تحریر: سید عارف مصطفی
کسی جمہوری معاشرے میں کچھ بنیادی سوالات کو تو کبھی نظرانداز اور غیرمتعلق کیا ہی نہیں جاسکتا خصوصاً وہ کہ جنکا تعلق بدعنوانی کو کسی صورت برداشت نہ کرنے سے ہے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کی نمود اور استحکام سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔ لیکن گزشتہ دنوں بول چینل کی ریٹنگ دینے کی فریاد پہ مبنی اک مقدمے کی سماعت ہوئی تو عدالتی ریمارکس سے بڑی حیرت ہوئی ۔۔۔ اور بہت سے سوالات نے دماغ کا گھیراؤ کرلیا ۔۔۔ اور ان سوالات کا خلاصہ یہ تھا کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اصرارتوآئین اور قانون کی عملداری پہ کیا جائے مگر اسکے ان بنیادی تقاضوں کو یکسر نظرانداز کردیا جائے کہ جن کا تعلق راستبازی و قانونی طرز عمل سے ہے۔۔ اور کسی فرد یا ادارے کی نیک نامی و ساکھ کے سوال کو غیر متعلق کردیا جائے اور وہ بھی ان لوگوں کی جانب سے کہ جو قانون کی پاسداری کے نگہبان ہیں ۔۔۔ لیکن کیا یہی کچھ ہمیں بول چینل کے معاملے میں کورٹ میں چلتے اس کیس میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کہ جس میں اس چینل نے ریٹنگ کے حصول کی دہائی دی ہے اور بہت رولا ڈال رکھا ہے۔۔ یہ سب بات ہم اس خصوصی تناظر میں کہ رہے ہیں کہ اس چینل کے قیام کی کہانی اور اور اسکے آمدن کے ذرائع پہ شکوک و شبہات کے بادل نہ صرف بہت گہرے ہیں بلکہ کئی معاملات میں تو یہ شبہات درست بھی پائے گئے ہیں حتیٰ کہ عدالتی سطح پہ تو ملکی و بیرونی دونوں سطح پہ اسکا تعلق کالے آمدن کے انبار سے ثابت بھی ہوچکا ہے ۔۔ اب بھلا کون عاقل و بالغ ہے جو اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ اس چینل کا قیام جس بانی ادارے کے تحت عمل میں آیا اسکا نام ہے ‘ایکزیکٹ’ اور اس پہ دنیا بھر میں ناجائز جعلی ڈگریوں کی فروخت کا نہ صرف الزام ہے بلکہ وہ اب تو ایک امریکی اور ایک پاکستانی عدالت میں ثابت بھی ہوچکا ہے۔۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جعلی ڈگری کیس میں نہ صرف صرف الزامات درست پائے گئے بلکہ دوبرس قبل ایکزیکٹ کے نائب صدر عمیر حامد کو ایک امریکی عدالت سے تگڑے جرمانے سمیت دو برس قید کی سزا بھی دی جاچکی ہے اور اسی طرح یہاں پاکستان میں بھی اسکا مالک شعیب شیخ سزایاب ہوکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جا چکا ہے کہ جس نے اس سے قبل ایک جج پرویز قادر میمن کو پچاس لاکھ رشوت دے کے اپنے حق میں فیصلہ کرالیا تھا لیکن جلد ہی یہ گٹھ جوڑ قطعی حادثاتی طور پہ بے نقاب بھی ہوگیا تھا اور یہ مقدمہ دوبارہ زیر سماعت لے آیا گیا تھا جس میں اسے جعلی ڈگریوں کی فروخت کا ذمہ دار پایا گیا- اتنا سب کچھ ہونے کے بعد یہ بات پایہء ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ اس چینل کی پشت پہ موجود ادارہ دراصل ایک گھناؤنی مافیاء ہے اور اس مافیاء نے اپنے بےتحاشا کالے دھن کی طاقت کے بل پہ اس چینل کے قیام کے ذریعے پاکستان میں ابلاغ و اطلاع کے نظام کو اپنے چنگل میں جکڑ لینے کی نقب لگا رکھی ہے ۔۔
لیکن اب جبکہ جرم و سزا کی یہ کہانی اپنے انجام کو پہنچ چکی ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسکی بدعنوانیوں سے حاصل کردہ مفادات اور مالی اثرات سے یکسر صرف نظر کرلیا جائے اور متاثرین کو ان سے لوٹی رقوم کی تلافی کے عملی اقدامات نہ اٹھائے جائیں اور اسکے لیئے سیدھا اور صاف رستہ یہی بنتا ہے کہ ایکزیکٹ کے اثاثوں اور اس کے ضمنی اداروں کے اثاثوں کو فروخت کرکےاس لوٹ مارسے ہونے والے نقصان کی کچھ نہ کچھ بھرپائی ضرور کی جائے ۔۔۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے ہے کہ شعبہ خواہ کوئی بھی ہو ، دیانت داری اور رستبازی کواگر شعار نہ بنایا جائے تو زوال یقینی ہے اور پھر وہ بھی میڈیا کے کسی ادارے کا معاملہ ۔۔ جہاں نام اورساکھ ہی سب کچھ ہے ۔۔۔ اور کیوں نہ ہو ، کیونکہ اسکا ایک اہم کردار سماج سدھار میں نمایاں خدمات انجام دینےوالے اہم ترین عنصر کا بھی ہے بلکہ یہ تو ایک طرح کی معاشرتی لائف لائن بھی ہے لیکن ادھر بول چینل کے معاملے میں سب کچھ بالکل مختلف نظر آتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ گویا ماپنے کے پیمانے ہی بدل کے رکھ دیئے گئے ۔۔ کیونکہ اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدن سے متعلق سیدھے اور سامنے کےبنیادی سوالات کے جوابات بھی نہ دینے کے باوجود اس ادارے کو نہ صرف اپنا ابلاغی کام جاری رکھنے کا بھرپور موقع فراہم کیئے رکھا گیا ہے بلکہ اب تو اسے ریٹنگ فراہم کرنے تک کا حق دینے کی بات بھی کی جارہی ہے۔۔
حالانکہ ریٹنگ وغیرہ تو بہت بعد کی بات ہے پہلے تو اس چینل کے اثاثوں کی بابت سوالات کا جواب لیا جانا ناگزیر ہے اور یہ بھی معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ اپنے قیام سے ابتک اس کے ذرائع آمدن کیا رہے ہیں اور اسکے یہ اللے تللے کیسے ممکن ہوئے ۔۔؟ کیونکہ اس تمام عرصے میں تو یہ چینل ہر روز دن میں کئی کئی بار بڑے طمراق سے یہ اعلان کرتا رہا ہے کہ اسے ‘فی الحال’ اشتہارات کی ضرورت نہیں ۔۔ جبکہ اس چینل نے میڈیا کی اوسط مارکیٹ سے کہیں زیادہ معاوضوں کی پیشکشیں منظر عام پہ لاکے ایک طوفان کھڑا کررکھا تھا ۔۔ لیکن اب یہی ادارہ اشتہارات لینے کے لیئے میڈیا لاجک کو عدالت میں گھسیٹ لایا ہے جو ارکان چینلز کو ہی ریٹنگ فراہم کرتا ہے ۔۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں عدالتی ریمارکس میں اس حزم و احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا کہ جسکا تقاضا تھا اور اس ضمن میں پی بی اے ارکان کو میڈیا کارٹیل جیسے القابات سے نوازا گیا اور میڈیا لاجک کو بھی کھری کھری سنائی گئیں حتیٰ کہ نوٹس بھی جاری کردیا گیا ( جسے بعد میں واپس بھی لے لیا گیا ) یوںیہ تاثر دیا گیا کہ جیسے جان بوجھ کر کسی کے جمہوری و قانونی حقوق پامال کیئے جارہے ہیں ۔۔
ہمارا معزز عدلیہ سے یہ کہنا ہے کہ آپ بیشک میڈیا چینلز کے طرز عمل میں یا پی بی اے ، پیمرا یا میڈیا لاجک کے کاموں میں کہیں کوئی غلطی پائیں تو حسب قانون سلوک کریں لیکن بول کو حق دلانے کے معاملے میں پہلے اسکی تشکیل اور وسائل سے متعلق چند بنیادی حقائق کو ہرگز نظرانداز نہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش ضرور کریں کے اسکے پاس یہ سب وسائل کہاں سے آئے اور کیسے آئےاور اگروہ اس کا جواب دینے سے گریز کرے تو پھر یقیناً اسکی بنیاد ہی ناجائز ہے اور جب اس سارے تام جھام کی اساس ہی جائز نہیں تو پھر کہاں کی ریٹنگ اور کیسی ریٹنگ ۔۔!ایسے کسی ادارے کو تو کام کرنے کی اجازت ہی نہیں ملنی چاہیئے کہ جسکی تشکیل مال حرام کے بل پہ ہوئی ہو ۔۔۔ بالکل واضح اور صاف بات ہے کہ کالے آمدن کو اگر میڈیا کے تقدس کے لبادے میں چھپانے کا یہ ہتھکنڈا ناکام نہ کیا گیا تو پھر بدعنوانی کے سیلاب کو امنڈنے سے نہیں روکا جاسکے گا اور پھر ریاست کے اس چوتھے ستون کو یرغمال ہونے اور گرنے سے بھلا کون بچا پائے گا ۔۔۔ اور ایسا ہوا تو اس سے ریاست کا استحکام اور جمہوری تصورات خطرے میں کیوں نہیں پڑ جائینگے۔ ۔ (سید عارف مصطفی)۔۔
(لکھاری کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ اگر کوئی اس تحریر کا جواب دینا چاہے تو ہم اسے بھی ضرور شائع کرینگے، علی عمران جونیئر)۔۔