khairsh ka khadsha

رؤف کلاسرا ٹارگٹ کیوں؟ چند باتیں۔۔

تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔

ہر قیمت پہ کمپنی کی مشہوری کے خواہاں کچھ چست و چالاک لوگ یہ سفاک حقیقت فراموش کرجاتے ہیں کہ ہر بات تؤجہ کا مرکز بننے کے لئے استعمال نہیں کی جاسکتی اور میری دانست میں بغیر تحقیق کئے، اعزاز سید کا یہ طنز تو نہایت غیراخلاقی ہی شمار ہونے لائق ہے کہ

 ” اگر کسی نے جناب کلاسرہ صاحب کا باجوہ صاحب کے حوالے سے کوئی ناقدانہ وی لاگ ، کالم یا ٹویٹ دیکھا ہے تو مجھے مطلع کرے ” جبکہ حقیقت احوال اس کے قطعی برعکس ہے ۔۔”

وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید اندھیرے میں چھوڑا یہ حاسدانہ تیر شاید نشان بے توقیری پہ جا لگے ۔۔۔ مگر بوم رینج کے سے انداز میں یہ تیر خود انہی پہ آلگا ہے مگر تاحال وہ زخمی ہونے سے انکاری ہیں شرمندگی کی توفیق تو بار دگر ہے

جہاں تک کسی کو ملازمت پہ رکھوانے کی مد میں رؤف کلاسرا کے تعاؤن کا معاملہ ہے تو یقینناً اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ انہیں سوال کی آڑ میں کسی بھی بیہودہ طنز کے نشانے پہ لیا جاسکتا ہے ۔۔۔ یہ طرز عمل تو فی الحقیقت شدید محسن کشی اور مہیب طوطا چشمی کے مترادف ہے اور نہایت قابل مذمت ہے – انکے سڑک چھاپ ہوئے پھرنے کے، اور بے چہرہ و بے وسیلہ ہونے کے باوجود کلاسرا جیسے ایک معروف و مؤثرصحافی کا انکے کام آنا کیا حددرجہ لائق ستائش بات نہیں ہے ۔۔۔ ورنہ عملی صورتحال تو یہ ہے آج کل کوئی بڑا اس وقت تک بڑا شمار ہی نہیں ہوتا کہ جب تک وہ خود کو عام آدمی سے بہت فاصلے پہ نا رکھے ۔۔۔ اسکی اک مثال ذاتی حوالے سے عرضہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر سے تعلق رکھنے والا اور خاصی حد تک قلمی و سماجی طور پہ پہچانے جانے والا یہ خاکسار تو ایم اے صحافت میں فرسٹ کلاس فرسٹ ہونے کے اور بہت سے اخبارات و جرائد میں شائع ہوچکنے کے باوجود حتیٰ کہ پانچ برس ادارہء جنگ کا حصہ رہنے کے باوجود ، جنگ اخبار میں اس لئے شائع نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا نام  صحافتی ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پہ براجمان سہیل وڑائچ کی گڈ بکس میں شامل نہیں ہے گوکہ ان سے شخصی سطح پہ پہچان بھی ہے اور واجبی سلام دعا بھی ۔۔۔

میں رؤف کلاسرا سے کبھی نہیں ملا مگر انکی تحریر و تقریر ہر دو کوپسند کرتا ہوں اور سچ بات تو یہ ہے کہ چند تحفظات کے باوصف میں کلاسرا صاحب کو ملک کے ان چند محسن صحافیوں میں شمار کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹنگ سے کئی کرپشن کیسیز  بے نقاب کرکے وطن عزیز کو عملی اور حقیقی فائدہ پہنچایا اور اربہا ارب روپے کے نقصان سے بچانے کی مد میں انکی جانب سے حالیہ دو میگا کرپشن کیسیز کی نقاب کشائی پہ انکی جتنی توصیف کی جائے وہ کم ہے افسوس یہ ہے کہ عین ایسی ہنر کے سبب وہ اب حاسدین میں نہ صرف خود کفیل ہوچکے ہیں بلکہ انہیں برآمد کرواکے ملک کو کثیر زرمبادلہ بھی فراہم کرواسکتے ہیں۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں