تحریر: خرم شہزاد۔۔
آپ نیوز کی کہانی بالاخر اپنے انجام کو پہنچی لیکن یہ انجام وہ نہیں تھا جس پر رونا آئے۔ ہر متعلقہ شخص جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ایسا ہونا ہی ہے ، بس وہ دن کون سا ہو گا یہ طے کرنا باقی تھا۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک بند ہوئے ڈائجسٹ کودوبارہ شروع کرنے کے لیے ہم اپنے دوستوں سے مشاورت کر رہے تھے، بہت سے پرجوش دوستوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی صلاحیت سے دوبارہ ڈائجسٹ کو اس کے پاوں پر کھڑا کر لیں گے لیکن ایک دوست نے عجب بات کہی کہ کاغذ کی جو کشتی ایک بار گیلی ہو جائے اس پر سواری نہیں کرنی چاہیے، اس کا مقدر اب بس ڈوب جانا ہی ہے۔ آپ نیوز کے بند ہونے پر ہمیں اپنے وہ دوست بے حد یاد آئے کیونکہ یہاں بھی صورت حال کچھ مختلف نہ تھی، ملک ریاض صاحب کا سہارا بھی اس چینل کو نہ بچا سکا کیونکہ اس چینل کی کاغذی کشتی گیلی ہو چکی تھی۔
جس طرح سے کبھی چینل کھولنے کا ٹرینڈ تھا ویسے ہی آج کل چینل بند کرنے کا ٹرینڈ چل رہا ہے اور اس میں بہت سے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ ہر چینل کے بند ہونے کی اپنی وجوہات ہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ تمام چینلز کسی ایک ہی وجہ یا پالیسی کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں۔ آپ نیوز کی بندش کی کہانی کی طرف جانے کے بجائے اگر اسی چینل پر روف کلاسرا کے بند ہونے والے شو کی بات کی جائے تو وہ ایک الگ کہانی ہے۔ روف کلاسرا صاحب پاکستان کے ممتاز تحقیقاتی صحافی ہیں اور ان کے فائل کئے ہوئے سیکنڈلز کی تعداد تو شائد بہت سوں کی صحافتی عمر سے بھی زیادہ ہے۔ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس دشت میں گزارنے والے کلاسرا صاحب آج کل صرف اس بات پر مصر ہیں کہ آپ نیوز پر ان کا شو حکومت کے کہنے پر بند کیا گیا کیونکہ وہ مسلسل حکومت کی کرپشن کے معاملات کو اٹھا رہے تھے۔ ان کے اصرار میں سچ کتنا ہے اس کو جاننے کے لیے کچھ ضمنی باتوں پر توجہ دیتے ہیں۔
روف کلاسرا صاحب بارہا اپنے پروگرامز اور کالموں میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ سیکنڈلز فائل کرنے کے حوالے سے اب وہ زمانے نہیں رہے جیسا کہ کبھی ہوتے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے پہلے دور حکومت کی بات کی جائے تب ایک سے دو کالمی خبر پر بھی طوفان آ جایا کرتا تھا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے ان معاملات کو لائٹ لینا شروع کر دیا اور گیلانی صاحب کے دور حکومت کے بعد تو سیکنڈلز اپنی وقت ہی کھو بیٹھے کہ اب کوئی اخبار کی خبر کو جواب کے لائق ہی نہیں سمجھتا تھا۔ خانہ پری کی حد تک کوئی بیان آ جائے تو ٹھیک ورنہ اس کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔یہ روف کلاسرا صاحب کے اپنے خیالات ہیں جن کا وہ گاہے بگاہے اظہار کرتے رہے ہیں، اب ایسے منظر نامے میں اگر اب کلاسرا صاحب خود اس بات پر بضد ہوں کہ ان کے مسلسل پروگرام کرنے سے حکومت کو کوئی پریشانی تھی تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بارے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس حکومت کو میڈیا کی طرف سے پہلے دن سے ہی ٹھنڈی ہوا نصیب نہیں ہوئی لیکن اس سب سے کیا ہوا؟ کیا حکومت گر گئی یا گرنے کا کوئی امکان بھی پیدا ہوا؟ اگرچہ بیشتر اینکرز ہر روز حکومت گرا تے ہوئے اپنے پروگرام کا اختتام کرتے ہیں لیکن پھر بھی اگلے دن کا سورج کسی تبدیلی کے اشارے کے بغیر ہی طلوع ہوتا ہے۔
ویسے پوچھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ کریشن کی میگا سٹوریز فائل کرنے والے روف کلاسرا صاحب کیا اپنے چینل میں ہونے والی میگا کرپشن سے ناواقف تھے؟ یقینا وہ ناواقف ہوں گے جیسا کہ بول چینل پر جب برا وقت آیا ہوا تھا تو کامران خان نہایت معصومیت سے الگ ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے انہیں چینل کے ایسے مالی معاملات کے بارے کچھ پتہ نہیں۔ آفتاب اقبال کی تیس فیصد کی حصہ داری کے علاوہ ان کے بھائی کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات چینل کو ماہانہ کتنے کروڑ گھاٹے میں لے جا رہے تھے، اس کے بارے کوئی تحقیقاتی سٹوری کرنے کا وقت تو شائد روف کلاسرا صاحب کے پاس نہ ہو لیکن نقل سے میٹرک پاس کرنے والا بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ماہانہ پندرہ سے سولہ کروڑ خرچہ کرنے والے چینل پر چھے سے سات ملین ماہانہ خرچ والا ایک پروگرام آخر کتنے دن چل پائے گا۔ ہر ڈوبتی کشتی سے پہلے بوجھ اتارا جاتا ہے اور روف کلاسرا صاحب کا سات ملین ماہانہ کا پروگرام آپ نیوز کی ڈوبتی ہوئی کشتی پر ایک ایسا ہی بوجھ تھا جسے موقع ملتے ہی اتار دیا گیا لیکن یہ الگ بات کہ بوجھ اتارنے کے بعد بھی بہت سی کشتیاں ڈوب جاتا کرتی ہیں، ویسے ہی آپ نیوز بھی ڈوب گیا۔
عرض صرف اتنی سی ہے کہ اگر روف کلاسرا صاحب کا قلم اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف کچھ لکھتے ہوئے لرز جاتا ہے تو بے شک اپنی بے بسی میں ان کے خلاف نہ لکھیں، نہ ہی کوئی اسٹوری اور ویلاگ تیار کریں، نہ کسی پروگرام میں کوئی اندر کی بات سامنے لائیں اور نہ ہی اس بات کا اقرار کریں کہ جب تک آپ کا پروگرام چل رہا تھا تب تک اپنے ارد گرد سے آنکھیں بند کر کے آپ صرف اور صرف حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ ہاں لیکن حکمرانوں سے سخت سوال کرنے میں مشہور اور کبھی نہ جھکنے اور بکنے والا روف کلاسرا کیا ایک سچ بولنے کی ہمت کرئے گا کہ ہاں اس کا پروگرام حکومت کی وجہ سے بند نہیں ہوا بلکہ اور بہت سی وجوہات اس بندش کی وجہ بنی تھیں۔ بہت زیادہ نہیں صرف ایک سچ۔۔۔ لیکن یقین رکھیں کہ وہ یہ سچ کبھی نہیں بولیں گے کیونکہ اب وہ یہ یا ایسا کوئی بھی سچ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ گاوں سے شہر آیا ہو اروف کلاسرا اب بہت بدل گیا ہے اسے نہ صرف شہر کی ہوا لگ چکی ہے بلکہ صحافت کے دشت کی سیاحی میں اس نے دوسروں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور یہ شہر اس کے اندر کا دیسی روف بھی کھا گیا ہے لیکن پھر بھی صرف ایک سچ۔۔۔ جو ہمیں بتا سکے کہ ہاں شہری روف کلاسرا کبھی کسی گاوں سے آیا تھا اور اس نے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن پھر بھی آج وہ سچ بول لیتا ہے۔(خرم شہزاد)
(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، رؤف کلاسرا صاحب اگر اس حوالے سے اپنا تحریری موقف دینا چاہیں تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔