تحریر: علی عمران جونیئر
٭ عامر لیاقت کی موت کی وجہ کیا تھی؟ عامر لیاقت کی متنازع ویڈیو زکس نے افشاء کیں؟ عامر لیاقت کے بچے ان کی زندگی میں اُن سے کیوں نہیں ملے؟ دانیہ ملک کا کیا کردار ہے؟
٭ عامر لیاقت اپنے میڈیا گرو کے بغیر تین چینلز پر رمضان نشریات کی ریٹنگ نہ لے سکے، اور آخری رمضان میں تو کسی بھی چینل نے انہیں لفٹ نہیں کرائی جس کا انہیں بہت دکھ تھا
٭دانیہ ملک نے عامر لیاقت کی نازیبا ویڈیوز، لاہور کے ایک یوٹیوبر کو دی تھی، جس نے سب سے پہلے دانیہ کو اپروچ کرکے اس کا انٹرویو کیا تھا، پھر وہ عامر لیاقت کی ویڈیوز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا
(عامر لیاقت کی زندگی کے کئی اہم راز پہلی بار بے نقاب، میڈیا انڈسٹری میں اپنی تحقیقاتی خبروں سے کھلبلی مچانے والے صحافی کے اہم انکشافات)
معروف ٹی وی اینکرعامر لیاقت حسین کے حوالے سے کافی عرصہ ہوگیا کچھ نہیں لکھا گیا، اس دوران ان کی دانیہ ملک سے تیسری شادی ہوئی، پھر علیحدگی کی خبریں چلیں، پھر ویڈیولیکس کا ایسا سلسلہ چلا کہ کہتے ہیں عامر لیاقت حسین شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئے، اور اسی دوران9/ جون کوعامر لیاقت چل بسے، ان کے چہلم پر ان کی سابق پہلی اہلیہ نے ٹوئٹ کیااور ان کے پرستاروں سے مغفرت کی دعا کیلئے اپیل کی۔ عامر لیاقت کی تدفین، پوسٹ مارٹم کے حوالے سے وہ مسلسل عامر لیاقت کے پرستاروں کو اپ ڈیٹس کرتی رہی تھیں۔آخری ٹوئٹ انہوں نے چہلم کے حوالے سے کیا۔اس کے بعد مسلسل وقفے وقفے سے وہ عامر لیاقت کے حوالے سے ٹوئٹس کرتی رہیں، اور آخری بار جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے انہوں نے عامر لیاقت کی رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے پرستاروں سے ان کی مغفرت کی دعا کیلئے درخواست بھی کی۔
عامر لیاقت کے انتقال کے بعد ان کے حوالے سے سینکڑوں ویڈیوز بنائی گئیں۔تحریریں لکھی گئیں۔ لیکن اس میں اصل حقائق کم سے کم سامنے آ سکے اور عوام یہ نہ جان سکے کہ آخر عامر لیاقت کی اختتامی زندگی اتنی پراسرار کیوں رہی؟ چنانچہ زیر نظر تحریر میں اس امر کا جائزہ لینے کی تھوڑی سی کوشش کی گئی ہے کہ عامر لیاقت کی موت کی وجہ کیا تھی؟ عامر لیاقت کی متنازع ویڈیو زکس نے افشاء کیں؟ عامر لیاقت کے بچے ان کی زندگی میں اُن سے کیوں نہیں ملے؟ دانیہ ملک کا کیا کردار ہے؟ پہلی اور دوسری (سابق) بیگمات کا بھی ذکر ہوگا۔ عامر لیاقت کے اثاثے کیا ہیں اورکیا کچھ چھوڑ کر دنیا سے گئے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے پہلو تاحال زیر بحث نہیں آسکے۔ عامر لیاقت کے کیرئیر کے ابتدائی ایام بھی دلچسپی سے خالی نہیں، جس کا تذکرہ کریں گے، لکھنے کو بہت سی باتیں ہیں، کیوں کہ عامر لیاقت کو پرچم اخبار سے وابستگی کے دنوں سے جانتا ہوں۔ کوشش ہوگی کہ روایتی باتوں سے ہٹ کر آپ کو معلومات دیں اور کچھ ایجوکیٹ بھی کریں۔ انفارمیشن عامر لیاقت کے پرستاروں کے لیے ہیں اور ایجوکیٹ انہیں کرنا ہے، جن کی وجہ سے عامر لیاقت ہم میں نہیں رہے۔
عامر لیاقت کے حوالے سے ان کی زندگی میں ہی ہم کافی کچھ لکھتے رہے تھے،ان پر تنقید بھی کرتے تھے، ان کے غلط فیصلوں کی نشاندہی بھی کرتے تھے، جس پر وہ اکثر ہمیں فون کرتے تھے، اور کافی کچھ سناتے بھی تھے تو سنتے بھی تھے۔ ایک بار تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ انہوں نے ایک ٹی وی چینل کے مالک کو (جس سے ہم وابستہ تھے) متعدد فون کیے،اور یہاں تک پیشکش کرڈالی کہ عمران جونیئر کو اپنے ادارے سے نکالو تو میں اس بار رمضان نشریات آپ کے ٹی وی سے کرونگا۔ مذکورہ مالک چونکہ ایک اصول پسند انسان ہیں، وہ نیوزروم اور نیوزروم کے کسی بھی اسٹاف کے معاملے میں براہ راست ملوث نہیں ہوتے، انہوں نے صورتحال کی پوری رپورٹ اپنے ڈائریکٹر نیو زسے لی، اور معاملے کو سمجھ کر عامر لیاقت کو صاف انکار کردیا۔عامر لیاقت کا کیرئیرسب کے سامنے ہے، کس طرح سے وہ کیا سے کیا بن گئے؟ یہ بات ہم نے پانچ یا چھ سال پہلے بھی لکھی تھی جب کہ عامر لیاقت اپنے عروج پر تھا، ہم نے اپنی ایک تحریر میں ثابت کیا تھا کہ ان کی شہرت، مقبولیت میں ایک میڈیا گرو کا ہاتھ ہے جس پر انہوں نے فون پر ہم سے شکوہ بھی کیا تھا۔بلاشبہ عامرلیاقت صلاحیت میں کم نہ تھے لیکن اس میڈیا گرو کی اسٹرٹیجی اتنی زبردست ہوتی تھی کہ ان کی ہر رمضان نشریات پہلے سے زیادہ پاپولر ہوتی اور سب سے زیادہ ریٹنگ لیتی تھی۔ پھر جب ان کے اختلافات ہوئے اور دونوں نے اپنے راستے جد ا کرلیے، تو عامر لیاقت کا یہ حال تھا کہ تین چینلز پر میڈیا گرو کے بغیر جب رمضان نشریات کی تو ریٹنگ نہ لے سکے، اور گزشتہ رمضان میں تو کسی بھی چینل نے انہیں لفٹ نہیں کرائی جس کا دکھ انہیں بہت تھا اور انہوں نے آخری دنوں میں بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں اس کا ذکر بھی کیا تھا۔
اب مزید تفصیلات جانیں! جب عامر لیاقت نے بول جوائن کیا تھا اور وہاں سے انہوں نے دیگر تمام چینلز والوں پر تنقید کرنا شروع کی تھی اور جنگ و جیو کے مالک ان کے خلاف تو حد سے ہی گزر گئے تھے (جس کی بعد میں انہوں نے معافی بھی مانگی تھی)تو چینلز مالکان کی تنظیم پی بی اے کے اس وقت کے چیئرمین نے بھری میٹنگ میں تمام چینلز والوں کو کہا تھا کہ یہ بندہ اب کسی ٹی وی اسکرین پر نہیں آنا چاہیے۔ یہاں سے عامر لیاقت کا ریورس گیئر لگ چکا تھا۔انہیں اس اعلان کے بعد پی ٹی وی، بول اور ایکسپریس میں رمضان نشریات ملی تھی۔پی ٹی وی سرکاری ادارہ ہے، اس لیے پی بی اے کی وہاں چلتی نہیں۔شنید ہے کہ پی ٹی وی میں انہیں رمضان ٹرانسمیشن پی ٹی آئی کی وجہ سے ملی جس کے ٹکٹ پر وہ رکن قومی اسمبلی تھے، بول نیوز پی بی اے کو مانتا ہی نہیں، جب کہ ایکسپریس والوں کی پی بی اے سے ان بن ہی رہتی ہے حالانکہ ایکسپریس گروپ پی بی اے کا ممبر ہے۔عامر لیاقت ان تینوں چینلزپر ماضی کی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور اچھا تاثر نہ دے سکے۔ پی ٹی وی کی نشریات تو وہ درمیان میں چھوڑ کر چلے گئے جس پر انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے کر واپس بلایا گیا۔ ایکسپریس میں نشریات کے دوران کسی لڑکی نے دفتر کے باہر آکر ہنگامہ آرائی کی، وہ خود کو عامر لیاقت کی بیوی بتاتی تھی۔ وہ نجانے بعد میں کہاں غائب ہوگئی، کافی عرصے سے نظر نہیں آئی۔
عامر لیاقت کی پہلی شادی کس طرح ہوئی، دوسری کیسے ہوئی اور پھر تیسری کیسے ہوئی؟ یہ سب باری باری آپ کو بتائیں گے تو تحریر کافی لمبی ہوجائے گی۔ براہ راست دانیہ ملک پر آجاتے ہیں جو تیسری بیوی ہیں۔واضح رہے کہ عامر لیاقت کے وارثان میں دو بچے اور دانیہ ملک کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔دانیہ ملک سے ان کی شادی کے خوشگوار دن جلد انجام کو پہنچ گئے۔چار ماہ بعد ہی وہ اپنے گاؤں پنجاب چلی گئی پھر خبریں آئیں کہ اس نے خلع کا کیس کردیا ہے۔ اس دوران عامر لیاقت کی متنازع وڈیو لیک ہوتی ہے۔ ویڈیو میں عامر لیاقت نازیبا حالت میں نظر آتے ہیں، اور صاف پتہ لگ رہا ہے کہ اسے دانیہ ملک نے بنایا ہے۔ میاں بیوی تنہائی میں جو کچھ کریں اس کو راز ہی رہنا چاہئے لیکن اس قسم کی ویڈیوز کیوں بنائی گئیں، شاید اس کے پیچھے دانیہ ملک کے مذموم مقاصد ہوں گے۔۔ خیر وہ ویڈیو لیک ہوتی ہے، دانیہ ملک کے موبائل سے کس طرح لیک ہوئی؟ یہ تو ایف آئی اے سائبر کرائم والے آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں، لیکن دانیہ ملک کے سوشل پلیٹ فارمز سے یہ وڈیو لیک نہیں کی گئی، اس کے لیے کوئی اور ذریعہ ڈھونڈا گیا ہوگا۔ اس کے جواب میں عامر لیاقت نے جذباتی ہوکر،کچھ آڈیو لیکس اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کردی۔ عامر لیاقت چاہتے تو سائبر کرائم میں دانیہ ملک کے خلاف کارروائی کرسکتے تھے، اسی طرح دانیہ ملک چاہتی تو وہ بھی عامر لیاقت کے خلاف سائبر کرائم میں کیس کرسکتی تھی۔ لیکن دونوں نے ایسا نہیں کیا۔ وجوہات دونوں بہتر جانتے ہیں۔عامر لیاقت تو اب رہے نہیں۔ اس لیے یہ معاملہ تو یہیں ختم سمجھیں۔
ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دانیہ ملک نے عامر لیاقت کی نازیبا ویڈیوز، لاہور کے ایک یوٹیوبر کو دی تھی، جس نے سب سے پہلے دانیہ کو اپروچ کرکے اس کا انٹرویو کیا تھا، پھر اس انٹرویو کے نتیجے میں وہ عامر لیاقت کی ویڈیوز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اسی نے یہ ویڈیوز لیک بھی کیں، اس سلسلے میں ایف آئی اے لاہور نے اس یوٹیوبر سے تفتیش بھی کی، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔متنازع ویڈیو نے عامر لیاقت کے لیے سلوپوائزن کا کام کیا۔ وہ شرمندہ تھے کہ اپنے بچوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ جس کا انہوں نے کئی بار برملا اظہار بھی کیا۔ ٹینشن، ڈپریشن کی وجہ سے وہ خود کو ایک کمرے میں بند رکھنے لگے اوربہت زیادہ نشہ کرنے لگے۔ان کے قریبی احباب جب فون کرتے تو بات نہیں کرتے، ملنے کے لیے جاتے تو ملاقات نہیں کرتے تھے۔پھر 9/جون آگیا، انہیں سب سے پہلے آغا خان اسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ زندہ نہیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم کرالیں اور جناح اسپتال لے جائیں۔اعلیٰ پولیس افسران آغاخان اسپتال پہنچ چکے تھے وہ بضد تھے کہ عامر لیاقت چونکہ ایک سلیبرٹی اور رکن قومی اسمبلی بھی تھے۔ اس لیے ان کی وجہ موت جاننی ضروری ہے، ہم میت ایسے نہیں لے جانے دینگے۔ جس پر وزیراطلاعات ناصر حسین شاہ نے درمیان کا راستہ نکالا اور چھیپا صاحب کو جناح اسپتال لے جانے کا کہا۔ جہاں پہنچ کر چھیپا صاحب نے ابھی صرف ایکس رے ہی کرایا تھا کہ بشری اقبال (پہلی سابق اہلیہ) وہاں پہنچ گئیں۔پولیس نے جب عامر لیاقت کے کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے وہسکی کی بارہ خالی بوتلیں ملیں اور کچھ کوکین بھی۔عامر لیاقت کی ڈیڈ باڈی لے جانے والوں کا کہنا تھا کہ آنکھیں پیلی، چہرہ زرد تھا اور بہت کمزور سے لگ رہے تھے۔بشری بی بی نے عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا اس کے لیے انہوں نے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ عدالتی کارروائی میں تاخیر کے باعث نمازجمعہ کے بعد جنازہ نہیں پڑھایاجاسکا، عصر میں نماز جنازہ بیٹے احمد عامر نے پڑھائی جو اپنے باپ کے مرنے کی اطلاع پر جمعرات کے روز لندن سے روانہ ہوا اور پاکستان پہنچاتھا۔لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ عامر لیاقت کے قریبی احباب نے تدفین میں شرکت کیوں نہیں کی؟ اس کا جواب ہے بشری اقبال صاحبہ۔ جن کے سخت رویہ نے ان تمام کو دلبرداشتہ کردیا جو اسپتال سے میت کے ساتھ ساتھ تھے۔۔(یہاں ہم وہ سخت رویہ جان بوجھ کر نہیں لکھ رہے، کیوں کہ تحریر لمبی ہونے کا خدشہ ہے)۔۔
تدفین ہوگئی، بیٹے نے کہیں یہ اعلان نہیں کیا کہ میرے باپ پر کسی کا کچھ لینا دینا ہے تو وہ مجھ سے رجوع کریں،اب سارے معاملات میں دیکھوں گا۔ پھر سوئم والا دن آگیا، خدادادکالونی میں عامر لیاقت کے آبائی گھر میں قرآن خوانی، فاتحہ خوانی اور دعا ہوئی۔بیٹا وہاں بھی موجود تھا، چار افراد اپنے باؤنس چیک لے کر موجود تھے کہ ان سے عامر لیاقت نے قرضہ لیا تھا۔شاید واپسی کا آسرا ہوجائے۔ لیکن بیٹے نے قرض داروں کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ گھر کے باہر عامر لیاقت کی دو گاڑیاں کھڑی تھیں، جو دونوں قرضہ لے کر لی تھیں۔ ایک کے مالک کے بقایا آٹھ لاکھ روپے تھے، جسے دینے کا وعدہ کرکے گاڑی رکھ لی، دوسری پراڈو گاڑی تھی، جس کے مالک نے کہا کہ تیس لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے پینتیس لاکھ روپے بقایا ہے، اگر بقایا دیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میں کرایہ کاٹ کر آپ کو رقم واپس کرکے اپنی گاڑی لے جاتا ہوں، چنانچہ اسے گاڑی واپس کردی گئی۔
اب بات ہوجائے عامر لیاقت کے پاس کتنا پیسہ تھا؟ کتنی جائیداد ہے؟ اور ان سب کا حقدار کون ہوگا؟عامرلیاقت کے صرف دو بینک اکاؤنٹ تھے، ایک اکاؤنٹ جب وہ جیو میں تھے تو یوبی ایل کی الرحمن برانچ آئی آئی چندریگر روڈ میں تھا، جس میں چند ہزار ہی پڑے ہیں۔ دوسرا اکاؤنٹ ایچ بی ایل میں اس وقت کھولا تھا جب وہ ایکسپریس گئے تھے۔ اس کے علاوہ خداداد کالونی کا آبائی گھر ہے۔ اس آبائی گھر کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ عامر لیاقت کے والد شیخ لیاقت حسین نے اپنی زندگی میں ہی، اپنے دو بیٹوں عمران لیاقت اور عامر لیاقت کے نام ایک ایک اپارٹمنٹ کردیا تھا، جب کہ باقی اپارٹمنٹس فروخت کردیے تھے۔ نیچے والے پورشن میں خود رہتے تھے اور چھ دکانیں بھی اسی میں تھیں۔ عامرلیاقت اپنا اپارٹمنٹ تڑوا کر اسے بنوارہے تھے جب ان کا انتقال ہوا۔اس پورے گھر کی لیز کس کے نام ہے، کاغذات کہاں پڑے ہیں، یہ بھی الگ ہی داستان ہے، جسے نہ ڈسکس کیا جائے تو مناسب ہوگا کیوں کہ یہ ہمارے موضوع سے بالکل مختلف چیز ہے۔ بتانا مقصود ہے کہ خداداد کالونی والے گھر میں صرف ایک اپارٹمنٹ ہی عامر لیاقت کے نام ہے۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے پی سی ایچ ایس بلاک ٹو میں انہوں نے چھ کروڑ کا ایک گھر خریدا تھا، وہ بھی عامرلیاقت بیچ چکے تھے۔ بشری اقبال ڈیفنس کے جس بنگلے میں رہائش پزیر ہیں، بچے بھی ماں کے ساتھ ہی ہیں۔وہ جس سے خریدا تھا،وہ کروڑوں کا ہے،بقایا صرف پینسٹھ لاکھ روپے دینے تھے، مالک مکان پیسہ جب مانگتا،عامرلیاقت جلدی دے دونگا کہہ کر ٹال دیتے۔ اس طرح ہوتا رہا اور بنگلہ اصل مالک کے نام ہی رہا، چونکہ پوری پے منٹ نہیں ہوسکی تھی اس لیے کسی کے نام ٹرانسفر نہیں ہوسکا۔ چند ماہ پہلے عامر لیاقت نے وہ ساری رقم ادا کردی۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ بنگلا عامر لیاقت کے نام سے رجسٹرڈ ہے جس کی فائل ڈی ایچ اے کے دفتر میں ہے۔ یعنی بشری اقبال صاحبہ جس گھر میں رہ رہی ہیں اس میں بھی دانیہ ملک کا شیئر ہوگا۔عامر لیاقت پر مبینہ طور پر دو سے تین کروڑ روپے کا قرض ہے۔ جسے قرض داروں کو کیسے ادا کیا جائے گا، یہ وارثان کو سوچنا ہوگا۔
اب بات کرتے ہیں کہ کیا واقعی عامر لیاقت کو دانیہ ملک والی نازیبا وڈیوز کے لیکس ہونے کا اتنا شدید ڈپریشن تھا کہ وہ موت کے منہ میں چلے گئے؟ یہ دعوی عامر لیاقت کی پہلی سابق اہلیہ بشریٰ اقبال میڈیا سے ہونے والی ہر بات چیت میں کرتی ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے سائبر کرائم میں بھی دانیہ ملک کے خلاف درخواست دے رکھی ہے، جس پر کارروائی جاری ہے۔عامر لیاقت کی سابق اہلیہ کا کہنا ہے کہ دانیہ ملک مرحوم کی بیوہ نہیں ہے، اس نے خلع لے لی تھی۔ بشری اقبال کا کہنا ہے کہ گینگ کے خلاف ایف آئی اے میں درخواست دی ہے، کسی کی پرائیویٹ ویڈیوز لیک کرنا مناسب نہیں، عامر ڈپریشن میں چلے گئے تھے، دانیہ نے یہ خود مانا کہ ویڈیوز انہوں نے بنائی، جب دیکھا کہ ان کے خلاف معاملہ جارہا ہے تو پھر انکار کیا، ان کے بیانات بدلتے رہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ دانیہ کو سزا ملنی چاہئے، میاں بیوی کے رشتہ کے تقدس کو پامال کیاگیا، اس رشتے کی عزت نہیں رکھی گئی، شرعی بنیاد پر دانیہ کو خلع ہوچکی ہے، وہ عامر لیاقت کی بیوہ نہیں ہے، ایف آئی اے کو سب شواہد دے چکے ہیں، عامر نے لکھ کر دیاتھا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اور دانیہ کو خلع جاری کیا جائے۔یہ ہے خلاصہ بشری اقبال کی باتوں کا۔۔ بشری صاحبہ ماشااللہ پڑھی لکھی اور پی ایچ ڈی خاتون ہیں، اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھتی ہیں۔ شریعت کے حوالے سے کافی کچھ جانتی ہیں، تو شاید یہ بھی جانتی ہوں گی کہ دانیہ ملک بھی عامر لیاقت کے وارثان میں شمار ہوتی ہے۔ کیوں کہ عدالت نے خلع کی ڈگری جاری نہیں کی اس سے پہلے ہی اس نے کیس واپس لے لیا تھا۔ باقی شریعت میں تو اور بہت سی حدود و قیود ہیں، اگر بشری صاحبہ اجازت دیں گی تو اس پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ دانیہ ملک اب عامر لیاقت کی چھوڑی ہوئی ہر چیز میں حصہ دار ہیں اور وہ قانونی و شرعی طور پر بیوہ ہیں۔
بات ہورہی تھی کہ کیا دانیہ ملک کی بنائی گئی نازیبا ویڈیوز نے عامر لیاقت کی جان لی؟جی بالکل یہ سچ ہے لیکن پورا سچ نہیں ہے۔ اس سچ میں دو باتیں اور شامل کرلیں۔ہماری تحقیقات کے مطابق بچوں کا عامر لیاقت کو لفٹ نہ کرانا، فون تک پر بات نہ کرنا بھی عامر لیاقت کے ڈپریشن کی ایک وجہ تھی۔ بچے ماں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ ہے۔ کیوں کہ والد کا زیادہ ٹائم گھر سے باہر گزرتا ہے، تو ہر گھر میں بچے ماں سے زیادہ اٹیچڈ ہوتے ہیں۔ماں بچوں کو جو سکھاتی ہے بچے اسے ہی سچ مانتے اور سمجھتے ہیں۔خیر یہ الگ بحث ہے۔ تیسری وجہ ایک ایسے شخص کی گرفتاری تھی جو عامر لیاقت کے بہت ہی قریب تھا۔عامر لیاقت کا ہم راز تھا۔ اس شخص کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا اور کئی ٹھوس شواہد بھی ایف آئی اے کے ہاتھ لگے ہیں۔جس میں کافی کچھ موجود ہے۔اب ذرا اس شخص کی کہانی بھی سن لیں کہ ایف آئی اے نے اسے گرفتار کیوں کیا؟ اور وہ عامر لیاقت کے کتنا قریب تھا۔لیکن اس سے پہلے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جن دنوں میں لاہور میں تھا اور عامر لیاقت مجھے میری ملازمت سے نکلوانے کے چکر میں تھا، مجھے ایک بندے کا نامعلوم نمبر سے فون آتا ہے۔ فون اٹینڈ کیا تو اس نے اپنا تعارف کرایا۔ اس کے بعد چالیس منٹ تک ہونے والی گفتگو میں اس نے اپنے آپ کو بے انتہا مظلوم ثابت کرتے ہوئے، مسلسل دعویٰ کرتا رہا کہ اس کے پاس عامر لیاقت کی بہت سی غیراخلاقی ویڈیوز ہیں اگر آپ چاہیں تو آپ کو واٹس ایپ کرسکتا ہوں، آپ اسے گند ا کریں۔ ہم نے اس سے معذرت کی کہ ذاتیات پر اترنا ہمارا کام نہیں اور نہ کبھی ایسا کوئی کام کیا ہے۔اس کے بعد کراچی آگئے تو یہاں بھی اسی بندے نے فون کیا اس بار نئی کہانی لے کر آیا تھا، کہنے لگا، مجھے عامر لیاقت نے دبئی میں جیل کرادی تھی۔ منشیات نکلی تھی۔میرے پیسے عامر لیاقت پر نکلتے ہیں وہ دلوا دیں۔ ہم نے پھر معذرت کی کہ کسی کے پیسے کسی پر نکلتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں نکلوانے والے۔ وہ کہنے لگا۔ آپ خبر لگادیں وہ آپ کی خبروں سے بہت ڈرتا ہے۔ہم نے اسے ٹال دیا۔
آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگاکہ یہ بندہ عامر لیاقت کے کتنے قریب ہوگا؟؟ یہ شخص عامر لیاقت کی ٹیم کا حصہ تھا۔رمضان نشریات سمیت دیگر پروگراموں میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ ہم زیادہ ماضی میں نہیں جاتے اور نہ کافی پرانی کہانیاں آپ کو سنانا چاہتے ہیں حالانکہ سنانے کو بہت کچھ ہے۔ عامر لیاقت جب پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے رکن قومی اسمبلی بنے تو اس شخص کو عامر لیاقت نے اپنے ساتھ رکھنا شروع کردیا۔ یہ ہمیشہ ساتھ ہوتا، اسلام آباد ہو یا کراچی۔۔ہر جگہ جہاں عامر لیاقت جاتے وہ ساتھ ساتھ ہی جاتا۔۔ ہر میٹنگ،ہر اجلاس، ہر دعوت میں یہ سائے کی طرح ساتھ لگا ہوتا۔ اس بندے کے متعلق ہمیں اطلاعات ملیں کہ اس نے عامر لیاقت کے پرسنل سیکریٹری کے طور پر کراچی کے
بلڈرز کو فون کرکے بھتے لینا شروع کردیے۔ کسی کو دس لاکھ کیلئے فون کیا تو کسی سے چالیس لاکھ کی ڈیمانڈ کی۔یہ سب عامر لیاقت کے علم میں نہیں تھا۔وہ بڑے پیار سے اپنا تعارف کراتا اور کہتا کہ عامر لیاقت بھائی نے کہا کہ آپ کو فون کرکے پیسوں کا کہہ دوں۔ یہ پیسے کہاں جاتے؟ کہاں خرچ ہوتے اس کا کسی کو علم نہیں۔ جب ایک بلڈر نے اسی طرح کے ایک فون کا عامر لیاقت کے ایک قریبی دوست کو بتایا تو اس دوست نے عامر لیاقت کو فون کرکے پوچھا۔ یہ کیا کام شروع کردیا۔ جس پر عامر لیاقت نے اس بندے کی کلاس لی اور سختی کے ساتھ کہا۔ اگر آئندہ ایسا سننے میں آیا تو اپنے پاس سے بھگادوں گا۔ وہ بندہ جب عامر لیاقت کی ٹیم میں تھا تو اس نے رمضان نشریات کی ایک والنٹیئر لڑکی کو اپنے جال میں پھنسا لیا اور اس کی نازیبا ویڈیو بناکر اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ جس کی شکایت اس نے ایک سال برداشت کرنے کے بعد سائبر کرائم میں کردی۔۔ مئی کے مہینے میں شاید مہینے کا آخری ہفتہ ختم ہونے والا تھا۔ جب وہ عامر لیاقت کے گھر سے نکلا تو سائبر کرائم نے اسے گھر کے باہر سے گرفتار کرلیا۔ اس کا فون اور لیپ ٹاپ بھی قبضے میں لے لیا۔ جب دفتر لے جا کر لیپ ٹاپ کو دیکھا تو اس میں نازیبا ویڈیوز بھری پڑی تھیں۔ جس میں سے ساٹھ سے ستر فیصد عامر لیاقت کی تھیں۔سائبر کرائم والوں نے عامر لیاقت کو فون کیا اور انہیں دفتر آنے کا کہا۔ عامر لیاقت نے صاف انکار کردیا۔ اس دوران دانیہ ملک کی بنائی گئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ یہ الگ نئی مصیبت عامر لیاقت کے علم میں آئی، جس کا انہوں نے شدید صدمہ لے لیا۔ان پے درپے صدمات نے انہیں ڈپریشن کی انتہا پر پہنچایا تو انہوں نے اس سے بچنے کا سہارا لینے کے لیے منشیات کا زیادہ استعمال شروع کردیا۔ کوکین اور وہسکی کی ڈوز بڑھا دی۔جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا کہ پولیس نے جب عامر لیاقت کے کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے کوکین اور وہسکی کی بارہ خالی بوتلیں بھی ملی تھیں۔وہ بندہ تو جیل میں ہے۔ لیکن عامر لیاقت اب ہم میں نہیں رہے!!!! یہ کہانی ہے ایک ایسے چہرے کی، جو اسکرین سے جگمگایا اور اسکرین سے ہی ماند پڑا۔ اسکرین پر اُبھرنے کے شوق میں اسکرین پر ہی سامنے آنے والی اخلاق باختہ ویڈیوز سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوا یہاں تک کہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی پوری زندگی کا نجی دائرہ اسکرین کے باعث ختم ہو گیا اور جب اُسے اس زندگی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو اس کا کوئی قریبی اُس کے قریب نہ تھا۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے شخص کی جس نے اسکرین کے لیے اسلام کا استعمال کیا اور جب موت واقع ہوئی تو اپنے تمام چاہنے والوں کو اپنی موت کے احوال کے باعث ایک شدید شرمندگی میں چھوڑ گیا۔ یہاں تک کہ اس کی زندگی کے کسی بھی معاملے کا دفاع تک کوئی کرنے کو تیار نہ تھا۔ اسکرین کی مصنوعی زندگی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ڈاکٹر عامر لیاقت نے اپنی حقیقی زندگی فراموش کردی تھی۔یہ وہ حقیقت ہے جسے رمضان ٹرانسمیشن کو اداکاری کے انداز میں کرتے ہوئے تمام ٹی وی چینلز کے اداکار اور مالکان فراموش کربیٹھے ہیں۔ عامر لیاقت کی موت کا سبق بھی اسی میں ہے کہ مصنوعی زندگی کا بوجھ اسے جینے والا اُٹھا نہیں پاتا۔ اور حقیقی زندگی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دیتی۔ رمضان ٹرانسمیشن کا سب سے بڑا چہرہ اور کردار جب پراسرار حالات میں اپنی زندگی ہارا تو اُس کا یہ حال تھا کہ پاکستان کے کسی ٹی وی چینل کی اسکرین کو اس کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ بس یہ بات رمضان ٹرانسمیشن میں اسلام کو اداکاری کی طرح برتنے والے یاد رکھیں۔(بشکریہ جرات)