تحریر: خورشید ندیم۔۔
رئوف طاہر بھی چلے گئے۔لاہورمزیدویران ہوگیا۔ وہ چپکے سے بزمِ حیات سے اٹھ گئے مگر اداسی ہے کہ خاموش رہنے پر آمادہ نہیں۔ درد کی ایک لہر نہیں معلوم کب تک اس تنِ سوختہ میں تیرتی رہے گا۔
شہرسنگ وخشت سے نہیں،مکینوں سے آبادہوتے ہیں۔ دروازے اور دریچے نہیں، یہ اُن سے جھانکنے والے پری رخ ہیں جن کی ایک جھلک دل میں شہر بسادیتی ہے۔ جب تک شمعِ حیات جھلملاتی رہتی ہے، اس شہرکے درو بام روشن رہتے ہیں۔ اس کا تعلق افتادِ طبع سے بھی ہے کہ آپ شہروں کو کیسے یاد رکھتے ہیں۔ کچھ فصیلوں تک محدودرہتے ہیں اور کچھ ان کے اندر جھانکتے اور پسِ دیوار مکینوں کو دیکھناچاہتے ہیں۔
لاہورایک طلسم شش جہات ہے۔ اس کے در ودیوار اور عمارتیں بھی کم اہم نہیں۔ یہ سید علی ہجویری کی آخری آرام گاہ ہے،جو مرجع خلائق ہے۔ اہلِ تصوف کا مرکزِعقیدت۔ یہ قلعہ لاہورہے، برصغیر کے مسلم دورِ اقتدار کا محافظ۔ یہ بادشاہی مسجد ہے،مسلم شکوہ کی مظہراوراسلامی تہذیب کی امانت دار۔ یہ یادگارِ پاکستان ہے،جہاں اس خطے کی جدید تاریخ کا پہلا ورق رقم ہوا۔ یہ…خیر چھوڑیے،یہ داستان ایک کالم میں ختم ہو نے والی نہیں۔بتانا یہ ہے کہ لاہور کی عمارتیں بھی کم اہم نہیں‘ لیکن پھر وہی افتادِ طبع! لاہور میرے لیے ہمیشہ افرادکا شہر رہا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ میرے فکری سفر کاہرپڑاؤ لاہور ہے اور منزل بھی لاہور۔علامہ اقبال لاہور کے مکیں تھے۔ سید ابوالا علیٰ مودوی کا بسیرا یہیں رہا اور آخری ٹھکانہ بھی لاہور بنا۔ امام امین احسن اصلاحی کوبھی لاہور میں دیکھا۔ اس بیقراری کواگر قرار ملا تو لاہور میں، جب قدرت نے جاوید احمد غامدی صاحب کے در وازے پر لا کھڑا کیا۔ تینتیس سال سے یہیں پڑے ہیں اور کہیں اور جانے کا ارادہ بھی نہیں۔
صحافت سے پہلا تعارف بھی لاہور میں ہوا۔”اشراق‘‘ میں لکھنا شروع کیا تومحترم مصطفیٰ صادق مرحوم نے ‘وفاق‘ کے لیے لکھنے کو کہا۔ وہ ”اشراق‘‘ کے مستقل قاری تھے۔مکرمی مجیب الرحمن شامی کوبھی پہلی بارجاوید صاحب ہی کے ہاں دیکھا۔ الطاف حسن قریشی اورشامی صاحب کا ہفت روزہ ”زندگی‘‘ میرے بچپن کے رومان کاحصہ تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ”زندگی‘‘ میں کالم لکھنے لگا۔ یہ 1990 ء کی دہائی کا قصہ ہے۔ یہیں پہلی باررؤف طاہرکو دیکھا۔
دس بارہ برس پہلے اِس تعلق کااحیاہواجو آج تک قائم ہے۔ دل کا تعلق موت سے کہاں ٹوٹتا ہے؟ لاہور سے ایک بار پھر رشتہ استوارہوا تو ماضی کے تعلقات حوالہ بنے۔ کچھ کااحیا ہوا ا ور کچھ نئے تعلق وجود میں آئے۔”دنیا‘‘ کا ادارتی صفحہ ایک پلیٹ فارم بنا جہاں زندگی کی گاڑی آکے ٹھہر گئی۔کئی مسافر آئے اور چلے گئے۔میں اور رؤف طاہر بھی مسافر ہی ہیں لیکن افتادِ طبع ایک جیسی پائی ہے۔رشتہ پلیٹ فارم سے بن جائے تو اسے منزل بنالیتے ہیں،الا یہ کہ خود منزل ہی گریزاں ہو۔ میں جب بھی لاہور گیا،کم ہی ایسا ہوا کہ رؤف طاہر سے نہ ملا ہوں۔میں فون پہ اپنے پہنچنے کی اطلاع دیتا توپہلی فرصت میں پہنچ جاتے۔ انکی خواہش ہوتی کہ اجتماعی ملاقات کی کوئی صورت نکل آئے۔اکثر یہ تمنا بر آتی۔ میں دل ہی دل میں ان کا شکریہ ادا کرتا کہ ان کے توسط سے بہت سے لوگوں سے ملاقات کی آرزو پوری ہوجاتی۔ محترم شامی صاحب کو ہمیشہ ایک مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ لاہور کی صحافت میرے لیے توشامی صاحب ہی کے مدار میں گھومتی ہے۔
رؤف طاہر عمر میں مجھ سے کہیں بڑے تھے۔عمر ہی میں نہیں، اخلاق میں بھی بڑے تھے کہ مجھے بڑوں جیسااحترام دیتے۔ میں جانتا تھا کہ یہ معاملہ استحقاق کانہیں،ان کی محبت کا ہے۔ ان کی خاکساری حالی کی طرح تھی۔ ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیتے۔میں شرمندہ ہوتا اور ان کی اخلاقی برتری کامعترف بھی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اخلاق ہیں جو کسی کو بڑا بناتے ہیں۔افسوس کہ ہم کم ہی اس کاادارک کرسکے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کوایسے جانتے تھے جیسے ماں اپنے بیٹے کو جانتی ہے۔ صحافت کے ساتھ عملی وابستگی نے انہیں اس تاریخ کے کئی واقعات کا عینی شاہدبنادیاتھا۔چند روز پہلے 1977ء کی تحریکِ نظام ِمصطفیٰ کے بعض گمشدہ گوشوں کو سمجھنے کی ضرورت پیش آئی تو انہیں فون کیا۔دیر تک ایسے واقعات بیان کرتے رہے جو ان کے آنکھوں دیکھے اور میری نظروں سے اوجھل تھے۔محترم عرفان صدیقی نے صحیح لکھا کہ کاش وہ اپنی یادداشتیں مرتب کر جاتے‘ہم جیسے طالب علموں کا بھلا ہو جاتا۔
رؤف طاہر نے مولانامودودی کی فکری آغوش میں شعور کی آنکھ کھولی۔ وہ تادمِ آخر اس فکری تعلق پہ مطمئن رہے، اگرچہ جماعت اسلامی سے دور جاچکے تھے۔یہ دوری جماعت کے سیاسی موقف اور طرزِ عمل سے تھی، اس کے فکر سے نہیں۔ ملاقات ہوتی تو فکری مباحث بھی موضوع بنتے لیکن وہ ان میں زیادہ حصہ نہ لیتے۔ ان کی دلچسپی کا اصل میدان سیاست تھی۔ اسلام، پاکستان اور جمہوریت۔یہی تین الفاظ ان کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں۔ آخری دور میں نواز شریف صاحب کا بیانیہ ان کی نظر میں جمہوریت کی واحد تعبیر بن گیاتھا۔صدقِ دل کے ساتھ اس کے وکیل بن گئے۔
آخری رمضان کا ایک حصہ انہوں نے ہمارے ساتھ گزارا۔برادرِ عزیز یاسر پیرزادہ کی گرمجوش مساعی اور شامی صاحب کی سرپرستی میں قرآن مجید کے اجتماعی مطالعے کا ایک پروگرام ترتیب پایا۔ کورونا نے سماجی رابطے کا جو متبادل دیا،اس کو بروئے کارلاتے ہوئے، دس بارہ احباب رات کو،’زوم‘ کی معرفت مل بیٹھتے۔میں اور رؤف طاہر بھی اس سے استفادہ کرنے والوں میں شامل تھے۔انہماک سے شریک ہوتے اور سوال بھی اٹھاتے۔ ان کی موجودگی اس مجلس کو زیادہ بامعنی بنادیتی۔ اللہ کا شکر کہ یہ سلسلہ رمضان کے بعد بھی جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم الحمد سے والناس تک،قرآن مجید کے ترجمے سے گزر گئے۔ اس مجلس کی کچھ نشستوں کو عصری مسائل کے لیے مختص کیا گیا۔ان مجالس میں ان کی جولانیٔ طبع اپنے جوبن پر ہوتی۔فقرہ بازی کا ہدف بنتے بھی، بناتے بھی۔
رؤف طاہر صحافت کے ان باقیات الصالحات میں تھے جن کیلئے صحافت روزگار کم اورمشن زیادہ ہے۔ یہ جنس دن بدن نایاب ہورہی ہے۔وہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کی روایت کے امانتداروں میں سے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ظفر علی خان ٹرسٹ سے آخری سانس تک وابستہ رہے۔ میرا احساس ہے کہ اس روایت سے رسمی تعلق بھی ہو تو قلم فروشی کا امکان کم وبیش ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی اس کوبات کوپرکھنا چاہے تو رؤف طاہر کی زندگی پر ایک نظر ڈال لے۔جس فکر کو روزِ اوّ ل اپنایا ،اسی کے زیرِ سایہ زندگی بِتا دی۔جب صحافت اسبابِ حیات سمیٹنے کاہنر بنا،اور اکثر نے حسبِ توفیق فیض سمیٹا،وہ ہنر مند ہوتے ہوئے بھی،بے فیض رہے۔
رؤف طاہر کے انتقال کی خبرسنی توساراوجود بے حس ہوگیا۔صرف آنکھوں میں زندگی کے آثار تھے۔وہ اِس مشکل وقت میں بھی اپنا فریضہ ادا کرنا نہیں بھولیں،یہ الگ بات کہ سارامنظر دھندلا گیا۔سارالاہورشہر دھندکی لپٹ میں آ گیاتھا۔شہر کے در ودیوار ہی نہیں،چہروں کے خدو خال بھی مٹنے لگے تھے۔معلوم ہوا کہ یہ حادثہ پہلی بار نہیں ہورہا۔کچھ چہرے جلاوطن ہو چکے اورکچھ عدم کے مسافرہوگئے۔ لاہور،مجھے لگا جیسے زندگی کو تیزی کے ساتھ تاریخ میں بدل رہا ہے۔یہ عمل توہر بستی اور ہر شہر میں جاری ہے مگرلاہور لگتاہے،بہت عجلت میں ہے۔ میں تو لاہور جانے کا جواز کھوتا جا رہا ہوں۔ لوگ رخصت اوردروازے بند ہو رہے ہیں۔شہرتو سنگ و خشت سے نہیں،مکینوں سے آبادہوتے ہیں۔کیا آنے والے دنوں میں سارا لاہور تاریخ بن جائے گا؟(بشکریہ دنیا)۔۔