تحریر: عرفان صدیقی۔۔
لاہور سے ایک دوست کا فون آیا۔ اس کی آواز میں ارتعاش تھا۔
رئوف طاہر کا انتقال ہو گیا۔‘‘ اندر ایک دیوار سی گری۔ دل ملبے تلے دبتا ہوا محسوس ہوا۔ یقین نہ آیا تو ڈرتے ڈرتے شامی صاحب کو فون کیا۔ غم سے بوجھل آواز نے سب کچھ کہہ دیا۔ ہمدمِ دیرینہ کی اچانک موت کا صدمہ ایسا تھا کہ اُن سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ لرزتی انگلیوں سے میں نے سیل فون پر رئوف طاہر کا نمبر ملایا۔ آج اس کی گونج دار آواز کے بجائے، اس کے بیٹے آصف کی سسکیاں سنائی دیں۔ میں کیا پوچھتا اور وہ کیا بتاتا؟
جانے رئوف طاہر کو ایسی کیا جلدی تھی؟ مانا اُسے اپنی رفیقہ حیات کے بچھڑ جانے کا بہت غم تھا لیکن اس کا گھر کوئی ایسا سُونا بھی نہ تھا۔ ابھی تو معرکہ گرم تھا اور اس جیسے جانبازوں کی بڑی ضرورت تھی۔ جذباتی ہیجان کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو ایک ریاضت کیش صحافی کی قدرتِ زبان و قلم اس وقت جوبن پر آتی ہے جب وہ خود بڑھاپے کے منطقے میں داخل ہو رہا ہوتا ہے۔ رئوف طاہر کی موت ایک ایسی ”صحافت‘‘ کی موت بھی ہے جو پختہ کاری کے سارے مراحل طے کر کے بلوغت پا چکی تھی۔ یہ جنس بڑی تیزی سے نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ تیز پا برقی صحافت کی چکا چوند نے نو آموزوں کی توند تو بھر دی ہے لیکن وہ جوہر نہ دے پائی جس سے رئوف طاہر بنتے ہیں۔
رئوف طاہر دھڑے اور دھڑلّے کا آدمی تھا۔ عصبیت کی ننگی تلوار سے لیس، اپنے قبیلے کا جری سپاہی۔ اس کی صحافت ایک تکون سے ترتیب پائی تھی۔ دل، دماغ اور قلم، مثلث کے تینوں کونے سختی کے ساتھ آپس میں جڑے تھے۔ جو جذبہ اس کے دل میں کسک پیدا کرتا، وہی اس کی شاخِ فکر پر غنچہ بن کر پھوٹتا اور وہی اس کے الفاظ کو مہکار اور للکار دیتا۔ اس تکون کو اسلام، پاکستان اور جمہوریت بھی کہا جا سکتا ہے۔ رئوف طاہر منافقت اور دوغلے پن سے پاک تھا۔ بڑے بڑے نامور صحافی اور دانش ور لکھتے اور بولتے وقت، موسمی مصلحت کے تحت کبھی سفید اور کبھی سیاہ کی طرف لڑھکتے ہوئے بالعموم بیچ کی سُرمئی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔ رئوف اُن میں سے نہ تھا۔ اس کے ہاں بس دو ہی رنگ تھے۔ سفید یا سیاہ۔ وہ سیاہ و سفید کے ملغوبے کو منافقت خیال کرتا تھا۔ جسے حق سمجھا اس کے لیے سینہ سپر ہو گیا۔ جسے غلط جانا اسے نیزے کی اَنی پر رکھا۔ مشکلات اور ترغیبات سے بے نیاز ہو کر اپنی متعین راہ پر استقامت سے چلتے رہنا اسے کبھی کٹھن نہ لگا۔ اس معاملے میں وہ ہمیشہ اٹل اور بے لچک رہا۔ ایسے لوگ کھردرے پن کی حد تک کھرے ہوتے ہیں۔
رئوف طاہر بھی کھرا ہونے کے سبب کئی لوگوں کو کھر درا لگتا تھا۔ یہی اس کی پہچان تھی۔ عشروں پر محیط سفر کے دوران وہ نامور اخبارات و جرائد سے منسلک رہا۔ قومی تاریخ کے نشیب و فراز، سیاست کے پیچ و خم اور سیاستدانوں کی کرتب کاریوں کو وہ اپنے زرخیز حافظے میں اس طرح سموئے ہوئے تھا کہ اُسے ”سیاسی انسائیکلوپیڈیا‘‘ کہا جا سکتا تھا۔ اس کی یادداشت اس کا بہت بڑا ہتھیار تھی۔ عہد در عہد بکھری تاریخ اس نے پڑھی یا سنی نہیں تھی، ایک زیرک اور مشاق رپورٹر کے طور پر خود اس کا مشاہدہ کیا تھا۔ لکھتے یا بولتے وقت وہ صحافی سے کہیں زیادہ ایک وکیل بن جاتا۔ اچھا وکیل مقدمہ لڑتے ہوئے ماضی کے مقدموں اور عدالتی فیصلوں کے نظائر پیش کرتا ہے۔ رئوف طاہر بھی اپنے مؤقف کو اپنا مقدمہ بناتے ہوئے ماضی کی سیاسی تاریخ کے احوال و کوائف کے حوالوں کا انبار لگا دیتا۔ ہوش سنبھالتے ہی وہ جس نظریاتی کشتی پر سوار ہوا، آخری سانس تک اسے نہ چھوڑا۔ بپھرتے طوفانوں اور موجوں کے تلاطم میں بھی وہ جوانمردی سے چپُّو چلاتا رہا۔ پاس پڑوس کے ہموار پانیوں پر تیرتے بجروں کی طرف کبھی نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
رئوف طاہر بہت ہی متحرک شخص تھا۔ سہل انگاری اسے چھو کر نہ گئی تھی۔ صبح ایک تقریب میں، دوپہر کسی سیمینار میں، سہ پہر کسی مجلسِ احباب میں، رات کسی عشائیے میں۔ دوستوں کے لیے اس کے پاس وافر وقت تھا۔ محفلوں میں خاموش سامع بن کر بیٹھنا اس کی سرشت میں نہ تھا۔ تقریب کا مقرر نہ بھی ہوتا تو کوئی سوال داغ کر ہلچل سی مچا دیتا۔ اس کے حلق کی صوتی کلیں (Vocal cords) فطری طور پر بہت بلند آہنگ تھیں۔ سرگوشی بھی کرتا تو ہمسایوں کو خبر ہو جاتی۔ اپنے مؤقف کی صداقت پر پختہ یقین کے باعث وہ اس طرح اپنے حریف پر جھپٹتا کہ وسیع و عریض ہال گونج اٹھتا۔ دوستوں کی محفل میں بھی وہ جلسہ عام کے سے انداز میں بولتا۔ اس کے قہقہے بھی فلک شگاف ہوتے۔ وہ اکثر مجھے چلتا پھرتا لاہور لگتا۔ آج روایتی دائیں اور بائیں بازو کی تمیز مٹ چکی ہے۔ لیکن رئوف طاہر ڈنکے کی چوٹ دائیں بازو کا سرخیل رہا۔ اس نے اپنی فکری تکون کی چُولیں کبھی ڈھیلی نہ ہونے دیں۔
لگ بھگ دو دہائیوں سے رئوف طاہر میرے آس پاس رہا۔ مجھے ہمیشہ ‘عرفان بھائی ‘ کہہ کر بلاتا۔ اپنی خوشیوں میں شریک کرتا۔ اپنے احوال کی خبر دیتا۔ نظریے کے رشتے نے اسے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے بہت قریب کر دیا تھا۔ وہ جدہ سے لوٹا تو میری خواہش تھی کہ اس کے حصولِ رزق کا کچھ سامان ہو جائے۔ کچھ نہ کچھ ہوا بھی لیکن پنجاب میں اور پھر وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے باوجود اسے چھوٹے چھوٹے زخم لگتے رہے۔ اپنائیت کی حساسیت ان زخموں کا درد بہت بڑھا دیتی ہے۔ رئوف دل برداشتہ ہوتا رہا۔ کبھی کبھار رنجیدگی کا اظہار بھی کرتا رہا لیکن کیا طرح دار شخص تھا۔ نظریے اور مؤقف کی جنگ لڑتے ہوئے۔ وہ ان خرخشوں کو کبھی خاطر میں نہ لایا۔
رئوف طاہر کے ساتھ ہی ہماری سیاسی تاریخ کی لاتعداد داستانیں گہری قبر میں اتر گئیں۔ کاش وہ تھوڑا سا وقت اپنی یادداشتیں مرتب کرنے کے لیے نکال لیتا۔ میں سعود ساحر سے بھی یہی کہتا رہا۔ پتہ نہیں اتنے محنتی اور جفا کش لوگ اس معاملے میں تساہل کیوں برتتے ہیں۔ کاش شامی صاحب ہی سماجی سرگرمیوں کو سمیٹ کر کوئی صحیفہ چھوڑ جائیں۔
مرزا غالب نے کہا تھا ”میں فلاں سال مر جائوں گا‘‘۔ اس سال وبا پھوٹی۔ لاکھوں لوگ لقمۂ اجل ہو گئے۔ غالب زندہ رہا۔ دوستوں نے پوچھا تو کہا: ”میں غالب ہوں، اتنی بھیڑ کے ساتھ کیوں کر مرتا‘‘۔ کورونا نے کیسے کیسے لوگ چھین لئے۔ پیاروں کی موت کی خبریں ساون بھادوں کی طرح برس رہی ہیں۔ جنازے تھمنے میں نہیں آ رہے۔ رئوف طاہر نے سوچا، مرنا ہی ہے تو آٹھ دس دن کورونا اور عزیزوں دوستوں کو کیا اذیت دینی۔ علی الصبح اٹھا۔ نہا دھو کر یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہوا اور بہت دور نکل گیا۔ کئی سال پہلے ایک نئے اخبار کی پُرکشش مراعات نے ”دنیا‘‘ اخبار کے کچھ لوگ اٹھا لئے تو میں نے رئوف سے پوچھا: رئوف! تم نے تو دنیا نہیں چھوڑا؟ ہنس کر بولا: ”عرفان بھائی! دنیا بس ایک ہی بار چھوڑوں گا اب۔(بشکریہ دنیا)۔۔