تحریر: محمد نواز طاہر
برِ صغیر میں راجپوتوں کی خواتین کو کھلے عام رونے کی اجازت نہیں تھی تب میت پر رونے والیوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جنھیںرودھالی کہا جاتا تھا جو ہندو دھرم میں راجپوت خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے میت کا ’ پروفیشنل سیاپا‘ کیا کرتی تھیں ۔
بھارت میں انیس سو ترانوے میں آرٹ فلم ’ ردھالی‘ راج ببر اور ڈمپل کپاڈیہ پرجیسلمیر میں فلمائی گئی تھی جو یہ ایک خاتون کی کہانی پر مبنی اس میں ردھالی بڑا واضح کردار دکھایا گیا ہے کہ وہ میت پر ایسے ایسے بین کرتی ہے جیسے ماں ، باپ کے مرنے پر تنہا رہ جانے والی بیٹی بے یارومددگار روتی ہے یا سہاگن ودوا ہونے پراپنی نصیب کا نوحہ پڑھتی ہے اس کا فن ظاہر کرتا ہے کہ اس ( ردھالی) کے بس میں نہیں ورنہ وہ بھی میت کے ساتھ ہی سپردِ آتش ہوجائے ۔میت شمشان گھاٹ روانہ ہونے پر ردھالی اپنے آنسوﺅں کی اجرت تھامے واپس لوٹ جاتی ہے ،نئی مزدوری کے لئے بھگوان سے پراتھنا کرتی رہتی جیسے گورکن اپنے پاپی پیٹ کی خاطر مُردے کے لئے دعا کرتا ہے ۔۔۔
پاکستان کے میڈیا کارکن بھی راجپوتوں جیسے ہیں ، بھلے پیٹ خالی ہو ، پیشہ ورانہ بھرم ، وقار، انا کی خاطر بھوکے رہیں گے کسی کو آپنے آنسو نہیں دکھائیں گے ( اس میں لوٹ مار کرنے والی کالی بھیڑیں شامل نہیں ) ، اپنی اجرت لینے کے لئے خود سڑک پر نہیں نکلیں گے ، نوالے اور دوائی کی ایک خوراک نہ ملنے پر جان دے دیں گے یا پھر دل برداشتہ خود کُشی کرلیں گے ۔۔۔ موت جیسے بھی ہو موت ہے ، اس موت پر پھر کچھ لوگ اکٹھے ہوتے ہیں ، تعزیتی، جذباتی نعرے لگاتے ہیں(مرنے والے کا سیاپا کرتے ہیں) ، آنسو بہاتے ہیں اور ردھالی کا کردار ادا کرتے ہوئے گھروں کو اور کچھ ضروری کام کے لئے نکل جاتے ہیں ۔
اس طرح کی اموات کا آغاز کارکنوں کی اجرت سے ہاتھ کھینچے رکھنے، اجرت دبانے کے’ موجد‘ اور اخبار کو اپنے ہی بیانات کے لئے استعمال کرنے کی طرح ڈالنے والے عاشقِ رسول شاعر اور شعلہ بیاں مقرر مولانا ظفر علی خاں کے روحانی شاگرد ضیاءشاہد کے ادارے خبریں گروپ سے ہوا تھا جب ایک کارکن اعظم نے تنخواہ نہ ملنے پر خود کُشی کرلی تھی ۔ اس معاملے پر کارکنوں کی نمائندگی کی دعویدار تنظیم نے مگر مچھ کے آنسو بہائے ، مالک کے حکم کی تعمیل میں ایک مقامی لیگی کارکن کی مدد سے ڈرایا، دھمکایا ، یہ صاحب اب مسلسل ایم پی اے بن رہے ہیں، اُس وقت اگر اعظم کے خون کا حساب لیا جاتا اور ردھالی کا کردار ادا نہ کیا جاتا تو آج نیوز ون کا کارکن بھی اپنی طبعی موت اس دنیا سے رخصت ہوتا اور کیپٹل ٹی وی کا فوٹو گرافر بھی اپنی طبعی زندگی پوری کرتا۔
شرمناک حد تک افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری تنظیموں کے رہنما بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں لیکن تنخواہیں نہ ملنے پر’ فرضی‘ بیان بازی کے خطِ مسقیم‘ پر چلتے ہیں ، کسی ادارے کے اشتہار بند ہوجائیں تو حکام سے رابطے کرتے ہیں ، یعنی نمائندگی کارکن کی نہیں کی جاتی ،لاہور ، کراچی ، اسلام آباد ، پشاور اور کوئٹہ پریس کلبوں میں مختلف اوقات میں کارکنوں کی اجرت کی عدم ادائگی کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے لیکن محنتانہ ادا نہ کرنے والے ٹی وی چینلز داخلہ بند نہیں کرتے ، حالانکہ اگر صرف ان اداروں کے ”لوگو‘ ہی اٹھوا دیئے جائیں تو تنخواہوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے لئے ردھالی کا کردار ہی منتخب کرلیا گیا ہے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔
(محمد نواز طاہر لاہورکے باخبر صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ پریس کلب اور یونین کی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔۔ اس تحریر میں انہوں نے وہ باتیں لکھی ہیں جو انہوں نے دیکھی اور محسوس کی۔۔اس تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔