروگرام 99 فیصد، آواز بند کرکے دیکھتے ہیں۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سچ پوچھ لیں۔ یہی آواز آئے گی۔ تمام میڈیا ہائوسز، اخبارات کے دفاتر، سرکاری دفاتر، ہوٹلز، ایئرپورٹس اور عام دفاتر میں تو یہی پریکٹس ہے۔ نیٹ فلیکس اور دوسرے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب دوست، بھیجے گئے مواد کو ساتھ لکھے گئے کمنٹس کے بعد پڑھ کر کھولتے ہیں۔تو دوست دنیا بدل چکی ہے۔ویسے ہی ایک حکایت یاد آگئی۔ایک شراب کا تاجر، خواجہ معین الدین چشتیؒ کے پاس آیا۔ اور عرض کی خواجہ صاحب، میں شراب کا تاجر ہوں۔ خالص شراب بناتا اور بیچتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ساتھ ایک اور تاجر نے دکان کھولی ہے۔ اس کی شراب گھٹیا کوالٹی کی ہے۔ مگر اس کی شراب مجھ سے زیادہ بکتی ہے۔آپ دُعا کر دیں۔ کوئی تعویز دے دیں۔ تاکہ میرا کاروبار چلے۔ خواجہ صاحب نے یہ بات سُنی تو مسکرائے۔ ایک خط لکھا۔ اُسے دیا۔ اور کہا کہ ایک ماہ کے بعد، کام ھو یا نہ ھو۔ ہمارے پاس آنا۔ مگر یہ ’’خط‘‘ نہیں کھولنا۔ اس کوایسے ہی واپس لے آنا۔شراب کا تاجر، چلا گیا۔ وہاں موجود لوگوں نے کُھسر، پُسر ، کی اور ایک صاحب نے بآواز بلند، اس پر اعتراض کیا کہ آپ نے شراب کے تاجر کو خط دے دیا ، یہ سن کر خواجہ صاحب مسکرائے اور کہا کہ اب تو اس پر بات ایک ماہ کے بعد ہوگی۔ جب وہ تاجرواپس آئے گا۔شراب کا تاجر، ایک ماہ بعد واپس آیا، تو بہت خوش تھا۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ کیا ہوا۔۔۔؟ تاجر نے جوش سے کہا کہ وہ تاجر تو اپنی دکان بند کرکے چلاگیا۔ جبکہ میں نے اپنی شراب کی کوالٹی اتنی عمدہ کردی ہے۔ اس سے زیادہ کوالٹی کی شراب تیار نہیں ہوسکتی۔ خواجہ صاحب نے اس پر کہا کہ اب ہمارا رقعہ ہمیں واپس کردیں۔ کھولا تو نہیں تھا۔ شراب کے تاجر نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا حضور میری اتنی جُرات کہاں ہے۔شراب کے تاجر نے خط واپس کیا تو جس مرید نے آواز بلند بات کی تھی۔ اُسے خط دیا اور کہا کہ اسے پڑھو، کیا لکھا ہے۔ مرید نے بآواز بلند خط پڑھنا شروع کیا۔ اے میرے رب، اس تاجر کا رزق کشادہ کردے اور اس کو کسی اور بہتر جگہ سے رزق دے۔ اور اگر اس کا رزق کسی اور جگہ سے نہیں لکھا۔ یہیں سے لکھا ہے۔ تب بھی اس کا رزق کشادہ کردے۔ کم از کم لوگ ’’خالص‘‘ شراب تو پیئں گے۔
قارئین،جھوٹی، جعلی، ملاوٹ زدہ اورگھٹیا کوالٹی والی خبروں،بلیک میلنگ اور پیڈ ایجنڈوں پر مشتمل بیانیوں کو پرموٹ کرنے والوں کا وہ دن آخر آہی جاتا ہے۔ جب اُن کو دکان بند کرنا پڑتی ہے۔ یہ قدرت کا طریقہ کار ہے۔ اس نے امتوں سے لیکر قوموں تک بدل دیا۔ اس نے آخر ’’خالص‘‘ کو مقام دینا ہی ہوتا ہے۔ ظالموں کی رسی دراز ہوتی ہے۔ مستقل دراز نہیں ہوتی۔ مگر جب قدرت رسی کھینچتی ہے تو وقت کے فرعون توریوں کی طرح لٹک رہے ہوتے ہیں۔ اب یہی کچھ میڈیا اور وزارت اطلاعات کے فرعونوں کے ساتھ ھونے جارہاھے۔ جنہوں نے سوال اور سچ کو قتل کردیا ہے۔(ناصر جمال)۔۔