تحریر: جاوید چودھری۔۔
ہمارے رنگ روڈ کے کالم پر دو فوری ریسپانس آئے‘ پہلا ریسپانس جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کا تھا‘ بلوچ صاحب کا فرمانا تھا آپ نے کالم میں قرطبہ سٹی کا ذکر کیا‘ یہ ٹاؤن جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں نے بنایا۔کمشنر کیپٹن محمود کے بھائی کرنل ریٹائرڈ محمد مسعود نے قرطبہ سٹی کے سامنے مکہ سٹی بنایا اور یہ قرطبہ کی انتظامیہ کو تنگ کر رہے تھے‘ ہماری شکایت پر رنگ روڈ انکوائری بھی شروع ہوئی اور مکہ سٹی کے خلاف تحقیقات بھی ہوئیں‘ انکوائری رپورٹ کے صفحہ 27 سیکشن 8 کے پیرا گراف تین پچاس اور صفحہ 30 سیکشن 9 پوائنٹ نمبرIV میں اس کا باقاعدہ ذکر ہے لہٰذا رنگ روڈ سے قرطبہ سٹی نے نہیں مکہ سٹی نے فائدہ اٹھایا اور ہم شکایت کنندہ ہیں۔
لیاقت بلوچ نے قرطبہ سٹی کے ڈائریکٹر انجینئر نصراللہ رندھاواکا وضاحتی خط بھی بھجوایا اور دوسری وضاحت میرے دوست توقیر شاہ کی ہے‘شاہ صاحب کا کہنا ہے ہمارے آباؤ اجداد سنگ جانی میں چھ سو سال سے آباد ہیں‘ سنگ جانی تاریخ میں بہت اہم مقام رہا‘شیرشاہ سوری نے ہمارے گاؤں سے جی ٹی روڈ گزاری‘اورنگ زیب عالمگیر نے یہاں سرائے بنائی‘ برٹش آرمی نے یہاں پریڈ گراؤنڈ بنایا۔انگریز نے یہاں موجودہ پاکستان کا سب سے بڑا ڈاک بنگلہ بنایا‘ ایوب خان نے سنگ جانی کے گرد وفاقی دارالحکومت بنا دیا اور سی ڈی اے نے میری زمینوں میں اپنے دو سیکٹر بنا دیے‘ کیا یہ سب مجھے فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا تھا؟ میں اور میرا خاندان رنگ روڈ کا بینی فشری نہیں ہے‘ ہمیں اس کا نقصان ہے‘ ہمارے گھروں کے اندر سے سڑک گزاری جا رہی ہے جس سے ہماری اربوں روپے کی زمین برباد ہو رہی ہے چناچہ مجھے بلاوجہ اس اسکینڈل میں ملوث کیا جا رہا ہے۔
یہ دووضاحتیں تھیں‘ ہم اب ہاؤسنگ اسکینڈلز کے مستقل حل کی طرف آتے ہیں‘ ملک میں ڈی ایچ اے کے نام سے ہاؤسنگ کا مضبوط اور پرانا ادارہ ہے‘ ملک کے دو درجن سینئر صحافیوں کو دو ہفتے قبل ڈی ایچ اے کا سسٹم سمجھایا گیا‘ ہمیں بتایا گیا پاک فوج میں ہزاروں شہداء‘ معذور اور ریٹائرڈ افسر ہیں‘ یہ لوگ اور ان کے خاندانوں کے پاس رہائش کی جگہ نہیں تھی لہٰذا فوج نے 1975 میں اتھارٹی بنائی اور اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر دیا‘ آپ کے پاس اگر ڈی ایچ اے کی پروپوزڈ سائٹ پر چار کنال اراضی ہے تو آپ یہ اراضی اتھارٹی کو دے دیتے ہیں۔
اتھارٹی آپ کوکنال کنال کے دو پلاٹس کی دو فائلیں دے گی‘ باقی دو کنال میں سے ایک کنال بیچ کر ڈویلپمنٹ ہو جائے گی اور چوتھی کنال شہداء اور ریٹائرڈ افسروں کوقسطوں پر دے دی جائے گی‘ اس ماڈل کے تین فائدے ہیں‘ ڈی ایچ اے کو زمین کے لیے رقم خرچ نہیں کرنی پڑتی‘ مالک کو سستی زمین کے عوض مہنگے پلاٹس مل جاتے ہیں اور ریٹائرڈ افسروں‘ شہداء اور ڈیوٹی کے دوران معذور ہونے والے جوانوں اور افسروں کے اہل خانہ کو چھت مل جاتی ہے‘ ہم اگر یہ نہ کریں تو یہ سارا بوجھ ریاست کو اٹھانا پڑے گا اور ریاست میں یہ کیپسٹی نہیں‘ ہم باقی اداروں کو بھی کہتے ہیں آپ بھی یہ کر لیں‘ آپ بھی لوگوں کو اچھی لیونگ دیں‘ آپ بھی اپنا بوجھ خود اٹھا لیں۔
یہ ماڈل اچھا تھا لیکن جب مفاد پرست اور جعل ساز ہاؤسنگ سیکٹر میں آئے تو تباہی مچ گئی‘ ملک میں ہزاروں جعلی ہاؤسنگ اسکیمیں بنیں اور جعل سازوں نے زمین سے دس دس گنا زیادہ فائلیں بنا کر بیچ دیں اور اربوں کھربوں روپے کھا گئے‘ نیب میں آج بھی ہاؤسنگ اسکیموں کے سیکڑوں کیس موجود ہیں‘ ملک میں ہر سال لاکھوں لوگ گھر اور چھت کے لالچ میں ان اسکیموں کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ لوگ عوام کا پیسہ چرا تے ہیں اور پھر اس سے پورے سسٹم کو خرید لیتے ہیں۔
آج قومی اسمبلی ہو‘ سینیٹ ہو یا پھر بیوروکریسی‘ پولیس یا عدلیہ ہو وہاں ان کے ہمدرد موجود ہیں اور یہ ان کو سرد اور گرم سے بچا رہے ہیں‘ رنگ روڈ پراجیکٹ میں بھی یہی ہوا‘ یہ منصوبہ بہت اچھا تھا‘ راولپنڈی واحد شہر ہے جس میں30 لاکھ آبادی کے باوجود رنگ روڈ نہیں لہٰذا یہاں روز ٹریفک بلاک رہتی ہے‘ ٹریفک کے اس فلو کو کنٹرول کرنے کے لیے 1997میں رنگ روڈ کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن سیاسی دباؤ اور مفاد پرستوں کی وجہ سے آج 24سال بعد بھی رنگ روڈ نہیں بن سکی۔
یہ منصوبہ اس بار بھی ہوس پرستوں کی ہوس کا نشانہ بن گیا اور یہ شاید اب اگلے دس برسوں میں بھی مکمل نہ ہو سکے‘ یہ اگر 1997 میں بن جاتا تو اس پر 10 ارب روپے خرچ ہوتے‘ اس کی کاسٹ اب60 ارب روپے ہو چکی ہے اور یہ اگلے پانچ برسوں میں 150 ارب روپے تک پہنچ جائے گی لہٰذا نقصان کس کا ہوا؟ ملک اور عوام کا ہوا اور کس نے کیا؟ ہاؤسنگ مافیا نے کیا چناں چہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ اگر واقعی ملک کا مقدر بدلنا چاہتے ہیں تو آپ میگا پراجیکٹس کے لیے اتھارٹی بنا دیں‘ پورے ملک سے ایمان دار اور قابل لوگ اس میں تعینات کر دیں۔
مارکیٹ سے زیادہ تنخواہیں دیں اور اسے نیب‘ اینٹی کرپشن اور عدالتی دائروں سے باہر رکھ دیں‘ 50 ارب روپے سے بڑا ہر منصوبہ اس اتھارٹی کے پاس چلا جائے‘ یہ ’’ٹی او آرز‘‘ بھی طے کرے اور مقررہ وقت پر ہر منصوبہ بھی مکمل کرے‘ اس سے قوم کا وقت بھی بچے گا اور ملک بھی ترقی کرے گا اور دوسرا کام وزیراعظم ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے بھی ریگولیٹری اتھارٹی بنا دیں‘ یہ اتھارٹی ہاؤسنگ اسکیموں کی منظوری بھی دے‘ ان کی نگرانی بھی کرے اور پلاٹس‘ گھروں اور زمینوں کی خریداری بھی اس کے ذریعے ہو۔
حکومت ٹیکس میں جو بھی چھوٹ دے اس اتھارٹی کے ذریعے دے‘ یہ اتھارٹی ہاؤسنگ اسکیم کے پاس موجود زمین کے مطابق پلاٹس کی فائلیں جاری کرے‘ عوام اپنی فائلیں اتھارٹی میں رجسٹرڈ کرائیں اور اتھارٹی ہاؤسنگ اسکیموں کو پابند کرے یہ وعدے کے مطابق خریداروں کو پلاٹس ہینڈ اوور کریں گی‘ ڈویلپمنٹ وقت پر مکمل ہو گی اور بائی لاز کے مطابق اسکول‘ پارک‘ مسجد اور گرین ایریا چھوڑیں گی اور سڑکیں اور فٹ پاتھ بھی بائی لاز کے مطابق بنیں گے‘ یہ ادارہ عوام‘ حکومت اور ریاست تینوں کے لیے فائدہ مند ہو گا‘ عوام فراڈ سے بچ جائیں گے۔
ملک میں بے ہنگم تعمیرات نہیں ہوں گی اور جنگل‘ کھیت اورپانی بھی بچ جائے گا‘ ملک میں آج حالت یہ ہے لوگ اٹھتے ہیں‘ دو چار سو کنال زمین کا سودا کرتے ہیں‘ بیعانہ دیتے ہیں‘ رجسٹری آفس میں ہاؤسنگ اسکیم رجسٹرڈ کراتے ہیں‘ بریف کیس یا فائلیں دے کر گیارہویں گریڈ کے افسر سے سر ٹیفکیٹ لیتے ہیں‘ خوب صورت اشتہار بناتے ہیں اور مارکیٹ میں دس پندرہ ہزار فائلیں بیچ دیتے ہیں۔
دبئی‘ لندن یا کینیڈا میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں اور پلاٹس کے ’’مالکان‘‘ کاغذ کا ٹکڑا لے کر در در پھرتے رہتے ہیں جب کہ بڑی اور مشہور ہاؤسنگ اسکیموں کے مالکان سٹے بازی شروع کر دیتے ہیں‘ یہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے رنگ روڈ جیسی ہائپ تخلیق کرتے ہیں‘ فائلوں کی ویلیو میں مصنوعی تیزی پیدا کرتے ہیں‘ اربوں روپے سمیٹتے ہیں اور تھوڑے عرصے کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔فائلوں کی قیمت نیچے آتے آتے منفی ہو جاتی ہے تو یہ اپنے گماشتوں کے ذریعے یہ فائلیں اونے پونے خرید کر ضایع کر دیتے ہیں جب کہ آخر میں بچ جانے والے خریداروں کو پلاٹ دے دیے جاتے ہیں اور’’ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا‘‘ کے اعلان فرمانے لگتے ہیں اور یوں یہ لوگ اس تکنیک سے اربوں روپے بھی کما لیتے ہیں‘ ہاؤسنگ اسکیم بھی مکمل کر لیتے ہیں اور لوگوں سے واہ واہ اور تالیاں بھی بجوا لیتے ہیں جب کہ عام آدمی اس کھیل میں اپنے سرمائے سے محروم ہو جاتا ہے‘ یہ بے چارہ جب بھی سوال اٹھاتا ہے تو اسے جواب دیا جاتا ہے‘ آپ کو کس نے کہا تھا آپ اپنی فائل بیچ دیں؟
ہم نے سب کو پلاٹ دے دیے ہیں‘ آپ بھی اگر جلدی نہ کرتے تو آج آپ بھی پلاٹ کے مالک ہوتے اور اس وقت آپ کی پراپرٹی کی ویلیو دو تین کروڑ روپے ہوتی‘ یہ جواب لاجیکل ہے لیکن اس لاجک کے پیچھے بھیانک چہرے اور بھیانک عزائم ہیں‘ آپ یقین کریں مجھے آج تک کسی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک کے گھرمیں سکون‘ صحت اور امن دکھائی نہیں دیا‘ مجھے یہ سارے لوگ ہمیشہ بیمار‘ پریشان اور روتے ہوئے ملے ہیں‘ یہ ان کی ہوس اور فراڈ کا نتیجہ ہے‘ یہ سٹے بازی اور جعلی فائلوں کے ذریعے غریب لوگوں کو لوٹتے ہیں لہٰذا یہ ہمیشہ صحت‘ سکون اور امن سے محروم رہتے ہیں۔
ہمیں یہاں یہ بھی ماننا ہو گا کنسٹرکشن انڈسٹری دنیا کے ہر ملک میں ’’مدر انڈسٹری‘‘ ہوتی ہے‘ یہ اکیلی انڈسٹری ساٹھ انڈسٹریز چلاتی ہے‘ ہم بھی اگر ملک میں معیشت کا پہیہ چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس انڈسٹری پر انحصار کرنا ہوگا لیکن ہمیں اسے سسٹم میں بھی لانا ہوگا‘ ہم اگر اسے ریاست کے دائرہ کار میں نہیں لاتے تو پھر راولپنڈی رنگ روڈ جیسے اسکینڈل بھی آتے رہیں گے اور جعل ساز جعلی ہاؤسنگ اسکیمیں بنا کر عوام کو بھی لوٹتے رہیں گے لہٰذا صرف زلفی بخاری کا استعفیٰ لے لینا کافی نہیں ‘ آپ بے شک غلام سرور خان اور ان کے صاحب زادے منصور حیات کو بھی گرفتار کر لیں۔
آپ زلفی بخاری کے کزن یاور بخاری کو بھی پکڑ لیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے دست راست طاہر خورشید (ٹی کے) کی فائل بھی کھول لیں لیکن مسئلہ جوں کا توں رہے گا‘ ملک میں نئے منصور حیات‘ غلام سرور خان‘ زلفی بخاری‘ یاور بخاری اور جنید چوہدری پیدا ہوتے رہیں گے اور یہ نواسٹی‘ ٹاپ سٹی‘ روڈن انکلیو‘بلیوورلڈ سٹی‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اورنیوائیرپورٹ سوسائٹی جیسی اسکیموں کے ذریعے عوام کو لوٹتے رہیں گے لہٰذا وزیراعظم اگر واقعی یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں ایک ہی بار اتھارٹی‘ ٹی او آرز اور بائی لاز بنانا ہوں گے ورنہ ہم اسی طرح گڑھوں اور پھندوں میں الجھتے پھنستے رہیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)