ریپوٹیشن مینجمنٹ کمپنیاں فعال۔۔

ٹیکنالوجی کے شعبے میں کئی طرح کی کمپنیاں موجود ہیں اور اب انٹرنیٹ پر لوگوں کی کھوئی عزت بحال کروانے والی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی معرض وجود میں آ گئی ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد ان کمپنیوں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنے کسٹمرز کی تعریف و توصیف پر مبنی آرٹیکلز لکھ کر انہیں گوگل پر رینک کرواتی ہیں اور کسٹمرز کے ماضی کے شرمناک واقعات، جو گوگل پر موجود ہیں انہیں ہٹانے کا کام کرتی ہیں اور اس کی جگہ ایسے آرٹیکلز لاتی ہیں جن سے ان کے کسٹمرز کا انٹرنیٹ پر اچھا تشخص پیش ہو۔اس قسم کی ایک بڑی کمپنی کا نام سٹیٹس لیبز ہے جو کہ امریکی شہر آسٹن میں قائم کی گئی ہے۔ امریکہ میں اب تک اس قسم کی 5ہزار سے زائد کمپنیاں بن چکی ہیں۔ میل آن لائن نے ایسی ہی ایک کمپنی کے امیر کسٹمر کے متعلق بتایا کہ وہ نیویارک ہیج فنڈ منیجر ہے اور ماہانہ ایک رپیوٹیشن کمپنی کو 4سے 5ہزار ڈالر دے رہا ہے تاکہ وہ انٹرنیٹ پر موجود اس کے ماضی کے متنازع اور شرمناک قصے ہٹائے اور ان کی جگہ پر اچھے آرٹیکلز پوسٹ کروا کر اس کے امیج کو بہتر بنائے۔وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ان کمپنیوں نے فرضی ویب سائٹس بنا رکھی ہوتی ہیں اور ان پر اپنے کسٹمرز کے متعلق اچھے آرٹیکلز پوسٹ کرکے انہیں گوگل پر رینک کرواتی ہیں تاکہ لوگ جب ان کے کسٹمرز کے متعلق گوگل پر سرچ کریں تو انہیں ان کے متعلق اچھی باتیں پڑھنے کو ملیں۔ریان سٹون راک نامی ایک وکیل کا کہنا تھا کہ ”کوئی ایک شخص کسی ایک امیر آدمی پر کوئی الزام عائد کر دیتا ہے تو وہ واقعہ گوگل پر آ جاتا ہے۔ اس الزام میں کوئی صداقت نہ بھی ہو تو بھی لوگ وہ واقعہ پڑھ کر اس امیر آدمی کے متعلق بری رائے قائم کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امراءکی بڑی تعداد اس طرف توجہ دے رہی ہے اور اس کے نتیجے میں رپیوٹیشن کمپنیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔دوسری جانب گوگل نے ایسی ویب سائٹس کو بند کردیا جنہوں نے اس شخص سے متعلق مثبت کہانیاں شائع کیں۔۔اپنے ایک بیان میں گوگل نے واضح کیا کہ کسی کی ساکھ کو اپنے طور پر بہتر کرنے کی کسی بھی کوشش میں دھوکا دینے والی حکمت عملی کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔۔دوسری جانب ایسے امیر شخصیات جو ماضی میں کسی اسکینڈل کا شکار رہیں اور اس کی وجہ سے گوگل پر ان کی ساکھ بھی منفی دکھائی دیتی ہے، وہ لوگ اس کمپنی سے رابطے کر رہے ہیں۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں