تحریر: سعید خاور
نوائے وقت کراچی کے سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر، کہنہ مشق صحافی، معروف قلمکار اور ان سب سے بڑھ کر انسان دوست شخصیت محترم سعید خاور کے قلم سے ۔۔۔۔
رمیزہ (بٹ) صاحبہ کے ساتھ نظامی لکھتے ہوئے دل نہیں مانتا- مجید نظامی صاحب بعض انسانی کمزوریوں اور شخصی خامیوں کے باوجود ایک مناسب ترین اونر ایڈیٹر تھے، کم از کم انہوں نے کبھی کسی کارکن کی تنخواہ اور واجبات نہیں دبائے تھے- کارکن کا جو بھی معاوضہ طے ہوتا تھا مہینے کے پہلے پانچ دنوں میں مل جاتا تھا اور جب کبھی کوئی چھوڑ کر گیا تو چوہدری حاکم علی اکائونٹنٹ کو کہتے: بھئی! ایدا حساب کر کے اینوں روانہ کرو-” نظامی صاحب کو جب کبھی کہا جاتا کہ “جی! فلاں بندہ جانا چاہ رہیا اے؟” تو بلا توقف کہتے: “جیڑھا جانا چاہندا اے جاوے، کھپ نہ پاوے-” رمیزہ صاحبہ نے تو تخت نشین ہوتے ہی حد ہی کر دی ہے، ایک تاریخی اخبار، جسے حمید نظامی مرحوم اور پھر مجید نظامی مرحوم نے ایک ایک نکتہ جمع کر کے جوڑا تھا، کو چند برسوں میں چیتھڑے میں بدل کے رکھ دیا، مجید نظامی صاحب کی جولائی 2014 میں رحلت کے آٹھ برسوں میں ادارے کے قیمتی اثاثے بیچ ڈالے اور رقوم مبینہ طور پر حوالہ، ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر دیں- بیرون ملک بھائیوں کے توسط سے اربوں روپے انویسٹ کر ڈالے لیکن انہیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم کارکنوں کی تنخواہیں اور واجبات ہی ادا کر دیتیں- ان آٹھ برسوں میں کئی نامور صحافی اور کالم نگار یا تو ادارہ چھوڑنے پر مجبور کر دیئے گئے یا خالی ہاتھ نوائے وقت چھوڑ کر مختلف اداروں میں چلے گئے- جبری ریٹائر منٹ اور جبری برطرفیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے چند ہی برسوں میں پر رونق دفتروں کو بھوت بنگلوں میں بدل کر رکھ دیا- تنخواہوں اور واجبات سے محروم متعدد کارکن بد دعائیں دیتے دیتے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان سے گزر گئے، کئی بیمار پڑ گئے، معذور ہو گئے، نفسیاتی مریض بن گئے لیکن رمیزہ صاحبہ کو ذرا بھی ترس نہیں آیا- متاثرین جھولیاں اٹھا اٹھا کر، دامن پھیلا کر دن رات بد دعائیں دے رہے ہیں، ہمارے بچے گردش دوراں سے گھبرا کر بلکتے ہیں تو ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں، رمیزہ صاحبہ کی بھی بچیاں ہیں، اللہ نہ کرے کبھی وہ اپنی سفاک ماں کے توسط سے ملنے والی بد دعائوں کی زد میں آ کر گرم سرد کا شکار ہو گئیں تو رمیزہ صاحبہ پر کیا گزرے گی- انہیں خوف خدا کرنا چاہیئے ورنہ کسی روز خلق بے نوا کے خدا کی غیرت جاگی تو سب کچھ بھسم ہو جائے گا اور وہ کف افسوس ملتی رہ جائیں گی-
میں نے اپنے نوائے وقت کے اٹھائیس برسوں اور تیرہ سالہ دور ادارت کے مشاہدات اور تجربات کو اپنی کتاب ” نوائے وقت ہائی جیکنگ کیس” میں بہ نظر عمیق لکھا ہے، کچھ دنوں سے یہ سلسلہ وار سوشل میڈیا کی نذر کر دیا ہے- اس کے مطالعہ سے دنیا کو پتہ چلے گا کہ بڑے بڑے فرشتوں کی اصل حقیقت کیا ہوتی ہے-
اللہ ہمارے سب محروم نوائے وقتیوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازے اور جو زندہ بچ گئے ہیں انہیں آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے