تحریر: مظہر برلاس۔۔۔
میرے ایک دوست کالم نگار نے لکھا ’’راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم کے دفتر سے شروع ہوئی۔ وزیراعظم کے دوست نے کہانی بتاتے ہوئے انہیں ڈرایا بھی کہ یہ ایک بہت بڑا اسکینڈل ہے۔
وزیراعظم کے اس دوست نے چند اکائونٹ نمبرز، فون نمبرز، چار سرکاری افسروں کے عہدے اور 10ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر)محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا، وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں، الزام سچ نکلا‘‘۔
آپ بھی میر ی طرح یہ چند سطور پڑھنے کے بعد سوچ رہے ہوں گے کہ وزیراعظم کا یہ کون سا دوست ہو سکتا ہے، جسے اتنی معلومات حاصل تھیں؟ ظاہر ہے کسی پرائیویٹ بندے کو لوگوں کے اکائونٹ نمبروں کا کیا پتہ، فون نمبروں، سرکاری عہدیداروں یا سوسائٹیوں کے ناموں کا کیا پتہ؟ یہ کام تو کسی خفیہ ادارے ہی کا ہو سکتا ہے یا پھر بتانے والا ایسے اداروں پر اثرانداز ہونے والے کسی عہدے پر براجمان ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح کی معلومات کسی عام آدمی کے پاس نہیں ہو سکتیں۔
میں عام طور پر ایسے معاملات پر نہیں لکھتا مگر دل یہ چاہتا ہے کہ آج پوری کہانی لکھ دوں اور آپ سمیت وزیراعظم کو بھی بتا دوں کہ وزیراعظم ہائوس میں کس طرح کی سازشیں ہوتی ہیں، یہ سازشیں کون کرتا ہے، سازش کرنے والے کا ساتھ کون دیتا ہے اور پھر خفیہ معلومات فراہم کرانے والا ان دونوں کا تیسرا دوست کون ہے؟
قارئین! جو کہانی وزیراعظم کو بتائی گئی وہ پوری نہیں ہے بلکہ اس کہانی کا آغاز وہاں سے کیا گیا جہاں سے ان کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی تھی۔ پوری کہانی کچھ یوں ہے کہ گوجر خان میں ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ یہ زمین سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر محمد میاں سومرو کی بہن ملیحہ سومرو کی ہے جن کی شادی گوجر خان کے سہراب ملک سے ہوئی۔ محمد میاں سومرو کی اس بہن کا بیٹا بیرسٹر فہد ملک کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا تھا
بیرسٹر فہد ملک سے زلفی بخاری کی بہن کی شادی ہوئی تھی۔ زلفی کے ماموں ڈاکٹر توقیر شاہ ہیں۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کے ایک کزن ذیشان نقوی عرف شانی شاہ اسلام آباد کے ڈپٹی میئر ہیں، شانی شاہ کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافات میں ان سادات کی خاندانی زمینیں ہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی پھیلنے لگے تو ان زمینوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ٹیکسلا چونکہ راولپنڈی کے ساتھ ہی ہے اس علاقے میں وفاقی وزیر غلام سرور خان کی برادری کی بہت زمینیں ہیں، غلام سرور خان کا حلقہ بھی یہی ہے سو راولپنڈی اور اسلام آباد کے ایک کنارے سادات کی زمینیں ہیں یا پھر غلام سرور خان کی برادری کی جبکہ دوسرے کنارے کی طرف ہائوسنگ پروجیکٹ بنانے والے اس اہم کردار کی سوسائٹی ہے جس کا بڑا نام ہے، جو وزیراعظم کے ایک طاقتور مشیر کو لندن میں ملا تھا۔۔
اس طاقتور مشیر کا تعلق اتفاق سے گوجر خان سے ہے، بہت سی رشتے داریاں اور محل وقوع بتانے کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ کو گوجر خان لے آیا ہوں جہاں سے کہانی کی ابتداء ہوتی ہے۔ محمد میاں سومرو کی ہمشیرہ کی زمین کا تنازعہ اتفاق سے وزیراعظم کے طاقتور مشیر شہزاد اکبر کے بھائی سے تھا، بھائی طاقتور مشیر بنا تو مراد اکبر بھی مرادیں پانے نکلا۔ اس تنازع کی وجہ سے پنڈی کی انتظامیہ پر طاقتوروں کا پریشر بڑھنے لگا ایک طرف وفاقی وزیر تو دوسری طرف وزیراعظم کا بہت طاقتور مشیر تھا
یہ معاملہ راولپنڈی کے کمشنر کے سامنے آیا تو قاری خوشی محمد الازہری کے صاحبزادے راولپنڈی کے کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود نے جو فیصلہ حق اور میرٹ پر تھا کر دیا یہ فیصلہ طاقتور مشیر کو برا لگا تو اس نے وزیراعظم کو معلومات دیں، رنگ روڈ کا قصہ لے آیا اس نے وزیراعظم آفس کے طاقتور سرکاری افسر کو ساتھ ملایا، خفیہ معلومات فراہم کرنے والے سول ادارے کا سربراہ پہلے ہی سے ان کا دوست ہے، سو ٹرائیکا راولپنڈی کے کمشنر کے خلاف ہو گئی، انہوں نے وزیراعظم کے کان خوب بھرے، یہ وہی ٹرائیکا ہے جس نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو اسلام آباد سے نکلوایا تھا، یہی ٹرائیکا وزیراعظم کو کنویں کی طرف دھکیل رہا ہے
یہ ٹرائیکا کبھی کچھ کرتا ہے تو کبھی کچھ، یہی ٹرائیکا وزیراعظم کے دفتر میں سازشیں تیار کرتا ہے اور شام کو مارگلہ سے لپٹے ہوئے ایک گھر میں بیٹھ کر مکمل منصوبہ بندی کرتا ہے، پورا کھیل بناتا ہے رنگ روڈ کی ابھی تک بیان کی گئی ساری کہانیوں میں وہ نام سامنے نہیں آئے جن کے لئے سب کچھ کیا گیا۔ شاید ٹرائیکا کا مقصد یہی تھا۔
منکر نکیر نے کیا کان بھرے کہ وزیراعظم راولپنڈی کے کمشنر کے اتنے خلاف ہو گئے کہ ان کی بات سننے کو بھی تیار نہ ہوئے۔ اصل کہانی یہ ہے کہ لاہور رنگ روڈ کی طرح اسی پراپرٹی ٹائیکون کو فائدہ پہنچانے کیلئے پنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ پچھلی حکومت کے دور میں ڈیزائن ہوا، ٹائیکون تو ہر حکومت کے ساتھ مل جاتا ہے، وہ موجودہ حکومت کے ساتھ بھی مل گیا پھر ایک کردار چاچا مجید بھی ہے جس کی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے رنگ روڈ کو بڑھایا گیا اسے میں یا آپ نہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ چاچا کہتا ہے اس منصوبے کو جلدی بنوانے میں وزیراعلیٰ پنجاب بھی شامل ہیں
پنجاب کا ایک طاقتور بیوروکریٹ بھی شامل ہے جو وزیراعلیٰ پنجاب کا قریب ترین ہے،جنہوں نے وزیراعظم کے طاقتور مشیر کے ساتھ مل کر راولپنڈی کے کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود کو فارغ کیا اور پھر نئے کمشنر کے طور پر اس بدنام شخص کو لے آئے جس نے ڈسکہ کا الیکشن چرانے کی کوشش کی تھی۔شاید رنگ روڈ کے چکر میں زلفی بخاری اور غلام سرور خان کا تو کوئی مالی فائدہ نہ ہوا ہو مگر بدنامی ہوئی، حقیقی کاروباری افراد کا نقصان ہوا، ہائوسنگ کا کاروبار کرنے والے بدنام ہوئے، کئی ہائوسنگ سوسائٹیاں بدنام ہوئیں اس کا فائدہ اسی سوسائٹیوں والے کو ہوا جو ہر حکومت میں فائدہ سمیٹتا ہے اور اب اس کا تعلق وزیر اعظم کے طاقتور مشیر سے ہے یا پھر رنگ روڈ کا فائدہ چاچے مجید کو ہوا۔
وزیراعظم صاحب! آنکھیں کھولیے اسلام آباد میں موجود اِس ٹرائیکا پر نظر ڈالیے، جن میں سے دو افرادتو آپ کے دائیں بائیں بیٹھتے ہیں،جو معصومیت میں بہت کچھ کرتے جا رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ دیر کر دیں۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔