تحریر: سعداللہ جان برق۔۔
ادھردبئی میں ایک واقعہ ہوا ہے ، ہم وہاں حاضر تو نہیں تھے، کہ معلوم ہوتا کہ کیا ہوا تھا لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے وڈیو کلپس دیکھ کر کچھ آگاہی ہوئی ہے، سوچا کیوں نہ اسے لے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی جائے۔واقعہ کچھ یوں بیان ہوا ہے کہ ایک دو ’’فنکاروں‘‘ نے ایک شو میں حسب عادت جگت بازی کے دوران میں کچھ ایسی جگت کی یا جگتیں کی جنھیں ہال میں موجود کچھ پشتونوں نے ان جگتوں کو اپنی تضحیک قرار دے کر احتجاج کیا، جس پر فنکاروں نے معذرت کرلی ہے۔تاہم ہم بھی اس حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کیونکہ موقع بھی ہے اور دستور بھی۔ سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ دنیا کی تمام اقوام، لسانی کمیونٹیز ، نسلیں، برادریاں اور ذاتیں قابل احترام ہوتی ہیں اور مجموعی طورپر کبھی کوئی قوم یا برادری بری نہیں ہوتیں البتہ کچھ انسان ضرور برے ہوتے ہیں۔ اپنی بھلائی چاہنا ہرقوم اورفرد کاحق ہے بشرطیکہ یہ حق اپنے دائرے سے نکل کردوسرے سے نفرت کے دائرے میں داخل نہ ہوجائے۔
دبئی میں جوکچھ ہوا اور ہمارے یہاں بھی اکثر ہوتا رہتا ہے، اس میں کسی بھی قوم کابحیثیت قوم کوئی دوش نہیں،ہم نے دیکھا ہے بلکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ جتنا مطالعہ اور مشاہدہ ہم نے اقوام کاکیا ہے اتنا اورکسی نے بھی نہیں کیا کیوںکہ ہمارامطالعہ ومشاہدہ کسی خاص طبقے یا سطح تک محدود نہیں ہے، پاکستانی قومیت کے ہرہرطبقے سے ہمارا واسطہ رہاہے،سیاسی سطح پر،تجارتی سطح پر،ادبی سطح پر اورعوامی سطح پرکہیں بھی کسی قومیت میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت نہیں ہے بلکہ محبت اوربھائی چارے کے مظاہرے ہوتے ہیں۔
یہ نفرتیں، عداوتیں اورسب کے سب منفی رجحانات اوپر کے ان طبقات میں ہوتے ہیں جو نفرتوں اورعداوتوں کو دودھیل گائے کی طرح پالتے اوردوہتے ہیں، لوٹتے خود ہیں اورنام دوسروں کا لیتے ہیں، نفرتوں کی گھناؤنی اورابلیسی سیاست کوایک طرف کرتے ہیں کیوں کہ یہ بہت بڑا موضوع ہے بلکہ سیاست نام ہی ڈیوائڈ اینڈ رول کا ہے.
اس لیے ہم صرف اپنے موضوع پر بات کریں گے اور ان دوسری قسم کے ’’دکانداروں‘‘ کی بات کرتے ہیں جوچند ٹکوں کے لیے باپ کی پگڑی، ماں کی چادراوربہن بیٹی کادوپٹہ تک کا احترام نہیں کرتے ، بدقسمتی سے اس موجودہ شرمناک بدعت کو ’’فن‘‘کا نام دینے کی کوشش کی جاتی ہے اورپھر اسے اتنا ڈویلپ کردیاگیا ہے کہ اگر شیطان بھی آجائے تو’’زنوائے تلمذ‘‘تہہ کرلے ۔
اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ چاہے اسٹیج پر کچھ بھی کرنا پڑے بلکہ ’’ڈیمانڈ‘‘کی جائے تواسٹیج پر نیم برہنہ ہوکر ناچنے والیاں بھی مل جاتی ہیں اور جگت کے نام پر گالیاں دینے والے فنکار بھی عام ہیں، یہ سب پیسے اور ریٹنگ کا کمال ہے۔ بس پیسہ ملے، تالیاں ملیں ،چاہے پیٹھ پیچھے گالیاں ہی کیوں نہ ملیں۔ایک پرانا شعر ہے جو کسی ’’جگنو میاں‘‘ کی تعریف میں ہے ۔
جگنومیاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کوبجاتے ہیں تالیاں
ہمارے ٹی وی ڈراموں اور تھیٹر شوز میں جگت کے نام پر قوموں، برادریوں ، ذاتوں ، نسلوں، عقیدوں ،طبقوں اور پیشوں کے بارے میں انتہائی گری ہوئی اور تذلیل آمیز جگت بازی پر ’’داد‘‘ پانا معمول کی کارروائی ہے۔ حتیٰ کہ خود اپنی بیوی، ماں، بہن کی توہین وتضحیک کو جگت کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے ، بس کسی طرح ’’پیسہ‘‘ ملے، ریٹنگ ملے ۔سکھوں اور ہندوؤں کا نام لے کر ہمارے ہاں کیا کیا واہیاتی نہیں ہوتی ۔ پرانے زمانے میں تو، ناچ میری بلبل کہ پیسا ملے گا، تک بات ہوتی تھی یعنی ’’بلبل‘‘ کونچا کر پیسہ مانگتے تھے اوراب خود ناچ کے نام پر بے ہودگی سے اپنے قدردان پیدا کرتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں۔
ان کوکیا اگر کسی کا دل دکھے، احساس وجذبات مجروح ہوں، ان کو توبس اپنی جگت سے غرض ہے ۔اوراب توشیطان کی برکت سے ’’غیرممالک‘‘ میں جاکر فن یاگند کا مظاہرہ کرانے والے اور اپنے وطن کو آٹھ آٹھ چاند لگانے والے پروموٹرز بلکہ ’’تھوک فروش‘‘بھی وافر مقدار میں پیدا ہوگئے ہیں جو یہاں سے چنیدہ چنیدہ’’دانے‘‘چن کر لے جاتے ہیں اور وہاں ان سے وہ کچھ کراتے ہیں کہ ابلیس بھی منہ چھپالے۔ان ’’پروموٹروں‘‘ نے توغلاظت کی تجارت کو اپنا پیشہ نہیں بلکہ فرض سمجھ کراپنایا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں جو کہانیاں ہم تک پہنچتی ہیں، انھیں کان میں کہنے کے لیے بھی لوہے کا نہ سہی بے شرمی کا جگرچاہیے۔واقعہ جس کاذکر ہورہاہے وہ تو سرسری طور پر سامنے آگیا ہے لیکن اورکتنے ایسے پروگرامز،شوز وغیرہ ہوتے ہوں گے جن میں دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کے دل مجروح کیے جاتے ہوںگے ، ہمارے فنکاروں، فنانسرز اور پروموٹرز کو بھی خود احتسابی کرنی چاہیے کہ ہمارے تھیڑ، فلم اور ٹی وی ڈراموں میں جو کچھ پیش کیا جارہا ہے اور جگت کے نام پر جو کچھ کہا جارہا ہے ، کیا اسے آرٹ ، کلچر اور آرٹسٹ کہا جا سکتا ہے۔
جگت باز تو وہ ہوتا جو سخت سے سخت بات بھی اس سلیقے اور خوبصورتی سے کہتا ہے کہ جسے وہ جگت مار رہا ہوتا ہے ، وہ بھی بے اختیار ہنس دیتا اور داد کی تالیاں بجاتا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)