تحریر: ناصر جمال
کسی نے کہا تھا کہ ”زندگی ایک ”کٹا“ ہے۔ ایک باندھو، دوسرا کُھل جاتا ہے۔“ پاکستان وہ واحد ملک ہے۔ جہاں جس کا دل چاہتا ہے۔ جب چاہتا ہے۔ جو چاہتا ہے۔ وہ اپنا کٹا کھول دیتا ہے۔ پھر اس پر تحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے ہیں۔ سطحی گفتگو ہو رہی ہے۔ تہذیب اور اخلاقیات سے عاری عامیانہ بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر کیوں کہ کوئی قدغن نہیں ہے۔ بازاری لوگ اسے بدتہذیبی اور بدتمیزی کا اڈا بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔
سلجوقوں، مملکوں، ایوبیوں، عثمانیوں اور مغلوں، سب کو زوال آگیا۔ وجہ ریاست کا کمزور ہونا تھا۔ آج امریکہ سپر پاور ہے تو، اس میں کئی عوامل ہیں۔ سب سے بڑا سبب، اس کی بے انتہا عسکری طاقت ہے۔ جس کے بل بوتے پر اس نے معیشت کا ٹائی ٹائینک سنبھالا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے وسائل لوٹتا ہے۔ حتیٰ کہ ”دماغ“ بھی۔ دنیا کی اکثریتی اقوام کو آپس میں لڑایا ہوا ہے۔ اقتدار دیتا ہے۔ واپس لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے مُنہ مانگے دام وصول کرتا ہے۔ اپنے ایجنٹوں کے کھونٹے، سیاستدانوں سے لیکر بابوؤں، عسکریوں سے لیکر سیٹھوں، صحافیوں سے لیکر مولویوں تک میں ٹھونکے نہیں،بلکہ گاڑے ہوئے ہیں۔ اس کی سپر پاور کا تنبو، دہشت، خوف، دھونس، دھاندلی، لالچ اور غداری کے بھمبوؤں پر کھڑا ہے۔ وہ تقسیم کرتا ہے۔ وہ ملکوں اور ریاستوں کی اکثریت میں بے چینی رکھتا ہے۔ انھیں غیر محسوسانہ طورپر اپنا اسیر کرتا ہے۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جہاں وہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو تباہ کردیتا ہے یا اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔ وہاں وہ مرضی نہیں، من مانی کرتا ہے۔ سعودی عرب اور عراق کو خالی کردیتا ہے۔افغانستان سے کم از کم ایک کھرب ڈالر کی ہیروئن لے جاتا ہے۔ پورے خطے کو سیٹلائٹ اور زمینی ٹیکنالوجی سے کھنگال لیتا ہے۔ امریکی نظام پر یہودی آکاس بیل کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ اب تو جڑوں تک سرائیت کرگئے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ کو بھی ایک خاص حد تک آزادی ہے۔ پھر ان کی گردن کے گرد بھی شکنجے ہیں۔ جنہیں کسنے میں دیر نہیں کرتا۔
اسلامی دنیا میں اس کے دو ہی ٹارگٹ ہیں۔ پاکستان اور تُرکی۔ پاکستان سب سے ضروری ٹارگٹ ہے۔ افریقی ملک کی محفل میں اسرائیلی سفیر نے، محض چند ماہ پہلے سعودی اور ایرانی سفیر کو کہا کہ تم دونوں ہمارے بچے ہو۔ ہمیں مسئلہ پاکستان، اور افواج پاکستان اور عوام سے ہے۔ ابھی تک ہم اپنا ٹارگٹ حاصل نہیں کرسکے۔ عجیب لوگ ہیں۔ اختلافات بُھلا کر راتوں، رات یکجا، ایک زبان اور ایک بیان پر آجاتے ہیں۔ سعودی سفیر نے پاکستانی سفیر کو بلا کر تمام روداد سُنائی۔
جنرل فیض حمید سے ضرور کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے جو کہ ریاست پاکستان کی مضبوطی کا سبب بنا ہے۔ تب ہی تو آقاؤں کے ایجنٹ، ایک کچی پکی اسٹوری نہیں اسکرپٹ پرعُجلت میں عمل پیرا ہوگئے۔ مطیع اللہ جان سے لیکر ابصار عالم اور اسد طور کی کہانی میں کتنا فاصلہ ہے۔ حتمی بم شیل، حامد میر کی تقریر ٹھہری۔ پھر کیا تھا، عاصمہ شیرازی سے لیکر منزے جہانگیر، افضل بٹ سے لیکر بلال ڈار، مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم سے لیکر”انکل سام“ کے کرائے کے ٹٹو، ٹڈی دِل کی طرح جنرل فیض حمید، افواج پاکستان اور آئی۔ ایس۔ آئی پر چڑھ دوڑے۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ اسد طور کی نہیں، کسی نے جوبائیڈن کی پٹائی کردی ہے۔ آئی۔ ایس۔ آئی سے لوگوں کو ایسے نفرت دلا رہے تھے۔ جیسے یہ ہندوستان، اسرائیل یا امریکہ کی ایجنسی ہے۔
ایک زمانہ تھا۔ سندھ میں ایک مخصوص طبقہ ”پاکستان“ کو گالی دینا گفتگو کا لازمی حصہ اور فخر سمجھتا تھا۔۔۔ ایسے ہی کسی جعلی کامریڈ نے جام صادق کے سامنے پاکستان کو گالی دی۔ جام صادق جلال میں آگئے۔ حکم دیا، اس کے ہاتھ پاؤں، تُڑوا کر فُٹ پاتھ پر پھینک دو۔ جعلی کامریڈ پاؤں میں پڑگیا۔ معافی، معافی، سائیں، سائیں، رحم، رحم کی تسبیح کرنے لگا۔ وہ جانتا تھا مشتعل جام صادق سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ جام صادق نے کہا کہ تم میرے پاکستان کو گالی دیتے ہو۔ جس کا جھنڈا دیکھنے میں اکثر ہیتھرو ایئر پورٹ جایا کرتا تھا۔ جی ہاں! پی۔ آئی۔ اے کے جہازوں کی دُم پر بنا جھنڈا دیکھنے۔ پی۔ آئی۔ اے ایئر لائن نہیں جذبات ہے۔ مگر یہاں اس کو کون سمجھے۔ ایک مخصوص گروہ پی۔ آئی۔ اے کی طرح اس پاکستان کو بھی کھا جانا چاہتا ہے۔ کیوں اس کا دین، ایمان، وطن پیسہ ہے۔ انہی لوگوں کیلئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ ویں، ننگ ملت، ننگِ وطن
کتنی عجیب بات ہے۔ یہ بھی ”میر“ تھے۔ اپنے محب الوطن، سچے مسلمان”میر“ دوستوں سے دست بدست معذرت کے ساتھ۔۔۔۔
ابھی چند روز پہلے ہی کی تو بات ہے۔ میری سابقہ باس کہنے لگیں۔ انڈیا سے مسلمان جان کے خوف سے بھاگ کر پاکستان آئے تھے۔ میں نے اس پر سخت ردعمل دیا۔ کہا کہ ہمارے بزرگوں کا وہاں رہ جانا کوئی مشکل نہ تھا۔ کتنے ہی رشتہ دار، وہیں رہ گئے۔ کہنے لگیں، تم تو اس وقت، تھے بھی نہیں۔ میں نے طنزاً پیغام بھجوایا کہ ”آپ کو نسا اس وقت، ”ایلزبتھ ٹیلر“ لگی ہوئیں تھیں۔ ہجرت کی کہانیاں تو ہمارے اجداد نے ہمارے لہو میں ”وائٹ سیلز“ کی طرح اتاریں تھیں۔ وہ ہماری روح اور خون کا آج تک حصہ ہیں۔
قابل احترام، محمود شام صاحب کا فون پر پیغام چمکا۔ ”کالمز“ پر تبصرہ تھا۔ انتہائی جرأتمندانہ، میں نے فون کیا۔ کہا کہ آپ کے الفاظ میرے لئے، باعث فخر ہیں۔ کہنے لگے۔ حامد میر نے بہت زیادتی کی ہے۔ اس کی سطحی گفتگو نے مایوس کیا ہے۔ پاکستان سے اپنی محبت، عقیدت اور عشق کا اظہار کیا۔ کہنے لگے۔ میرے دادا کا کانگرس سے بڑا تعلق تھا۔ اپنا ”سیاسی گروپ“ تھا۔ پھر وقت کے ساتھ تبدیلی آئی۔ کانگریسی ساتھیوں نے بہت رُوکا، نہیں رُکے۔ کہنے لگے۔ پاکستان بائی چوائس تھا۔ وہاں رہ جانا تو بہت آسان کام تھا۔ مشکل تو فیصلہ لینا تھا۔ یہی کچھ برادرم راؤ ضمیر خان اور دوسرے دوستوں نے بھی کہا۔ شام جی کہنے لگے۔ اگست میں 75سالہ یوم آزادی پر ”ماہانہ اطراف“ کا خصوصی شمارہ نکال رہا ہوں۔ دوسری نسل کا،تیسری اور چوتھی نسل کو پاکستان کی تخلیق کی مشکلات سے آگاہی دینا ضروری سمجھتی ہے۔ ہمیں بطور قوم اور ریاست اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ تو ماضی اور زیست سے سیکھتے ہوئے، ٹارگٹ رکھیں۔
شام جی نے کہا کہ صحافت کے گذشتہ ساٹھ سالوں کاایک اجمالی جائزہ ہی لکھ دو۔ مجھے ایک بات تو بتاؤ۔ ہماری صحافتی تنظیمیں پھر سے روایتی کردار پر چلی گئی ہیں۔ طاقتور اینکروں کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔ جو ہزاروں عام صحافی اور ورکر فارغ ہوئے۔ اُن کیلئے کیا، کیا ہے۔ یہ لوگ اچھے اداروں سے فارغ کئے گئے۔ اگر اینکرز کو صحافیوں کا درد ہوتا تو، وہ اپنی تنخواہیں کچھ عرصہ کیلئے آدھی کرلیتے۔ اکثریتی لوگوں کا روزگار بچ جاتا۔ مگر کتنوں نے احساس کیا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ شام جی…… سیٹھوں کو خسارہ نہیں ہورہا۔ ان کا منافع کم ہوگیا۔ تو انھوں نے منافع کو اُسی سطح پر رکھنے کیلئے صحافیوں اور ورکروں کی قربانی دے دی۔ یہیں پر ختم نہیں کیا۔ کئی، کئی ماہ کی تنخواہیں نیچے لگا لیں۔ ادارے بیگار کیمپ بنا دیئے۔ حکومت سے اپنی تمام سابقہ وصولیاں کرلیں۔ نئے بلز فوری ملتے ہیں۔ پھر بھی تنخواہیں نہیں ہیں۔ ایک بڑے گروپ کے کرتا دھرتاؤں نے کہا کہ سرکاری اشتہارات ان کا حق ہیں۔ اگر آپ کو تنخواہیں چاہئیں تو پرائیویٹ بزنس لیکر آئیں۔جبکہ امتنان شاہد نے کہا کوئی بھی اخبار کا مالک تنخواہ نہیں دیتا۔ میں کیوں دوں۔قلم کار کے احتجاج پر وہ بھری میٹنگ سے اُٹھ گئے۔اور کہا آپ مجھ سے بدتمیزی کررہے ہیں۔ میں نے کہا مزدوری مانگنا کب سے بدتمیزی ہوگیا ہے۔
آج کل ہمارے سینئر صحافی حاجی نواز رضا، صحافیوں کے حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ جس صحافی کا تعزیتی ریفرنس کروایا۔ اسے بے چارے کو بعد از مرگ تنخواہیں ملی ہیں۔ جب کرسی پر تھے تو آواز اٹھائی اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کیا۔جنگ میں صحافیوں کی شرمناک تنخواہیں ہیں۔ ایک فوٹو گرافر کو ریٹائرمنٹ پر دوبارہ رکھا گیا تو اس کی چالیس سال کے بعد تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کی۔ عزیزی عاطف شیرازی ایم۔فل کے بعد 35ہزار لیتا ہے۔ ایک اور فوٹو گرافر کی تنخواہ چند ماہ پہلے تیرہ ہزار تھی۔ شام جی، کہہ رہے تھے۔ میڈیا سیٹھوں نے اربوں، کھربوں کی جائیدادیں بنائی ہیں۔ وہاں سے اپنے ملازمین پر پیسے خرچ کیوں نہیں کرتے۔ میں ہنس پڑا۔میں سوچتا رہا کہ حالات اتنے خراب ہیں تو سیٹھ باقی لوگوں کو فارغ کیوں نہیں کرتے، کیوں خسارے میں ادارے چلا رہے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ انھیں اپنے کاروباری اور دیگر مفادات کے تحفظ کیلئے،صحافت کے بیوقوف صحافی ہر صورت چاہئیں۔ وگرنہ تو ان پر مافیاز حملہ آور ہوجائیں گے۔ اس پر صحافی خود سوچیں۔
سابق کرکٹر راشد لطیف کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ انھوں نے صحافیوں کو ”کتوں“ سے تشبیح دی ہے۔ کہتے ہیں۔ کتوں کی طرح انھیں لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔آخر اس کے ذمہ دار بھی تو ہم صحافی خودہی ہیں۔ آج جب ہمارے لیڈر، افضل بٹ، پرویز شوکت اور انور رضا ہونگے تو یہی کچھ ہوگا۔ یہ اینکروں کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ دو نہیں دو سو نمبر لوگوں کو صحافی بنا کر بیک ڈور سے اندر لے آئے ہیں۔ انور رضا کبھی ورکر ہوا کرتا تھا۔ اب وہ مشتاق منہاس کی طرح ٹائیکون ہے۔ ترقی کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ آج انور رضا، حامد میر کو پروگرام سے ہٹانے پر جیو ٹی۔ وی کا مائیک خود ہٹاتا ہے۔حضور صرف اسلام آباد سے مجھ سمیت سینکڑوں غریب صحافی اور ورکر بے روزگار ہوئے۔ آپ نے کتنوں کیلئے مائیک اٹھائے۔ آپ بھی، ”وی۔ آئی۔ پی صحافیوں“ کے خدمت گار نکلے۔ انور رضا کو ایلیٹ کلب کی رکنیت مبارک ہو۔ شاید ہمارا دوست اب غربت کے ایام اور دوستوں کو یادہی نہیں رکھنا چاہتا۔اُس نے غربت اور غریب دوستوں، دونوں سے جان چھڑوا لی ہے۔
پرویز شوکت اپنے پراپرٹی سپانسر کی لڑائی، ڈی چوک پر لے گیا۔ ایجنڈا ذاتی تھا۔ مطیع اللہ جان نے اُسے بھی آئی۔ ایس۔ آئی سپانسرڈ بنا دیا۔ لڑائی سی۔ ڈی۔ اے کے اندر بیٹھے صحافتی اور افسران کے مشترکہ مافیا کی ہے۔ اللہ اسی صحافتی قیادت اور صحافت پر رحم کرے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ حامد میر کے صحافت اور اداروں پر خود کش حملے کے بعد کی، صورتحال پر سنجیدہ گفتگو حالات کی متقاضی ہے۔ میں کسی ابصار عالم، عمر چیمے، مطیع اللہ جان، اسد طور سے گفتگو کی بات نہیں کررہا۔میں تو فاروق فیصل خان، ضیاء الدین صاحب، نادر شاہ عادل، صفدر بھائی،جاوید چوہدری(کراچی) ستار چوہدری(اسلام آباد) خالد چوہدری، شفیق اعوان (لاہور)، رؤف کلاسرا، خضر کلاسرا، فرخ بھٹی، راؤ فرقان، جی۔ایم جمالی، اور ایسے ہی بے شمار دردِ دل رکھنے والے پروفیشنل صحافیوں کی بات کررہا ہوں۔ کوئی فاروقی شہزاد ہو۔ کہیں آصف عفان کی آواز سنائی دے۔ کہیں طالب آفریدی کی دہائی ہو۔ کہیں عزیزی عاطف شیرازی کی دانش ہو۔ کہیں علیم ملک، طاہر شیرانی جیسے نوجوانوں کی رائے ہو تو، کہیں راجہ اعجاز، نوشین نقوی، امتیاز فاران، طاہر حسن کا دلیل کے ساتھ اختلاف اور دانش ابھر کر آئے۔ کہیں سے تو کوئی صدا آئے۔
کوئی تو ڈائیلاگ اوپن کرے۔جو بچ گئے ہیں۔ ان کا مقدمہ لڑا جائے۔ریاست، عام آدمی، اور اداروں کے درمیان کوئی تو پُل ہو۔ کوئی تو بات شروع کرے۔ بات بنائے۔ کوئی تو بیرونی آقاؤں کے ایجنٹوں کے ایجنڈے کی بھینٹ چڑھنے سے، اس ریاست اور صحافت کو بچائے۔ہے کوئی جو بات شروع کرے۔ جو صحافیوں کی گردن میں پڑے ہوئے، بے روزگاری، نان پروفیشنل ازم، خوف اور گرتے معیار کے رسے کو کاٹے۔ تاکہ ریاست اور صحافیوں کو سانس آئے۔ صحافی، ریاست کے دشمن نہیں ہیں۔ صحافیوں کی دو تہائی نہیں غالب ترین اکثریت 99.99فیصد لوگ، نظریاتی سرحدوں پر بغیر تنخواہ کے سپاہی ہیں۔ہمارے سروں پر زبردستی دولہ شاہ کے چوہوں والے خُول چڑھا کر اب کسنے کی تیاری ہورہی ہیں۔ اس کام کو جلد از جلد سرانجام دینے کیلئے، نام نہاد لبرلز تیل چھڑک رہے ہیں۔میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم نام نہاد لبرلز کی طرح کسی کے بھی دولہا شاہی چوہے نہیں بنے گے۔ ریاست، سوچے، ادارے سوچیں، عوام سوچیں اور ہمارے پروفیشنل صحافی سوچیں۔۔ (ناصر جمال)۔۔