تحریر: سید بدرسعید۔۔
اس میں دو رائے نہیں کہ دور جدید میں میڈیا مینجمنٹ اور پبلک ریلیشنگ کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں عوامی سطح پر بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ امیج بلڈنگ اور پی آر مینجمنٹ کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا جاتا ہے حالانکہ یہ تاثر درست نہیں ہے۔ہٹلر کے جھوٹ سے جنم لینے والا جدید پراپیگنڈہ ترقی کر کے سچ کا لبادہ اوڑھ چکا ہے۔ میں صحافت کے طالب علموں کو بھی یہی بتاتا ہوں کہ جس طرح اچھی صحافت سچ کی بنیاد پر ہوتی ہے اسی طرح امیج بلڈنگ، پی آر اور میڈیا مینجمنٹ کی بنیاد بھی سچ پر رکھی جاتی ہے۔ اب تو ہم ڈیجیٹل ورلڈ کا حصہ بن چکے ہیں جہاں دو منٹ میں فیکٹس سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایک کیپشن یا سرخی کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ریٹنگ تو لے لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ میں نے ایسے بہت سے یوٹیوب چینل بہت زیادہ ریٹنگ لینے کے بعد تباہ ہوتے دیکھے ہیں جنہوں نے غیر حقیقی سرخی یا سنسنی خیز جھوٹا کیپشن لکھ کر ریٹنگ لینے کی کوشش کی۔ یہی صورت حال پبلک ریلیشننگ کی ہے۔کسی بھی پبلک ریلیشنگ آفیسر یا میڈیا سیل کا بنیادی کام اپنے ادارے کے اچھے کاموں کو سامنے لانا ہے۔ میڈیا سیل انہی اچھے کاموں کو بہترین انداز میں پیش کرتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا اس کے بہترین ٹول ہیں لیکن ان ٹولز کو استعمال کرنا ہی اصل مہارت ہے۔ خبر، کالم، فیچر، ڈاکومنٹریز، ویڈیو،تصاویر، بلاگز، اورسوشل میڈیا پوسٹ سمیت درجنوں طریقے موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سے ٹولز ایسے ہیں جن کے لیے بہت زیادہ بجٹ کی ضرورت نہیں پڑتی، کئی ایسے کام ہیں جو بھاری بجٹ کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ اچھا میڈیا منیجر اپنے بجٹ کے مطابق بہترین سٹریٹیجی بناتا ہے۔ میں سوشل میڈیا پر کم از کم 30 سوشل پلیٹ فارمز کے بارے میں جانتا ہوں جو امیج بلڈنگ اور پراپگنڈہ دونوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں البتہ زیادہ تر لوگ فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب سمیت ایک دو مزید ایسے ہی سوشل پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں،باقی ہر پلیٹ فارم پر ابھی جگہ خالی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر پبلک ریلیشنگ آفیسر اپنی عمر اور سروس کو بنیاد بنا کر اخبارات تک محدود ہیں۔ چند ایک سوشل میڈیا کو اخبار کی طرح چلا کرخانہ پری کر لیتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے پبلک ریلیشنز آفیسرز بھی ہیں جنہوں نے کبھی اس معاملے میں اپنی عمر کو جواز نہیں بنایا، انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود اسے سیکھا بلکہ اپنی ٹیم کو بھی موٹیو یٹ رکھا۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ لوگ پولیس کے خلاف ہیں اور اسے پسند نہیں کرتے لیکن ڈی جی پی آر کے ایک ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز سید نایاب حیدر نے پنجاب پولیس جیسے ادارے کے سوشل میڈیا کو 1 ملین فالورز کے سنگ میل کے قریب پہنچا دیا تھا حالانکہ اس سے قبل وہ سوشل میڈیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ اسی طرح وہ اخبارات میں بھی ہر سطح پر وسیع تعلقات رکھتے ہیں اور اپنے محکمے کی امیج بلڈنگ کے لیے رپورٹنگ، نیوز روم، میگزین، ایڈیشن سمیت ہر شعبے میں مسلسل اپنے محکمہ کی پروجیکشن کے لیے تفصیلات مہیا کرتے اور خود روزانہ کی بنیاد پراخبارات و چینلز کے مسلسل وزٹ کرتے تھے۔ محکمہ زراعت کے شاہد قادر بھی ایسے ہی افراد میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اداروں میں ذاتی دوستیوں کی بنیاد پر امیج بلڈنگ کے شعبے میں نام کمایا۔ مجھے یاد ہے کہ 2012 میں قومی سطح کے معاصر اخبار کے دفتر انہیں اتنی بار دیکھا کہ مجھے لگنے لگا شاید وہ یہاں کسی شعبے میں میرے کولیگ ہیں۔ ایل ڈی اے کے موجودہ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اسامہ محمود ایسے نوجوان آفیسر ہیں جنہوں نے محکمہ ہیلتھ، پولیس اور اب ایل ڈی اے میں باقاعدہ میڈیا تھیوریز کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف نے بھی پبلک ریلیشنز اور پی آر میں بہت محنت کی، وہ اکثر میڈیا ہاوسز اور پریس کلبس میں نظر آتے ہیں۔ صحافیوں سے ان کے اس حد تک مراسم ہیں کہ لگ بھگ ہر دوسرے صحافی کی تاریخ پیدائش تک سے واقف ہیں۔ دوسری جانب بہت سے پبلک ریلیشن آفیسرز ایسے میڈیا ریلیشنز سے دور ہیں۔ ان کے نزدیک روٹین کی خبریں ہی امیج بلڈنگ ہیں۔ انہیں آپ جو بھی مشورہ دیں وہ فورا وسائل کی کمی اور محکمہ کی لاپروائی کا رونا رونے لگیں گے بلکہ الٹا ایسے مشورے دینے والوں کو بلاک کر ے جان چھڑا لیں گے۔سو کالڈ ففتھ جنریشن وار کے اس دور میں ہر ادارے کو امیج بلڈنگ اور میڈیا مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔اپنے اچھے کاموں اور سروسز کو پراپگنڈہ کی حد تک پھیلانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے لیکن اس کے لیے جدید طریقہ کار کو اپنانا اور”پبلک“ ہونا بہت ضروری ہے۔ہمارے دوست ملک سلمان کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹ ذاتی تشہیر میں مصروف ہیں اور ہر سرکاری ڈیپارٹمنٹ کے درمیان تعریفی پوسٹوں اور پیغامات کا مقابلہ چل رہا ہے۔ انہوں نے آئی جی پنجاب کا حوالہ بھی دیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بطور سربراہ چند ماہ میں اپنی فورس کے لیے جتنے کام کیے ہیں ان کی مثال پنجاب پولیس کی تاریخ میں نہیں ہے،خصوصا ویلفیئرز اور ترقیوں کے حوالے سے اس ایک شخص نے جو کام کر دکھایا ہے اس کا ایک چوتھائی بھی میڈیا اور عوام کے سامنے نہیں آ سکا۔انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی شخص جمود توڑتا ہے اور روٹین سے ہٹ کر کچھ کر دکھاتا ہے تواس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس سے آگاہ ہوں لیکن اب تک ڈاکٹر عثمان انور خود ہی اپنے محکمہ کی پروجیکشن کا محاذ سنبھالے نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں کومحکمانہ کاموں کی پروجیکشن بھی ذاتی پروجیکشن لگ رہی ہے۔ روایتی خبر عوام کے لیے ان ہزاروں خبروں جیسے ہوتی ہے جس کی عمر ایک دن ہے۔ آپ کسی صحافی سے پوچھ لیں کہ پنجاب پولیس کے کتنے افسران و اہلکاروں کی ترقی ہوئی ہے تو وہ شاید ہی بتا سکیں۔ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس سال شہدا کی فیملیز کو کتنے گھر دیے گئے۔ کوئی ایک ڈاکومنٹری ایسی نہیں جس میں شہدا کے اہلخانہ اپنے نئے گھر میں خوش نظر آتے ہوں، ترقی پانے والے اہلکاروں کی ان کے اہل خانہ یا دوستوں کے ساتھ نیچرل ماحول میں مسکراتی تصاویر تک سامنے نہیں آ سکیں۔ ایک اچھے میڈیا و سوشل میڈیا سیل کی موجودگی کے باوجود آئی جی پنجاب کے بہت سے اقدامات پبلک نہیں ہیں۔ان غیر روایتی اقدامات کو محض روایتی خبروں تک محدود کرنا ظلم ہے۔ سچائی کی بنیاد پر ڈیٹا،فیکٹس، فگرز اور آوٹ ڈورپیکجز پر جتنا اچھا ایسے آفیسر کے لیے کھیلا جا سکتا ہے اسے میڈیا مینجمنٹ کے ماہرین بونس چانس سمجھتے ہیں اور ایسے آفیسر پر ہی اپنا کیریئر بناتے ہیں۔ڈاکٹر عثمان انور کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ شاید ہی پنجاب کا کوئی ضلع ہو جہاں ان کے ویلفیئر اقدامات کے زندہ کردار موجود نہیں اس کے باوجود مجھے ایک غیر روایتی آئی جی روایتی خبروں میں دفن ہوتا نظر آتا ہے۔(سید بدر سعید)