تحریر: خرم علی عمران۔۔
حکیم لقمان کو حکمت و دانائی کا ایک بڑا مظہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی نے حکیم لقمان سے پوچھا کہ آپ نے یہ حکمت و دانائی یہ عقل مندی کیسے اور کہاں سے حاصل کی؟ فرمایا، یہ میں نے بے وقوفوں سے تدریجا حاصل کی۔ پوچھنے والا بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا وہ کیسے؟ فرمایا کہ بیوقوفوں کو جو کچھ کہتے اور کرتے میں دیکھتا گیا وہ چھوڑتا گیا۔ کیا بات ہے صاحب! ویسے شنید ہے کہ وہم کا علاج آپ کے پاس بھی نہ تھا۔ وہم، گمان،بد گمانی، ذہنی پراگندگی یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے یہاں جہالت کی فراوانی کی وجہ سے تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں۔ اور اس فراوانی سے سب سے زیادہ فیضیاب ہونے والا طبقہ ہے ہمارے عامل کامل بابا اور ہر قسم کی کاٹ کے ماہرین جعلی پیر سنت سادھو شعبدہ باز وغیرہ وغیرہ اور ان کا یہاں روز افزوں ترقی کرتا کاروبار اس بات کی دلیل ہے کہ ہم بسبب جہالت و غربت نہ صرف وہمی ہوگئے ہیں بلکہ اس سے ایک ہاتھ آگے بڑھ کر پراگندہ ذہنی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہمارے جعلی پروفیشل عاملوں نے اس رویّے کو بڑھاوا دینے میں مزید کردار ادا کیا ہے اور کیوں نہ کریں؟ ان کی روزی روٹی ہی اس سے وابستہ ہے۔ جتنے زیادہ سے زیادہ جاہل اور وہمی ہم سب ہوں گے، اتنا ہی ان باباؤں کا، ان عاملوں ان شعبدہ گروں کا کاروبار چمکے گا نا۔ایشیا میں پاکستان و ہندوستان دو ایسے بڑے ملک ہیں جہاں یہ بابا، سنت، سادھو، عامل اور شعبدہ گراپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات ان مہان بہروپیوں ان عاملوں کاملوں کے ہم سنتے اور پڑھتے اور سر دھنتے رہتے ہیں۔
ہم بھی بڑے عجیب سے ہی لوگ ہیں، ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں، کوئی شارٹ کٹ وظیفہ، کوئی بابا، کوئی عامل کامل، کوئی جادو چھو منتر کوئی پارس پتھر کوئی گیڈر سنگھی ایسا مل جائے کہ سارے معاملے آسان ہوجائیں، دشمن زیر ہوجائیں، محبوب قدموں میں آ جائے، مال و دولت گویا چھپڑ پھاڑ کربرسنے لگے اور بابا کی کرپا سے گویا بیڑہ ہی پار ہو جائے۔ اور اس شارٹ کٹ کے چکر میں کبھی کبھی ایسا لانگ کٹ لگتا ہے کہ اس چکر میں بچی کچی عزت سادات بھی گنوا بیٹھتے ہیں. اس ضمن میں علامہ اقبال کا ایک واقعہ پیش ہے جو غالباً اردو ڈائجسٹ میں نظر سے گزرا، ” حضرت علامہ اپنے ایک دوست کے پاس تشریف فرما تھے جوبڑے گدی نشین اور پیر تھے. ایک غریب مرید حاضر ہوا، پیر صاحب کی قدم بوسی کی اور درخواست کی کہ حضرت! دعا فرما دیں، بہت پریشان ہوں, سو روپے کا مقروض ہوں، قرضہ ادا ہوجائے. پیر صاحب نے سوجے ہوئے منہ سے سر ہلادیا. مرید ادب سے پیچھے ہٹا، پانچ روپے پیر صاحب کی نظر کرکے الٹے قدموں واپس جانے لگا. علامہ نے جو یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہے تھے دفعتاً اسے بلایا. وہ ادب سے ہاتھ جوڑ کر آگے آیا. علامہ نے پیر صاحب کی جانب مسکرا کر دیکھا اور اس مرید سے فرمایا. پہلے تم سو روپے کے مقروض تھے اب ایک سو پانچ کے ہوگئے ہو. مرید تو جانے کیا سمجھا؟ یا نہ سمجھا، ادب سے الٹے پیروں واپس چلا گیا، مگر پیر صاحب بڑے جزبز ہوئے اور فرمانے لگے علامہ! آپ میرے مریدوں کو خراب کر رہے ہیں۔
بقول فیض ساحب یہ صدیوں پرانے تاریک بہیمانہ طلسمات، یہ جادو، سحر منتر، جھاڑ پھونک، وظیفوں سے کام نکالنا، سب زمانوں سے ہو رہا ہے اور شاید قیامت تک ہوتا رہے گا، ہم تو چلیں تھرڈ ورلڈ کے غریب اور جاہل سے لوگ ہیں، مگر مغربی، مادہ پرست دنیا میں بھی، یہ کام خوب جاری و ساری ہے، بس ان کے عاملوں، باباؤں کا طریقۂ واردات ذرا مختلف ہے، مغربی دنیا کے لوگ جو بظاہر بڑے روشن خیال، توہمات سے دور نظر آتے ہیں، وہ بھی وچ کرافٹ، بلیک میجک، ووڈو وغیرہ کے بڑے قائل ہیں، وہاں کے جپسی لوگ ان کاموں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، وہاں ہارر اور تھرلر فلموں کی کامیابی کا تناسب دیگر موضوعات کی فلموں سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں بھی جپسی، وچ ڈاکٹر ، جادوگر مستقبل بین اور اسی نوعیت کے دیگرماورائی کردار ملتے ہیں۔
تو جناب، قرار یہ پایا کہ جب تک دنیا میں بیوقوف زندہ ہیں عقلمند کبھی بھوکے نہیں مر سکتے۔ یہ ہمارے عامل کامل، یہ جوگی سادھو، میرے ناقص خیال میں شدید قسم کے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور انہیں خود لمبے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ہم جیسے وہمی انہیں نجات دہندہ سمجھنے کے وہم کا شکار ہوکر اللہ تعالی پر اپنا یقین اور اپنا مال حتی کہ بعض مرتبہ اپنی عزت بھی گنوا دیتے اور کھو بیٹھتے ہیں۔ یاد رہے میری مراد جعلی عاملوں، بہروپیوں، باباؤں اور دین ،مذہب اور دھرم کی آڑ میں مال پانی بنانے والوں سے ہے، وگرنہ اصل اہل اللہ جن کی سب سے بڑی پہچان اتباع سنت ہوتی ہے، وہ تو خلق خدا کے لیے اللہ کی رحمت کا مظہر اور دکھی انسانوں کے فی سبیل اللہ دکھ بانٹنے کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ کتابوں میں لکھا ہے اور علماء سے سنا ہے کہ اہل اللہ کی سب سے بری پہچان اتباعِ سنت ہے اور چاہے کوئی پانی پر چل رہا ہو یا ہوا میں اڑ رہا ہو لیکن اگر وہ اتباع سنت سے دور ہے تو وہ ولی نہیں شیطان ہے۔ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں ایک شخص قیام کی نیت سے حاضر ہوا اور کچھ عرصے بعد واپس جانے لگا۔ حضرت کو معلوم ہوا تو اسے بلایا اور فرمایا کہ بھئی آپ اتنے عرصے یہاں رہے لیکن کو حاجت پیش نہیں کی کوئی استفادہ نہیں کیا؟ وہ صاحب کہنے لگے کہ میں تو یہ سن کر آیا تاھ کہ آپ اللہ کے ولی ہیں تو کرامتیں دیکھنے کو ملیں گی لیکن میں نے تو اتنے عرصے میں میں نے کوئی کرامت دیکھی ہی نہیں،چنانچہ واپس جا رہا ہوں۔حضرت نے فرمایا کہ یہ بتاؤ اس تمام عرصے میں تم نے میرا کوئی بھی عمل سنت کے خلاف دیکھا؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی کیا کرامت دیکھنا چاہتے ہو۔ تو اہل اللہ اور اولیائے کرام کی سب سے بڑی پہچان اتباع سنت ہے اور جعلی عاملوں اور شعبدہ بازوں کی سب سے بڑی پہچان اتباع نفس و مال ہے۔(خرم علی عمران )۔۔۔