رشید جونیئر کون تھا؟؟

تحریر: خالد مسعود

ایک زمانہ جب پاکستان میں ہاکی کا اور ہاکی میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا۔ تب ہماری ہاکی ٹیم ایشین گیمز میں، عالمی ہاکی کپ میں اور اولمپک میں تمغے لیا کرتی تھی۔ نوجوانوں میں ایک طرف رہا، بوڑھوں اور بچوں تک میں ہاکی سے دلچسپی کا یہ عالم تھاکہ ادھر میچ کی کمنٹری شروع ہوئی ادھر ریڈیو کے گرد سارے گھر والے بیٹھ گئے۔ ٹیلی ویژن تو بعد کی بات ہے‘ پہلے تو دلچسپی کا سارا محور ریڈیو ہوتا تھا۔ کیا کیا نام تھے؟ رشید جونیئر، اصلاح الدین، اشفاق احمد، شہناز شیخ، اسد ملک، سعید انور، فضل الرحمان، اخترالاسلام، سلیم شیروانی، منورالزمان، ریاض احمد، ریاض الدین، خالد محمود، تنویر ڈار، سمیع اللہ، اختر رسول اور دیگر بہت سے کھلاڑی۔ بچے بچے کو ان کے نام آتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری ہاکی زوال پذیر ہوتی گئی۔ ٹیم وکٹری سے اترتے اترتے دلوں اور دماغوں سے بھی اتر گئی۔ ورنہ کیا کیا نام تھے۔

میں نے پاکستان کی ہاکی ٹیم کو پہلی بار 1971ء میں دیکھا تھا۔ تب پاکستان کی ہاکی ٹیم بارسلونا میں ہونے والے عالمی ہاکی کپ میں ٹرافی اٹھاکر واپس آئی تھی۔ پاکستان کی ٹیم نے میزبان سپین کی ہاکی ٹیم کو ایک صفر سے شکست دے کر پہلا عالمی کپ حاصل کیا تھا۔ فاتح ٹیم ملتان آئی اور کینٹ ریلوے سٹیشن سے پورے شہر میں چکر لگانے کے دوران ان کو پھولوں سے لاد دیا گیا تھا۔ پھولوں کے اتنے ہار ڈالے گئے کہ کھلاڑیوں کے چہرے بمشکل نظرآ رہے تھے۔ جگہ جگہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ میں ٹرین آنے سے گھنٹہ بھر پہلے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا تھا۔ وہ گھنٹہ گزارنا کتنا مشکل تھا‘ یہ میں ہی جانتا ہوں۔ جونہی ٹرین آئی ہم سب نے ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا جب تک کہ ٹرین رک نہ گئی۔ ایک ہجوم تھا جو ٹیم کے استقبال کیلئے آیا ہوا تھا۔سٹیشن سے باہر نکل کر ٹیم کے کھلاڑی کھلی جیپوں میں بیٹھ گئے۔ میں کبھی ان گاڑیوں کے ساتھ پیدل چلتا اور موقع ملنے پر کسی گاڑی کے پائیدان پر لٹک جاتا تھا۔ کینٹ سٹیشن سے چوک شہیداں تک یہ سارا راستہ اسی طرح گزرا۔ سب کی توجہ کے مرکز تنویر ڈار اور رشید جونیئر تھے۔ تنویر ڈار اس ٹورنامنٹ کا ٹاپ سکورر تھا۔ اس نے سارے ٹورنامنٹ میں پاکستان کے کل گیارہ میں سے آٹھ گول کیے تھے۔ تنویر ڈار پینلٹی کارنر کا ماہر تھا اور اس کی شہرت بطور پینلٹی کارنر ایکسپرٹ پوری دنیا میں تھی۔ رشید جونیئر پاکستانی ٹیم کا سنٹر فارورڈ تھا اور 1968ء کے میکسیکو اولمپکس کے فائنل میں ایک گول کرکے پاکستان کی ٹیم کو فتح دلانے میں نمایاں کردار ادا کرچکا تھا۔ دیگر میچز میں بھی اس کا سکور بہت اچھا تھا۔ تب زیادہ ہجوم تنویر ڈار اور رشید جونیئر کے گرد اکٹھا ہوتا رہا۔

اگلے سال یعنی 1972ء میں نیشنل ہاکی چیمپئن شپ ملتان میں ہوئی۔ یہ غالباً بائیسویں قومی ہاکی چیمپئن شپ تھی جو ملتان میں ہوئی۔ ملتان میں نہ اس سے پہلے کبھی قومی ہاکی چیمپئن شپ ہوئی تھی اور نہ ہی اس کے بعد کبھی منعقد ہوئی۔ یہ ڈویژنل سپورٹس گرائونڈ میں ہوئی۔ میں روزانہ سہ پہر اپنی سائیکل پر چڑھ کر گرائونڈ میں آجاتا اور ہاکی میچ سے لطف اندوز ہوتا۔ تب پی آئی اے میری فیورٹ ٹیم تھی اور پی آئی اے میں رشید جونیئر میرا پسندیدہ کھلاڑی تھا۔ یہ روزانہ کا معمول تھاکہ میں سکول سے گھر آتا۔ دوپہر کا کھانا کھاتا اور پھر سائیکل پکڑ کر ڈویژنل سپورٹس گرائونڈ کی راہ لیتا۔ گھر والوں کو میرے شوق کا اندازہ تھا۔ بھائی طارق مرحوم روزانہ گھر سے چلتے ہوئے کہتے کہ سائیکل کا دھیان رکھنا۔ پھر ہنس کر خود ہی کہتے: بھلا اس سائیکل کوکس نے چوری کرنا ہے؟ مرے پاس ابا جی کی پرانی ریلے سائیکل تھی۔ اس کے ساتھ ایک عجیب الخلقت قسم کا تالا تھا جو اس کے پچھلے پہیے کے ٹائر کے چمٹے سے گزار کر لگتا تھا۔ اس کی چابی بھی اسی کی طرح منفرد قسم کی تھی؛ تاہم بعد میں پتا چلا کہ یہ تالا تقریباً ہر چابی سے کھل جاتا تھا۔

ایک میچ کے دوران ہاکی لگنے سے شہناز شیخ کے اگلے تین چار دانٹ ٹوٹ گئے۔ شہناز شیخ لہولہان ہو گیا۔ باہر بیٹھے ہوئے سرکاری ڈاکٹر نے فوراً طبی امداد دی؛ تاہم شہناز شیخ باقی میچ نہ کھیل سکا۔ میچ کے بعد میں شہناز شیخ کا حال پوچھنے ان کے ہوٹل گیا۔ پی آئی اے کی ہاکی ٹیم شبروز ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی۔ تب یہ ملتان کا اعلیٰ ہوٹل تصور ہوتا تھا۔ پی آئی اے کی ٹیم کا کیئر ٹیکر چچا قادر تھا۔ گول مٹول سا چھوٹے قد کا ہمہ وقت ہنستا ہوا چچا قادر ٹیم کا منیجر، خدمتگار، فزیوتھراپسٹ اور جانے کیا کیا تھا۔ ہوٹل کی لمبی راہداری سے گزر کر اندر گیا تو صحن میں سارے کھلاڑی ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کو دیکھ کر چچا قادر آیا اور کہنے لگا: آ جا بیٹا‘ ادھر آ جا۔ میں نے پوچھا: شہناز شیخ انکل کا کیا حال ہے؟ منہ پر رومال رکھے شہناز شیخ نے کہا کہ وہ اب ٹھیک ہے۔ ریاض الدین نے میرے لیے بوتل منگوا لی۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے انکے درمیان ایسے بیٹھا ہوا تھا جیسے ایک عرصے سے ان کے ساتھ دوستی ہو۔ پھر تو یہ معمول ہوگیا تھاکہ میں گرائونڈ سے ان کے تانگے کے ساتھ ساتھ سائیکل پر ہوٹل آجاتا اور ایک آدھ گھنٹہ ان سے بیٹھ کر قصے سنتا۔ کینیا میں میچ کے دوران لڑائی کا قصہ۔ 1970ء کی ایشین گیمز کے فائنل میں بنکاک میں بھارت کی شکست کی کہانی اور سب سے بڑھ کر 1972ء کے اولمپک گیمز میں پاکستان کی جرمنی کے ہاتھوں شکست میں ریفری کے غلط فیصلوں پر غصے سے بھری ہوئی ٹیم کا ردعمل۔ پینلٹی سٹروک ضائع ہونے کا واقعہ۔ وکٹری سٹینڈ پرسلور میڈل گلے سے اتار پھینکنے کی پاداش میں ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں پر پابندی اور اسی قسم کے ڈھیروں واقعات۔ عمرکے فرق کے باوجود میری ساری ٹیم سے دوستی ہوگئی تھی۔ تب کھلاڑی ہیرو تو ہوتے تھے لیکن وہ ابھی سلیبرٹی نہیں بنے تھے۔

ایک روز میں نے ساری پی آئی اے کی ٹیم کو‘ جس میں دس کھلاڑی تو اولمپیئن تھے‘ اپنے گھر چائے کی دعوت دے دی اور انہوں نے حیران کن طور پر وہ دعوت قبول بھی کرلی۔ میں نے گھر آ کربتایا تو ابا جی کو یقین ہی نہ آیا۔ وہ سمجھے‘ شاید ٹیم والوں نے مجھے مذاق میں ٹالنے کیلئے ہاں کردی ہے۔ اگلے روز ابا جی اپنے ویسپا سکوٹر پر شبروز ہوٹل آئے اور اسد ملک سے پوچھا کہ کیا یہ (میری طرف اشارہ کرکے) سچ کہہ رہا ہے؟ اسد ملک نے کہا: جی بالکل سچ کہہ رہا ہے‘ کل ہم آپ کے گھرآئیں گے۔ اگلے روز ساری ٹیم دو تانگوں میں سوار ہوکر میرے گھر آ گئی۔ آدھا محلہ ٹیم کو دیکھنے کیلئے ہمارے گھرکے باہر اکٹھا ہوگیا۔ یہ ایک پُرتکلف ہائی ٹی تھی۔ اس کے بعد میری سب سے دوستی مزید پختہ ہوگئی۔ خاص طور پر رشید جونیئر کے ساتھ۔ اگلے سال میں نیشنل ہاکی چیمپئن شپ دیکھنے لاہورگیا۔ یہ یونیورسٹی سپورٹس گرائونڈ میں ہوئی۔ اس سے اگلے سال بھی یہ چیمپئن شپ لاہور میں ہوئی۔ ایک سال بعد ٹیم سے ملاقات ہوتی تووہ حیران ہوتے کہ میں ملتان سے لاہور محض یہ ہاکی ٹورنامنٹ دیکھنے آتا ہوں۔

پھرچند سال قبل رشید جونیئر ملتان ایئرپورٹ پر بطور ایئرپورٹ منیجر آگیا۔ وہ منگول ہوٹل میں رہائش پذیر تھا۔ ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی تو وہ فوراً پہچان گیا۔ پرانی یادیں قطار اندر قطار سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ چندروز پہلے اخبار میں خبر پڑھی کہ رشید جونیئر کا انتقال ہوگیا ہے۔ یادوں کا ایک ریلا سا امڈ آیا۔ میری آنکھیں بھرآئیں۔ میں نے بیٹے کو بتایاکہ رشید جونیئر اس دنیا سے چلا گیا ہے۔ اس نے حیرانی سے پوچھا: رشید جونیئر کون تھا؟ میں خاموش ہو گیا اب اسے کیا بتاتا؟ ہاکی کا وہ گولڈن دور اس نے بھلا کہاں دیکھا تھا؟ اس کا کیا قصور؟ مجھے تواب خود ہاکی کے کسی موجودہ کھلاڑی کا نام نہیں آتا۔ اسے کیا کہوں؟ ٹیم وکٹری سٹینڈ سے اترجائے تو کھلاڑی حافظے سے اترجاتے ہیں۔ پھر بچوں کو یہ بھی پتا نہیں ہوتاکہ رشید جونیئر کون تھا؟ (بشکریہ دنیا)۔۔

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں