تحریر: رضاعلی عابدی۔۔
کون کہتا ہے کہ اردو کسی زبان کا نام ہے۔ دنیا میں ہزاروں زبانیں ہیں، اکثر کا نام سنتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس سرزمین یا کس خطے یا کون سے علاقے کی بولی ہے۔بعض زبانوں کے نام ملکوں اور صوبوں کے ناموں سے نتھی ہیں، کچھ بولیاں ایسی بھی ہیں جن کے نام کسی قومیت کے نام سے جُڑے ہوئے ہیں۔اب کوئی مجھے بتائے کہ لفظ اردو کان میں پڑتے ہی کس علاقے کا نام ذہن میں آتا ہے؟ انگریز جب ہندوستان میں قدم جمانے لگے تو ان کو بھی اسی بات نے پریشان کیا کہ یہاں کی ساری بولیوں کے نام ان کے علاقے کے نام سے وابستہ ہیں، انہوں نے سوچا کہ یہ کیسی بولی ہے جو پورے ہندوستان میں بولی یا سمجھی جاتی ہے اور اس کا کوئی نام نہیں۔
کسی نے ریختہ کہا ہوگا، کسی نے ریختی مگر بلا کے سمجھ دار نو واردوں نے زبان کا ایسا نام قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ کسی سرزمین کا نام جس کی شناخت نہ ہو۔ سمجھوتہ اس پر ہوا کہ یہ پورے ہندوستان کی زبان ہے، اسے ’ہندوستانی‘ کا نام دیا جائے۔ چنانچہ بہت عرصے تک ہماری زبان ’ہندوستانی‘ کہلائی۔اسی دوران گوروں کی قائم کی ہوئی چھاؤنیوں میں بھانت بھانت کے فوجی جمع تھے جو اپنی اپنی بولیاں بولتے ہوں گے، (چھاؤنی کو ’اردو‘ کہا جاتا تھا) اس طرح ایک نئی زبان کا ملغوبہ بننے لگا اور اس لب و لہجے کو لوگ ’اردو کی زبان‘ کہنے لگے۔
رفتہ رفتہ یہ زبان کا تکلف اٹھ گیا اور تنہا لفظ اردو ہی زبان کا نام ٹھہرا مگر وہ سوال اپنی جگہ بدستور موجود ہے کہ اس سے کسی خطے یا علاقے کا نام وابستہ کیوں نہیں۔میں اسے اس طرح سوچتا ہوں۔ اصل قصہ یوں ہے۔ اردو کسی زبان کا نام نہیں۔ اردو ایک تہذیب کا نام ہے۔ ایسی تہذیب جس میں بہت سے عوامل شامل ہوں۔تمدن، تمیز، قرینہ، رکھ رکھاؤ، سلیقہ، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، اوڑھنا پہننا، رشتے، مراسم، قربتیں، رفاقتیں، نزاکتیں، آرائشیں، آسائشیں اور سب سے بڑھ کر بولی ٹھولی، بات چیت، اظہار، لب و لہجہ اور گفتگو کے اطوار۔
تہذیب کے انہی دریچوں میں ایک در ہماری زبان کا بھی کھلا ہے جس کو ہم اردو کہنے لگے ہیں۔ یہ ساری بات یوں کہہ لیجیے کہ اردو ایک تہذیب کا نام ہے جس کا ایک عنصر ہماری زبان ہے۔اب جو شہر بہ شہر اردو کانفرنسیں ہو رہی ہیں، کہیں تہذیب کانفرنس بھی ہونا چاہئے، کوئی ایسا ٹھکانا، کوئی ایسا مظاہرہ ہو جہاں ہماری نئی نسل کو پوری طرح احساس ہو کہ ہم جن قدروں کے وارث ہیں ان کی عمارت کن بنیادوں پر کھڑی ہے۔ یہ میری گفتگو کا نقطۂ آغاز ہے۔ مجھے احساس ہے کہ بات دور تک جا سکتی ہے، ضرور جائے۔ اسی میں مکالمے کی جان ہوا کرتی ہے۔
کوئی دن جاتا ہے شہر کراچی میں آرٹس کونسل کے زیر اہتمام کوئی دوسری تیسری نہیں، بارہویں سالانہ اردو کانفرنس ہونے والی ہے۔ کیسی کیسی بہاریں دیکھی ہیں ہم نے اس کانفرنس کے طفیل۔کیسی صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں۔ پھر بھی یہ بات کسی اعجاز سے کم نہیں کہ اردو زبان و ادب کے نام پر یہ حیرت انگیز اجتماع سال کے سال سجایا جاتا ہے اور جو ہیں ان کی زیارت ہو جاتی ہے اور جو نہیں رہے ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ اس میں بھی وہی اردو تہذیب والی خوبی ہے کہ نثر اور نظم کے علاوہ موسیقی بھی ہوتی ہے اور رقص بھی، داستان گوئی بھی ہوتی ہے اور طنز و مزاح بھی۔
میڈیا بھی موضوع بحث بنتا ہے اور کتاب بھی۔ جو بات حوصلہ بڑھاتی ہے وہ یہ کے خلقت بڑی تعداد میں آتی ہے اور بارہا بڑی سنجیدہ اور گھمبیر گفتگو سنتی ہے۔ سننے والوں میں نو جوانوں کی تعداد کم نہیں ہوتی، یہ بات جی کو خوشی دیتی ہے۔ ایک اور خوبی اس تقریب کی یہ ہے کہ اس دوران کراچی آرٹس کونسل کی راہ داریوں میں احباب کی جو ملاقاتیں ہوتی ہیں وہ اس دور میں کسی نعمت سے کم نہیں۔
اب جبکہ فاصلے بڑھ گئے اور فرصتیں گھٹ گئی ہیں، انسانی رشتوں کو تازہ اور استوار کرنے کی یہ بڑی ہی گراں قدر راہ کھلی ہے۔ میں اس موقع پر ادارے کے اعلیٰ سرپرست محمد احمد شاہ کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا جن کو قدرت نے ایسی توانائی اور گرم جوشی عطا کی ہے کہ اتنی بڑی کانفرنس کرانے کے سارے ہی مرحلے طے کر لیتے ہیں اور ہم جو سال کے سال جاکر سارا احوال دیکھتے ہیں، خوب جانتے ہیں کہ احمد شاہ صاحب نے کس کمال سے ہر شے اپنی جگہ آراستہ کی ہے۔
اردو زبان کے بارے میں یہ کہتے ہوئے جی دکھتا ہے کہ اس پر افتاد پڑی ہے، وہ یہ کہ زبان اپنے ٹھکانے سے سرک گئی ہے۔ یہ جہاں جہاں اپنی جڑیں گاڑ کر کھڑی تھی ان زمینوں کو اسے خیر باد کہہ کر اپنی آب وتاب سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اب اس کی سرزمین مختلف اور اس کی آب و ہوا جدا ہے۔
اب اس پر مقامی اثرات پڑ رہے ہیں، اس کی شکل و شباہت بدل رہی ہے، اس کا حلیہ پہلے جیسا نہیں رہا، جو بزرگ بڑے جتن سے اس پودے کی آبیاری کیا کرتے تھے وہ کبھی کے سدھارے، جن جوانوں پر یہ ذمہ داری پڑی تھی کہ اس شمع کی لو اونچی رکھیں، ان کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی کا اسمارٹ فون روشن ہے۔ وقت بدل رہا ہے مگر اس میں حیرت کی بات نہیں۔ یہ کب نہیں بدلا، اس پر قدامت کا رنگ کب نہیں چڑھا۔کچھ حقیقتیں بڑی تلخ ہیں۔ کتاب ہمارے درمیان سے رخصت ہو رہی ہے، اخبار تھک کر چور ہوا جاتا ہے، ریڈیو پر کبھی کیسی بہار آئی تھی، وہ حوصلہ ہار رہا ہے۔ اب تک کچھ آس بندھی تھی ٹیلی وژن سے کہ ایک نئے بگولے نے سر اٹھایا ہے جسے سوشل میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔
یہ نئی نئی ایجادات زبان کے حق میں کیا اور کیسا کردار ادا کریں گی، آنے والا وقت ہی اس سوال کا جواب دے گا۔ ورنہ تو یوں ہے کہ اب شام کی خاموشی میں ایک شائستہ سی آواز کاہے کو گونجے گی کہ ’اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنیے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔