تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،کراچی کی برسات نے تو تہلکہ مچادیا، ملک بھر میں جہاں اس پر بات ہورہی ہے کراچی میں بھی دن رات صرف بارشوں کا ہی تذکرہ چل رہا ہے۔۔ کہتے ہیں کہ عید اور بارشیں صرف بچے ہی انجوائے کرتے ہیں۔۔ بالکل درست بات ہے۔۔ اب تو بڑے ہر عید پر کوشش کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ آرام کرلیں جب کہ بارشوں میں بھی زیادہ تر کی یہی کوشش ہوتی ہے۔۔ سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت کے لیڈر نے تو پہلے ہی قوم کو بتادیا تھا کہ۔۔جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے-، جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔۔ اس بار حقیقت میں ایسا ہی ہوا، شہر قائد کسی ’’واٹر پارک‘‘ کا منظر پیش کرنے لگا۔۔ کچھ لوگ تو ہمیں واٹس ایپ پر طعنے دینے لگے کہ ۔۔پہلے سمندر دیکھنے سی ویو، ہاکس بے جاتے تھے، اب سمندر خود چل کر آپ کے دروازے پر آگیا ہے۔۔ کراچی میں بارش شروع ہوتے ہی شہری یوں تو ابتدا میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے جیسے بارش کے دورانیے میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے اس شہر سے تیرتی گاڑیوں کی تصاویر موصول ہونے لگتی ہیں اور گھروں میں داخل ہوتا پانی علاقہ مکینوں پر آزمائش بن جاتا ہے۔اس بار بھی ملک کے سب سے بڑے شہر میں بھاری بھرکم کنٹینرز، بسیں اور گاڑیاں کھلونوں کی طرح سڑکوں پر تیرتے نظر آئے۔۔ایک زمانہ تھا جب کراچی میں بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں،ہمیں یاد ہے اماں ،ابا اس وقت تک گھر میں آم نہیں لاتے تھے جب تک ایک پر برسات نہ گزرجائے۔۔شاید اماں اباسوچتے ہوں گے کہ بارش کے بعد آنے والے آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، لیکن یقین کریں ہم نے کئی بار بازار میں بارشوں سے پہلے آم کو ٹھیلوں اور دکانوں میں پڑے دیکھا۔۔گرمیوں کی پہلی برسات کے بعد آموں کے ساتھ کالے جامن بھی کھائے جاتے تھے، آم کے مضراثرات سے بچنے کے لئے کچی لسی پی جاتی تھی۔۔کیوں کہ پھر یہ یقین رہتا تھا کہ اب ’’دانے‘‘ نہیں نکلیں گے۔۔ ہمارے زمانے میں برسات کے گانے بھی عجیب ہی میلوڈی رکھتے تھے۔۔جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو۔۔ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے۔۔اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔۔ اور آج کل کے گانے سنیں۔۔ برسات کے موسم میں ،تنہائی کے عالم میں ، میں گھر سے نکل آیا، بوتل بھی اٹھالایا۔۔جب ہم نے باباجی سے ’’بوتل‘‘ کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے۔۔بیٹاجی، یہاں گھر سے نکلتے وقت بوتل اس لئے لے کر نکلاگیا ہے کہ گھر میں چلنے والے جنریٹر کا فیول ختم ہوگیا ہے، پٹرول پمپ سے پٹرول بوتل کے بغیر ملنا نہیں۔۔ اور تمہیں تو پتہ ہے ، برسات میں بجلی ہوتی کہاں ہے؟؟ باباجی کا کہنا ہے۔۔ہمارے زمانے میں مرد، بچے اور بچیاں تو بارش کے مزے لینے میں مگن ہوجاتے اور عورتیں چولہوں کی طرف متوجہ ہوتیں۔ کہیںپکوڑے تلے جا رہے ہیں، سوجی کا حلوہ پک رہا ہے، پوریاں بن رہی ہیں، کڑکڑاتے تیل سے کچوریاں اتر رہی ہیں، نرم گندھے ہوئے میدے سے میٹھا مال پُڑا تیار ہو رہا ہے، میٹھی اور بیسنی روٹیاں بن رہی ہیں اور ہر گھر سے اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں۔ بچوں کو بازار دوڑایا جا رہا ہے کہ وہ جلدی سے جاکر گرما گرم جلیبیاں اور سموسے لے کر آئیں۔برسات کی ٹپ ٹپ کے ساتھ گرم گرم گلگلے اور مال پوڑے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ ۔ناصر کاظمی ،احمد فراز ،پرانے شعراء جیساکہ نظیر اکبر آبادی اور دیگر نے برسات پر بہت کچھ لکھا ہے۔نظیر اکبر آبادی نے تو بعض جگہ اس موسم کا مضحکہ بھی اڑایا ہے۔ہمارے ہاں جو موسم پسند کیا جاتا ہے مغرب والے اس سے نفرت کرتے ہیں اور ہمارے ہاں برسات ،بادل اور بارش کا سن کر حیران ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں کے لوگ سورج کی روشنی کو ترستے ہیں اس لیے اس موسم میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جب کہ ہمارے ہاں اس موسم میں رومانس کا احساس جاگتا ہے۔ہجرو فراق اور مسرت و شادمانی کے شعر کہے جاتے ہیں۔برسات کے ساتھ ہی جہاں عام آدمی برساتی یا چھتری خریدنے کی سوچتا ہے۔۔کسان بیج بونے کی، یا پھر برسات سے ہونے والے نقصان کی۔۔غریب اپنی جھونپڑی کے تنکے بچانے کی تو امیر اپنے محلوں کی کھڑکی میں بیٹھ کر رم جھم کا مزہ لینے کی۔۔عاشق و معشوق خواہشوں میں بھیگنے کی تو شرابی لڑکھڑانے کی، اور شاعر و ادیب افکارکے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی۔۔ لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ’’موسموں کا شہر‘‘ میں فرماتے ہیں۔۔کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیاحت پر اْکسانے میں آب و ہوا کا بڑا دخل ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہر گز نہ نکلتے۔ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے کچھ دن یہاں کی بہار جانفزا دیکھ کر کارپو ریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں ان کا تعلق اس مخلوق سے ہوتا ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مگر مچھ ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ۔۔ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ‘‘رش’’ لیتا ہے۔وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ‘‘روپیہ’’ کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔۔ دو پاگل چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی۔ایک پاگل کہنے لگا۔۔چل اٹھ یار،اندر چل ،آسمان میں سوراخ ہوگیا ہے۔۔ اتنے میں بجلی بھی کڑک دار انداز میں چمکی، دوسرا پاگل کہنے لگا۔۔اوئے سوجا، ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں۔۔برسات کی ایک خوبصورت صبح ہلکی ہلکی سی پھوار میں بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ساون جس سے پیاسی دھرتی جی اٹھتی ہے شجر ہرے بھرے ہو کر جھومنے لگتے ہیں ہر شے پر تازگی اور بہار چھا جاتی ہے کوئی سوچ سکتا ہے کہ تھوڑی سی لاپرواہی سے یہ رحمت بھرا موسم کس طرح زحمت بن سکتا ہے۔ موسم اپنے وقت پر جب سے دنیا بنی آتے جاتے رہتے ہیں دنیا کا توازن اللہ نے قائم کیا ہوا ہے برسات نہ ہو تو یہ دنیا تباہ ہو جائے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں ابر رحمت کی اشد ضرورت ہے انسانی غفلت اور بے احتیاطی نے اس رحمت کو زحمت میں بدل ڈالا ہے ضرورت ہے تو تھوڑی سی سمجھ بوجھ اور احتیاط کی۔