reporters without border ki reporter mistarad

رپورٹرزودآؤٹ بارڈر کی رپورٹ مسترد۔۔

پاکستان نے رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جانب سے شائع کردہ پریس فریڈم پریڈیٹرز رپورٹ 2021ء کو مسترد کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ آر ایس ایف مستقبل میں اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ صحافت سے اجتناب کرے گا، وزیراعظم عمران خان کی حکومت آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے جس کا واضح ثبوت کابینہ سے متفقہ طور پر صحافیوں کے تحفظ کے بل کی منظوری ہے۔ صحافیوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ʼرپورٹرز ودآؤٹ بارڈرزʼ نے 37 ممالک اور حکومتوں کے سربراہوں کی فہرست شائع کی ہے جو اپنے ملک میں میڈیا سنسرشپ، صحافیوں کو قید کر کے، انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر، ہراساں کر کے یا انھیں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کروا کر آزادی صحافت کو مسلسل دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان 37 ممالک کے سربراہوں میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سمیت انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی، سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان، ترکی کے رجب طیب ایردوان، ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای، چین کے صدر شی جن پنگ، روس کے دلادمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کے نام بھی شامل ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ رپورٹ فضول ہے اور اس حوالے سے حکومت جلد اپنا تفصیلی مؤقف بھی دے گی۔ ʼرپورٹرز ود آؤٹ بارڈرزʼ نے اس فہرست کو ʼ پریڈیٹرز آف پریس فریڈمʼ یعنی آزادی صحافت کے شکاریوں یا دشمنوں کا نام دیا ہے۔ جبکہ ایشیا کی دو خاتون سربراہان حکومت کا شمار بھی اس فہرست میں کیا گیا ہے۔ ان میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام شامل ہیں۔ جبکہ چند یورپی ممالک کے سربراہ بھی اسی فہرست میں نظر آتے ہیں۔ ʼرپورٹرز ود آؤٹ بارڈرزʼ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ان سربراہان مملکت میں سے چند گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے ملک میں آزادی صحافت کو سلب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے آر ایس ایف کی رپورٹ پر جاری پریس ریلیز میں کہا ہے کہ یہ ہمارے لئے حیران کن ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کے موجودہ حکومت صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کیلئے مناسب ماحول کی فراہمی کیلئے ہر ممکنہ اقدامات اٹھا رہی ہے، آر ایس ایف یکدم اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ پاکستان میں میڈیا عمران خان کی حکومت کی طرف سے سخت سنسر شپ اقدامات کے تحت گزر رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 43 انٹرنیشنل میڈیا چینلز، 112 پرائیویٹ ٹی وی چینلز، 258 ایف ایم چینلز اور 1569پبلی کیشنز ہیں، میڈیا کی یہ ترقی پاکستان میں میڈیا کی مضبوطی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ آر ایس ایف کی رپورٹ کے برخلاف حکومت پریس ایڈوائس جاری کرنے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ یہ میڈیا کے ذریعے خود ضابطہ اخلاق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسی متعدد مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں جن میں غیر مصدقہ خبروں نے غیر ملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جس سے ملک کی ساکھ کو نمایاں طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ حال ہی میں معروف برطانوی اخبار میں پاکستانی نژاد نوجوان لڑکی کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے بارے میں لکھا گیا کہ وہ برطانیہ سے اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے آئی جبکہ پولیس کی تفتیش کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ کبھی برطانیہ گئی ہی نہیں تھی اور مبینہ ملزم دراصل اس کا شوہر تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایف نے بغیر کسی ثبوت کے جو رپورٹ جاری کی ہے وہ پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ امید ہے کہ آئندہ آر ایس ایف ایسی غیر ذمہ دارانہ صحافت سے گریز کرے گا۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں