تحریر: آغا خالد۔۔
ادارہ امت سے2000 میں استعفی دےکرعلیحدہ ہوگیانہیں معلوم کہ گزرے22 سالوں میں کیاکچھ ہوتارہاکیاتبدیلیاں آئیں اورمزاج ایسےبدلےکہ کئی مرتبہ سوشل میڈیاپرخبروں میں رفیق صاحب پرمزدوردشمنی کےالزامات لگتےدیکھے صحافتی تنظیموں کےبیان بھی نظرسےگذرےمگرکبھی اس طرف دھیان ہی نہ گیاکہ پتہ کیاجائےکیونکہ فولادی اعصاب کےمالک رفیق افغان صاحب کی صحت اوراندازِ رہن سہن سےتھوڑی بہت واقفیت کےسبب سوچ بھی نہ سکتےتھےکہ وہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گےوہ اپنی صحت کابہت خیال رکھتےتھےمگرموت توبڑی ظالم ہےاوراس سےمفرکہاں بہت سےدوستوں کومیری وکالت پسند نہ آئےگی مگران سےدست بستہ عرض ہےکہ ایک تومشرقی تمدن ہمیں مرنےوالےکی کوتاہیاں درگذرکرنےکی تلقین کرتاہےاسلامی تعلیمات بھی بشری کمزوریوں سےقطع نظرموت کوپردہ قراردیتی ہیں یہ ہرگزنہیں بھولناچاہئےکہ ایک منصوبہ کےتحت گذشتہ چندبرس کےدوران صحافت کوبےآبرواورلفظ کی حرمت کےتقدس کوگہنایاگیااورایساحادثتاً نہیں منصوبہ بندی کےتحت ہوا بظاہراس کےلئےعمران نیازی جیساحسدمیں لتھڑاشخص استعمال ہوامگرپس پردہ وہ طاقتیں ہیں جن کوناراض کرنےوالوں پرزمیں تنگ کردی جاتی ہےاورپردے پرسب لکھاہےکہ کس طرح جنگ ،ڈان، نوائےقت اور ایکسپریس سمیت سارےصحافتی اداروں میں مالی بحران پیداکرکےان کےکس بل نکالےگئےیہاں تک کہ جنگ گروپ کےمالک جیسےبڑےصحافی اورسیٹھ کوتوعضومعطل بناکرکیاحال کیاگیاہےان حالات سےامت بھی گذرا اوراسےتواس بھٹی میں انھوں نےہی پھونکاجوکندن بنانےکادعواکرکےلائےتھےکیونکہ رفیق افغان بھی مزاجاًباغی تھےان کاپہلےدن سےنوازلیگ کی طرف جھکائوتھااورآخرتک برقراررہازمانہ ادھرسےادھرہوامگروہ نہ بدلےحالانکہ رفیق صاحب کی رحلت پرممتازصحافی عارف الحق عارف نےتعزیتی مضمون میں لکھاہےکہ ان کا اصل اسکول آف تھاٹ جماعت اسلامی تھامگروہ جماعت پرتنقیدکاکوئی موقع جانےنہ دیتےاوران کاخبروں میں جھکائوکبھی اس طرف نہ دیکھاگیااوریہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کےلوگ بھی ان سےکٹےکٹےرہتےتھےوہ زمانہ طالب علمی میں کراچی یونیورسٹی کےاسلامی جمعیت کے سرگرم رکن تھےاوراسی حوالےسےوہ جہاد افغانستان کےابتدائی دنوں میں ان سےمنسلک ہوگئےاورشاید اسی جذباتی تعلق سےتخلص ”افغان“ اختیارکیااندازہ کریں پرویزمشرف اورراحیل شریف کےدورمیں ان پرکتنادبائوآیاہوگاایک قابل اعتماد دوست دعواکرتےتھےکہ رفیق صاحب ان کے ادارہ میں اسسٹنٹ ڈائرکٹرکےعہدہ پرفائزہیں توادارےاپنےبندےکی نافرمانی کوبغاوت سمجھ کرنپٹتےہیں سواس بغاوت کاخراج انھوں نےدومرتبہ گھرگنواکردیاایک مرتبہ گھرکےنفوس چھینےگئےاوردوسری بارگھرکی چھت ڈھادی گئی
اےمیری گل زمیں تجھےچاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نےمگرکیاتیراحال کردیا
رفیق افغان کی ضدی طبیعت نےان کی لسانی شناخت بھی چھین لی تھی اس پروہ کبھی دکھی بھی نہ ہوئےہوں گےگنےچنےچندافرادمجھ سمیت انھیں نام کی مناسبت سےافغانی پٹھان سمجھتےتھےجبکہ ان کےوالدیں تقسیم ہندکےمتاثرین میں شامل تھےجو ہندوستان سےہجرت کرکےآئے رفیق صاحب بھی ان کی اولاد تھے مجھے بھی جب پہلی بارمعلوم ہواتو 12 ہزار وولٹ کاجھٹکالگااچھی شہرت کےحامل مشہوروفاقی سیکریٹریزکاایک جوڑاتھاسلیم احمدخان اوران کی اہلیہ رخسانہ سلیم وہ رفیق افغان صاحب کےقریبی عزیزتھےایک مرتبہ کسی خبرپرموقف کےلئےانہیں فون کیاتووہ موقف دینےسےزیادہ زوراس بات پردیتےرہےکہ رفیق افغان میرےعزیزہیں آپ ان سےبات کرلیں پھرمیں نےاپنےباس سےتصدیق بھی کی یہ رفیق صاحب کازندگی بتانےکااندازتھاکہ الطاف حسین کی فسطائیت سےنفرت کےسبب لفظ مہاجربھی ان کےنزدیک ناپسندیدہ رہا 1999 میں پرویزمشرف کی بغاوت نےکایاپلٹ دی تھی ابتدائی دنوں میں نوازشریف کانام لینابھی جرم بنادیاگیاتھامگرامت کی لیڈاکثرنوازکےحق میں ہوتی تھی چونکہ روزمرہ کےجرائم کی ڈیسک کامیں انچارج تھاسوصبح 3 سے 4 بجےکےدرمیان کاپی پریس جانےتک دفترمیں ٹھرناپڑتاتھاآپریٹرسیف بھائی شب 12 بجےگھرچلےجاتےتھےوہ جاتےہوئےہماری میزپررکھےانٹرکام کوتھروکرجاتےتھےاوربلاناغہ ٹھیک 2 بجےاس وقت کےسیکٹرکمانڈرکافون آتاتھامیں ریسیوراٹھاتاایک مخصوص لہجہ میں سلام کےبعدبڑےاحترام سےکہاجاتا”بھائی سے بات کروادیں“ اورمیں لائین رفیق صاحب کوتھروکردیتاہمارےجانےتک لائین مصروف رہتی تھی یہ تھا رفیق افغان کا اداروں میں احترام اورجنرل حمید گل سےتوان کےتعلق کی دنیاگواہ ہےایک مرتبہ اس دورکےکورکمانڈرکےساتھی افسر ریلوے کےٹھیکیدارگلوبھائی کےساتھ دفترتشریف لائےاوررفیق صاحب سےملنےکی درخواست کی ان کےبقول رفیق صاحب ان کے آئیڈیل ہیں وہ چندمنٹ کےلئےان سےملناچاہتےہیں رفیق صاحب نےانکارکردیامیں نےذاتی طورپرزورلگایاکیونکہ گلوبھائی میرےعزیزترین دوست تھےمگررفیق صاحب نہیں ملےجبکہ میں نےبڑےبڑے سرخوں کومیجرکےسامنےدم ہلاتےاور وردی سےرشتہ جوڑنےکےلئےسربازارننگےٹھمکےلگاتےدیکھاہے۔۔۔ہائےاس زودپشیماں کاپشیماں ہونا؟
رفیق صاحب کی گوناگوشخصیت کےاتنے پرت ہیں کہ کھولنےبیٹھوں توایک نئی خفیہ ایجنسی تخلیق پاجائےحالانکہ میراان کاساتھ 4 سال کاہی ہےبلاشبہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھےان کےآخری دنوں کےپرمغزتجزیے جوامت میں اکثرسپرلیڈہوتےتھےپڑھ کربڑے بڑے سیاسی چغادری اپنی دکان سجایاکرتےتھےوہ اپنےموقف سےہٹےنہیں اس کی انہیں بہت بھاری قیمت بھی چکاناپڑی آخری عمرمیں ان سےگھرچھین لیاگیاسرپرستی ختم اورانتقامی کاروائیوں کاشکاررہےشایدیہی صدمہ ان پربھاری پڑا ورنہ الطاف جیسےخونخوارکواکھاڑپھنکنےمیں اہم کردارکامالک اس کائنات کی سب سےچھوٹی مخلوق (کوروناجراثیم)کےہاتھوں کیسےزندگی ہارسکتاتھایہ ناقابل یقین ہےرفیق افغان اپنے ضدی انتہاپسندانہ مزاج اوردل پھینک طبیعت کےسبب اکثرمشکلات کاشکاربھی رہےایساوقت ان پر1998 میں بھی آیاتھاجب ان کےگھرمیں ہی اعتمادکافقدان پیداہوااورمعاملات یہاں تک پہنچےکہ ان کےسسرشہیدصلاح الدین کےرسالےتکبیرمیں ان کےخلاف نفرت پرمبنی ایساموادچھپ رہاتھاکہ الاامان والحفیظ آدھےسےزیادہ تکبیران کےخلاف زہرمیں بجھےقلم سےلکھےمضامین سےبھراہوتااوررفیق صاحب انتہائی مضبوط اعصاب کےمالک ہونےکےباوجودان دنوں کچھ مضمحل نظرآنےلگےاورچونکہ میں ان سےعقیدت رکھتاتھاسوخودبھی پریشان تھاانہی دنوں ایک چھوٹےخفیہ ادارےکےافسرکےساتھ ان کےدفترمیں بیٹھاتھاکہ اس کےسی اوکرنل طارق آگئےوہ بہت ہی اعلی پائےکےانٹیلی جنس افسراوربلاکےذہین تھےریٹائرمنٹ کےبعدوہ کے ای ایس سی میں بریگیڈیرطارق سدوزئی کےساتھ محکمہ کےانٹیلی جنس افسرلگ گئےتھےوہ اس کمرہ میں کسی کام سےآئےاورمجھےہاتھ پکڑکراپنےدفترمیں لےگئےاوربولےاپنےباس سےبولوسب کوآزمالیااب ہم سےملومسلہ انشااللہ حل ہوجائےگاان کااشارہ میں سمجھ گیااسی روزرات کوخبروں سےفارغ ہوکرمیں رفیق صاحب کےکمرہ میں گیااورانہیں من وعن پیغام پہنچادیاوہ حسب معمول اداس بیٹھےتھےمیری بات سن کرکھل اٹھےاورخلاف توقع انھوں نےاسی وقت طارق صاحب سےملنےکی خواہش ظاہرکی میں نےرابطہ کیا،طارق صاحب صوم وصلات کےپابندہونےکی وجہ سےجلدی سوجانےکےعادی تھے نیندسےبیدارہونےکےباوجودبولےابھی گھرپرآجائومیں نےرفیق صاحب کوبتایامگرچندمنٹ ہی گذرےہونگےکہ طارق صاحب کےنائب اعجازجومیرےدوست تھےکی کال آئی اورکہاکہ آپ لوگ آفس آجائیں ہم رفیق صاحب کی گاڑی میں آفس پہنچےتوطارق صاحب نےنیندسےبھری آنکھوں سےہمارااستقبال کیااوررفیق افغان کاہاتھ تھامےطارق صاحب اپنےآفس میں اورمیں اعجازکےساتھ ان کےآفس میں آکربیٹھ گئےکوئی ایک گھنٹےکی میٹنگ کےبعدہم رفیق صاحب کی گاڑی میں بیٹھےتھےاورگاڑی تیزی سےدفترکی طرف جارہی تھی، رفیق صاحب نےپہلی مرتبہ تشکرآمیزنظروں سےمجھےدیکھااوربولےآغامیں تمھارایہ احسان یادرکھوں گامیں نےان سےکوئی سوال نہیں کیانہ میٹنگ کےبارےمیں پوچھاتاہم ان کےخوشی سےکھلےچہرےپراطمنان دیکھ کرمجھے بھی قلبی سکون حاصل ہوااوراس کےبعدرفیق صاحب کی مشکلات کم ہوتی گئیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ ان مشکلات کےخاتمےمیں حتمی کردارجنرل حمیدگل کاہی تھااسی دوران ایک اورواقعہ ہواڈی آئی جی کراچی پولیس فاروق امین قریشی میرےبہت عزیزدوست تھےان دنوں ایم کیوایم کےخلاف زورشورسےکراچی آپریشن چل رہاتھااورڈی آئی جی اورآئی جی رانامقبول اس آپریشن کی براہ راست نگرانی کرہےتھےذراٹہریں تھوڑاپیچھےچلتےہیں اورآگےبڑھنےسےپہلےفاروق امین سے دوستی کی وجوہ بھی جان لیں فاروق ایس ایس پی وسطی تھےاورحکیم سعید قتل کیس پر کام کرہےتھےکچھ ہی دن پہلےفرشتہ صفت حکیم سعیدکوآرام باغ میں ان کےدواخانہ کےسامنےاس وقت شہیدکردیاگیاتھاجب وہ عل الصبح نمازفجرکےوقت اپنےدواخانہ پہنچےتھےجدیداسلحہ سےلیس قاتل ایک وین میں سوارتھے اورپہلےسےحکیم صاحب کےانتظارمیں دواخانہ کےسامنےمورچہ زن تھےجبکہ کچھ موٹرسائکل سوار حکیم سعید کےگھرسےان کی ریکی کرتےہوئےوین میں موجودنشانہ بازوں کوصورتحال سےآگاہ کرہےتھےکراچی پولیس کےذہین تفتیش کاروں کاپہلے دن سےاصرارتھا قتل کی یہ واردات بظاہرایم کیوایم کےمزاج کےقریب ہے اوراسی نکتہ پرتفتیش جاری تھی کہ مخبرکی اطلاع پرفاروق امین نےایم کیوایم کےایک بدنام جرائم پیشہ کوحراست میں لیاتواس نےواردات کی ریکی کرنےکااقرارکرتےہوئےقاتلوں کی نہ صرف نشاندہی کردی بلکہ قتل کی تفصیلات بھی بتادیں اس گرفتارجرائم پیشہ کابیان ریکارڈ کرکےفاروق امین نےآئی جی آفتاب نبی (غالباً) کوپہنچایا آفتاب نبی ایک پروفیشنل اوراعلی کردارکےپولیس افسرتھےمگربدقسمتی سےان کی تقرری ایم کیوایم کےکوٹہ پرہوئی تھی اس لئےاداروں کی نظرمیں ہمیشہ مشکوک رہے وہ یہ ریکارڈنگ لےکرلیاقت جتوئی کےپاس وزیراعلی ہائوس پہنچ گئےان دنوں لیاقت جتوئی ن لیگ کی طرف سےایم کیوایم کےتعاون سےسندھ کےوزیراعلی تھے اورمخلوط حکومت ایم کیوایم کےووٹوں پرکھڑی تھی لیاقت جتوئی ریکارڈنگ سن کربجائےداد دینےکےالٹابھڑک اٹھےانھوں نےآئی جی پرچڑھائی کردی اوران پرالزام لگایاکہ تم میری حکومت کےخلاف سازش کرہےہوکمزورآئی جی نےوزیراعلی کاغصہ دیکھ کرپینترابدلااورفورن اس سازش کارخ ایس ایس پی کی طرف موڑدیالیاقت جتوئی جواس وقت طیش میں تھےاورہوش کھوبیٹھےتھےنےایس ایس پی فاروق امیں قریشی کوبھی وزیراعلی ہائوس طلب کیافاروق صاحب انعام کی امیدمیں مگن خوش خوش وزیراعلی ہائوس پہنچ گئےمگرپیشی ہوتےہی ان کےاوسان خطاہوگئےکیونکہ صوبےکےحاکم اعلی کےمنہ سےجھاگ نکل رہاتھااوروہ غصہ سےنیم دیوانگی والی حرکتیں کرہےتھےانھوں نےفاروق امیں کوجیل بھیجنےکی دھمکی دیتےہوئےان پرپپلزپارٹی کےایجنٹ ہونےکاالزام بھی لگادیاکہ وہ ان کے اشارہ پرہی جتوئی حکومت کےخلاف سازش کرہےہیں فاروق بھی وزیراعلی کاغصہ دیکھ کرسہم گئےالغرض طےیہ پایاکہ گرفتارملزم کوکسی چھوٹےموٹےکیس میں چالان کردیاجائےاوربات یہیں دبادی جائےاگلےروزفاروق صاحب کےایک چہیتےگن میں نےمجھ سےرابطہ کیااورفوری ملنےکی خواہش ظاہرکی تاہم وہ ٹیلیفون پردوران گفتگویہ بھی کہتارہاکہ میرےرابطہ کی فاروق صاحب کوخبرنہ ہواس کےاس اندازپرمیرےکان کھڑےہوئےاورمیں اس سےملنےخودلیاقت آباد تھانےچلاگیاوہ تھانےکےباہرہی میرابےچینی سےانتظارکرہاتھامیں اسےایک فٹ پاتھی چائےکےٹھیلےپرلےگیااوراستفسارکیاتواس نےحکیم سعیدکےقاتل کی گرفتاری اوراس کےبعدکےتمام واقعات سےمجھے آگاہ کیااورمیرےضمنی سوال پرکہاکہ ملزم کی گرفتاری میری اطلاع پرہوئی تفتیش میں بھی میرابڑاکردارتھامجھےامیدتھی کہ بطورانعام ترقی دےکراےایس آئی بنادیاجائےگامگراتنےبڑے کیس کاانعام یہ ملاہےمیں اسےدلاسہ دےکرتھانےمیں ایس ایس پی آفس چلاگیافاروق صاحب کابجھابجھاساچہرہ دیکھ کرگن مین کی باتوں پریقین توآگیامگرتصدیق کےلئےانہیں پوراوقعہ کہ سنایاوہ پہلےتوحیران ہوئےپھرپریشانی ان کےچہرےپرعیاں ہوگئی وہ مجھےدوستی کاواسطہ دےکربولےیاراس کی خبرنہ لگاناورنہ جتوئی میراپنڈ رلادےگاوہ پہلےہی مجھ پرشک کرہاہےکہ میں پی پی والوں کےاشارےپراس
کی حکومت گرانےکی سازش کرہاہوں میں نےفاروق امین کوتسلی دی مگرآفس جاکرتفصیلی خبرفائل کردی جس میں وزیراعلی ہائوس کی رئیداد بھی شامل تھی سونےپرسہاگہ یہ ہواکہ وزیراعظم نوازشریف دو روزسےکراچی میں تھے وہ اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں ٹھرے ہوئےتھےاوران کایہ دورہ بطورخاص حکیم سعیدکےقتل کےحوالےسےتھاوہ اسی روزکراچی پہنچےتھےجس روزفاروق امین نےحکیم سعیدکاقاتل پکڑاتھاانھوں نےکراچی پہنچتےہی گورنرہائوس میں اہم اجلاس کی صدارت کی جس میں حکیم سعیدکاقتل مرکزی ایجنڈاتھااس اجلاس میں اہم ملکی خفیہ اداروں نےوزیراعظم کوبریفنگ دی تھی جس میں اس شبہ کااظہارکیاگیاتھاکہ قتل کےڈانڈےایم کیوایم سےملتےہیں وزیراعظم حکیم سعیدکوبہت پسندکرتےتھےان کےبہیمانہ قتل پربہت دکھی تھےوہ اس لئےکراچی آئےتھےکہ حساس ملکی اداروں اورکراچی پولیس کی پیٹھ تھپتھپاسکیں کہ بےشک ایم کیوایم سندھ حکومت کی اتحادی ہےمگرقاتل چاہےکتنےہی طاقت ورہوں انہیں قانون کےشکنجےمیں آناچاہئےاوراس معاملہ میں وفاقی حکومت قاتلوں کوپکڑنےوالوں کےپیچھےکھڑی ہوگی وزیراعلی لیاقت جتوئی گورنرہائوس میں ہونےوالےاجلاس میں وزیراعظم کاموڈ بھانپ چکےتھےاس لئےوہ فاروق امیں قریشی پربرہم ہوئےکہ اگریہ بات وزیراعظم کےعلم میں آگئی تواس کانتیجہ کیانکلےگاجب یہ قتل ہواتوآفتاب نبی آئی جی ایم کیوایم کےکوٹہ پرتھےوزیراعظم کےپاس یہ رپورٹس بھی تھیں جس کی وجہ سے انھوں نےحکیم سعیدکےقتل کےفورن بعد پنجاب پولیس کےمعروف افسررانامقبول کوکراچی بھجوایامگرایم کیوایم کےآئی جی نےانہیں ڈمی پوسٹنگ دےکرایڈیشنل آئی جی لگادیاوہ سارادن دفترمیں مکھیاں ماراکرتےتھےالغرض دوسرےروزخبرچھپی اوروہ بھی امت کی لیڈ توسرکاری حلقوں میں تھرتھلی مچ گئی اورصبح سب سے پہلافون کوئی 8 بجےلینڈ لائن پرفاروق امین قریشی کاآیامیں نیندمیں تھاجونہی فون اٹھایاانھوں نےمجھے بے وقعت سنائیں اوردوست نمادشمن قراردیاجبکہ دوسری طرف ہواکچھ یوں کہ یارلوگوں نےاخبارپورا وزیراعظم کوپڑھ وادیاجس کےبعدانھوں نےمختلف اداروں سےبھی بریفنگ لی لیاقت جتوئی پرسخت برہمی کااظہارکرتےہوئےآئی جی کوطلب کیاوزیراعظم سخت غصہ میں تھےنوازشریف نےآئی جی سےکہاکہ فاروق امین کوبھی فوراً بلایاجائےجونہی وہ پیش ہوئےوزیراعظم نےان کی پیٹھ تھپتھپاتےہوئےخبرکےمتعلق پوچھاتوفاروق صاحب نےڈرتےڈرتےخبرکی توتصدیق کی مگرانہیں وزیراعلی ہائوس طلب کرنےوالےحصہ سےمکرگئےنوازشریف نےان سےپوچھاملزم کی وڈیوہےانھوں نے اثبات میں جواب دیاتووزیراعظم نےان سےکہاکہ وڈیولےکرآئیں وہ جانےلگےتونوازشریف نےفاروق صاحب کی حفاظت کےلئےاپنااسکواڈ ان کےساتھ بھیجاوڈیولائی گئی وزیراعظم نےوہ وڈیوخوددیکھی اوراس کےبعد فوری طورپرایک ہنگامی اجلاس طلب کیااس میں متعدد اداروں پرمشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہےاورپھرشام کووزیراعظم جب واپس جانےکےلئےکراچی ایئرپورٹ پہنچےاورلائین میں لگےافسران سےالوداعی مصافحہ کرتےہوئےرانامقبول کےپاس آئےتوانگریزی میں بولےمسٹر راناآپ اگلےآئی جی سندھ اورفاروق امیں قریشی ڈی آئی جی کراچی ہونگےاورپھر وزیراعظم توچلےگئےپیچھےچہ میگوئیوں کے طویل فسانےچھوڑگئےوہاں سےیہ دونوں افسران اپنی الگ الگ گاڑیوں میں روانہ ہوئےفاروق صاحب ایئرپورٹ سےسیدھےامت کےدفترآئےمیں بھی چندمنٹ قبل ہی پہنچاتھاامت کادفترپہلی منزل پرتھاان کےگارڈنےاطلاع دی کہ فاروق صاحب نیچے کھڑے ہیں اورآپ سےملنےآئےہیں پہلےتومیں یہ سن کرسٹپٹاگیاکیونکہ دن بھرکی صورت حال سےمیں اس وقت تک لاعلم تھاسوچایہ دل کی مزیدبھڑاس نکالنےآئےہونگےسوانکارکردوں لیکن پھراحترام مہمان کےخیال سےنیچےگیاتوفاروق صاحب کی حالت دیکھ کرجھٹکالگاوہ خلاف توقع مجھے اپنی طرف بڑھتادیکھ کرنہ صرف مسکرارہےتھےبلکہ ان کاچہرہ خوشی سےکھلاہواتھامجھے دیکھ کر وہ گاڑی سےباہرآگئےاورآگےبڑھ کرمجھےجذباتی اندازمیں جپھی ڈال کربھینچ لیااورصبح مجھےجوبرابھلاکہاتھااس پرمعذرت کےساتھ اصرارکرکےاپنےساتھ سینٹرل پولیس آفس رانامقبول صاحب کےدفترلےآئےجہاں راناصاحب پہلےسےموجودتھےراستےمیں انھوں نےدن بھرکی روئیدادکاکچھ حصہ سنایابقیہ ان کےدفترجاکرسناتومجھے بھی خوشی ہوئی کہ چلومیری خبرسےایک حقدارکواس کاصحی مقام اورملزم کواس کےکئےکی سزاکابندوبست ہوگیااس طرح دوسرے روزوفاقی حکومت نےسندھ حکومت کومعطل کرکےلیاقت جتوئی کی جگہ سیدغوث علی شاہ کووفاق کامشیرخاص لگادیااورایم کیوایم کےخلاف باقاعدہ آپریشن شروع ہوگیارانامقبول آئی جی اورفاروق امین ڈی آئی جی کراچی تعینات کردئےگئےاس کےبعد ایم کیوایم کےخلاف آپریشن میں بھی تیزی آگئی آئی جی او ڈی آئی جی نےمعمول بنالیاکہ شام کو4/5 بجےدفتر آتےاورصبح 4/5 بجےتک دفترمیں بیٹھتےتھےکیونکہ دہشت گردی کےخلاف آپریشن رات کوہی کئےجاتےتھےاس دوران رات کاکھانااکثرمیں اورفاروق صاحب ان کےدفترسی پی اومیں اکٹھاکھاتےتھےجبکہ کبھی کبھارآئی جی رانامقبول بھی کھانےمیں شریک ہوجاتےلیکن اگران کاموڈ ہوتاتوکھانےکادسترخواں ان کےکمرہ میں ہی لگتاتھااوریہ کھانااکثرکسی ہوٹل سےہی آتاتھاایک روزمیں اورکچھ دیگرپولیس افسرڈی آئی جی کےدفترمیں موجودتھےکہ انہیں راناصاحب کابلاواآگیاوہ مجھےمخاطب کرکےبولےجانانہیں بس میں صاحب کی بات سن کرآتاہوں کچھ دیربعدہی ان کی واپسی ہوگئی مگرخلاف توقع ان کےمتفکرچھرےکودیکھ کرمجھےتشویش ہوئی انھوں نےجلدی جلدی مہمانوں کوفارغ کیااورپھرجب ہم دونوں ہی دفترمیں رہ گئےتورازدارانہ اندازمیں مجھےمخاطب کرکےبولےیاراپنےباس کوبولوکہ وہ عدالت عالیہ سےضمانت کروالےکیونکہ ان کےگھرسےہی جودرخواست ان کےخلاف دی گئی ہےاس میں سنگین نوعیت کےالزامات ہیں آئی جی صاحب کی طرف سےان کومشورہ ہےکہ وہ ضمانت قبل ازگرفتاری کروالیں تاکہ کل اگرکہیں سےدبائوآئےتوہمارےپاس مضبوط عذرہوانھوں نےیہ بھی کہاکہ وہ کراچی آپریشن میں جس طرح تعاون کرہےہیں اس پرہم ان کےاحسان مندہیں اورانھیں اپناحصہ ہی سمجھتےہیں مگراحتیاطاً یہ مشورہ ہےمیں ان سےرخصت ہوکردفترآیاتوسیدھارفیق صاحب کےکمرہ میں گیاوہ اکیلےہی بیٹھےتھےمیں نےآئی جی رانامقبول کاپیغام دیاتووہ پریشان ہوگئےاورغصہ سےبولےیہ لوگ بھی بدل گئےمیں نےانہیں پیغام کی تفصیلات بتائیں توان کاغصہ جاتارہامیں واپس اپنی ڈیسک پرآکرخبریں فائل کرنےلگاکہ کچھ ہی دیربعدان کابلاواآگیامیں پھران کےسامنےکھڑاتھاوہ مسلسل پریشانی کی وجہ کچھ زیادہ ہی ٹینشن لےرہےتھے الجھےہوئےلہجہ میں بولے آپ صبح کتنےبجےآسکتےہیں میں نےکہاجب آپ کہیں تووہ بولےصبح 8 بجےدفترآجائیں میں نےحامی بھرلی بولےآپ میرےساتھ عدالت چلیں گےجہاں ضمانت داخل کرنی ہےاوریوں صبح میں دیئےگئےوقت پران کی جیپ میں بیٹھاتھاجوعدالت کی طرف فراٹے بھرتی جارہی تھی انھوں نےپریشانی کےعالم میں اپناسراگلی سیٹ کی پشت سےٹکاتےہوئےخودکلامی کےاندازمیں کہاآج میں سوچ رہاہوں کہ رب نےمجھے کیاسے کیابنادیامیں اس شہرکےاہم لوگوں میں سےہوں لاکھوں لوگ میرے مداح ہیں مجھ سےوالہانہ پیارکرتےہیں اکثربڑےفیصلوں میں میری رائےلی جاتی ہےجبکہ والدیں نے ہندوستان سےہجرت کی تولیاری میں ایک ٹوٹاپھوٹاکواٹرملاہم سب بہن بھائی اسی میں پلےبڑھےکواٹرکادروازہ بھی نہ تھاوالدصاحب نےکہیں سےٹاٹ کاپردہ حاصل کیاجوکچھ عرصہ بعدپھٹ گیابدلنےکی بھی سکت نہ تھی والدہ پردےکی پابند اورتہجدگذارتھیں انہیں بےپردگی بلکل بھی پسندنہ تھی وہ پریشانی سے ایک روزرونےلگیں جس پرمیں نےکہیں سےبمشکل پردہ حاصل کرکےلگایاوہ بات جاری رکھتےہوئےبولےپرائمری میں تھےتوکئی باراس لئےاسکول نہ جاسکےکہ کتابیں تختی اورسلیٹ خرینےکےپیسےنہ ہوتےتھےاورآج میرےپاس کیانہیں ان کی بات جاری تھی کہ عدالت آگئی جہاں رفیق صاحب کےانتہائی قابل اعتماددوست اورممتازوکیل خواجہ نوید اورطارق شاداب ان کےمنتظرتھے،امت سےعلیحدگی کی وجہ بھی رفیق صاحب کی ضدی طبیعت بنی حالات نےکروٹ لی آرمی چیف پرویزمشرف نےاقتدارپرقبضہ کرلیاوزیراعظم سمیت تمام اہم لوگ گرفتارکرلئےگئےسندھ میں بھی بجلیاں انہیں آشیانوں پرگریں جوکسی بھی حوالہ سےنوازکیمپ میں شمارکئےجاتےتھےآئی جی اورڈی آئی جی کوبھی حراست میں لےلیاگیااورامت میں ان کےخلاف توہین آمیز اسٹوریاں چھپنےلگیں جس پرمیں نےکئی باراحتجاج کیامگررفیق صاحب کاروائتی جواب ہوتااوہ۔۔میں دیکھتاہوں مگردوچار روزبعد پھروہی ہوتاجبکہ ڈی آئی جی فاروق کاہم سب پرایک ایسااحسان بھی تھاکہ اگراس کی قلعی کھل جاتی تووہ جیل بھی جاسکتےتھےاورنوکری بھی ہواکچھ یوں کہ ایک روزمیں فاروق صاحب کےساتھ ان کےدفترمیں تھاکہ رات کوکوئی 8/9 بجےکےقریب رفیق صاحب کافون آیاوہ بہت غصہ میں لگ رہےتھےانہوں نےکہاکہ وہ اپنی ایک عزیزہ مہمان کولینےایرپورٹ گئےتھے
جہاں تھانہ کےکچھ اہلکاروں نےان سےبدتمیزی کی ہےان کےخلاف فوری کروائی کروائیں میں نےموبائل ڈی آئی جی کوتھمادیاان سے بھی رفیق صاحب نےیہی بات کی توڈی آئی جی بھی پریشان ہوگئےسمجھ میں ہم دونوں کےیہ نہیں آرہاتھاکہ رفیق صاحب جیسےبڑےآدمی سےسپاہی بدسلوکی کیسےکرسکتاہےبہرصورت فاروق صاحب نےایس ایچ اوایرپورٹ چیمہ کوکال کی اوراس سےواقعہ کےمتعلق فوری رپورٹ طلب کی اس نےبتایاکہ وہ اسنیپ چیکنگ پرہےابھی تھانےجاکرواقعہ معلوم کرکےبتاتاہےاورتھوڑی دیربعدہی اس کی جوابی کال آگئی اس کےتفصیل بتانےپرڈی آئی جی مخمصےمیں پڑگئےاورمجھےمخاطب کرکےبولےیاریہ مسلہ توبڑاگڑبڑ ہوگیاہےایس ایچ اونےانہیں بتایاتھاکہ ایرپورٹ ڈیوٹی پرتعینات دوسپاہیوں نےروزنامچہ میں انٹری کی ہےکہ دوران گشت انہوں نےایرپورٹ کےسامنےپارک میں ایک مرداورعورت کولڑتےدیکھاوہ ان کےقریب گئےتوعورت نےجواپنےآپ کوپی آئی اےکی ملازمہ بتارہی تھی ہم سےمددطلب کی ہم نےاس کی مددکرناچاہی تومردنےہمیں برابھلاکہااوردھکیاں دیں وہ اپنےآپ کوامت اخبارکاایڈیٹربتارہاتھااورہمیں دھمکیاں دیتاہوا وہاں سےچلاگیافاروق امین نےایس ایچ اوکوروزنامچہ سمیت ہیڈآفس طلب کرلیااوراس کےپہنچ نےپر روزنامچہ میں سےوہ صفحہ ہی غائب کردیابعدمیں اس کی روئداد رانامقبول کومعلوم ہوئی تومجھےمخاطب کرکےاپنےمخصوص اندازمیں ہنستےہوئےبولے
جےاےروزنامچہ تکبیروالیاں دےہتھےلگ جاندا تےاونھاں دی تےبلےبلےہوجاڑیں سی (یہ رونامچہ تکبیروالوں کومل جاتاتوان کی یویو ہوجانی تھی)واضع رہےکہ ان دنوں تکبیرکاسب سےبڑامشن ہی رفیق صاحب کی کردارکشی تھی ایسےمحسنوں کےخلاف اس اخبارمیں تواترکےساتھ خبریں چھپناجس میں میری سینیرپوزیشن تھی میرےمزاج کےبرعکس تھامیں نےزندگی میں دوستیاں اورتعلقات ہی کمائےہیں اورمیرےنزدیک یہ قدرت کامیرےلیےانمول تحفہ ہےمیں نےاس دوران کئی مرتبہ استعفی کی کوشش کی مگرمیرےمحترم ایڈیٹرنےاسےہربارمستردکردیامگر دل برداشتہ توتھاہی ایک روزرات کوخبریں فائل کرنےکےبعداستعفی لکھالفافہ میں ڈال کہ سربمہرکیااورسیف صاحب کوتھماکرنکل گیامجھےمعلوم تھاکہ رفیق صاحب استعفی قبول نہیں کریں گےسواس لئےمیں نےپہلےسےگلوبھائی کوکہ کرسکھرایکسپریس میں سکھرکی بکنگ کروائی ہوئی تھی بچوں کولےکرایک ہفتےکےلیےسکھرچلاگیااوریوں عازم سکھرہونےکےساتھ امت کاسفرتمام ہوا،
آج جب یہ سطریں لکھ رہاہوں توسوچ بھی نہ سکتاتھاکہ اپنی زندگی میں ان کی رحلت پرکچھ لکھنےکی نوبت بھی آئےگی کاش یہ وقت نصیب میں نہ ہوتامحترم رفیق افغان آپ بہت اعلی پائےکےبےمثل قلمکارتھےآپ مجھ سمیت اپنےہزاروں یاشایدلاکھوں چاہنےوالوں کواداس کرگئے آپ تاریخ بنانےوالوں میں سےتھےتبھی آپ کراچی بدل گئےوہ خون میں نہایاکراچی آج پھرامن کاچوغہ اوڑھےروشنیوں کاشہربننےجارہاہےکاش یہ سب آپ اپنی آنکھوں سےدیکھ سکتےبلاشبہ مستقبل کامورخ آج کےکراچی کی تصویرکشی کرےگااوراس بدلےکراچی کاسہراکسی کےماتھےپرسجائےگاتوآپ تاج پہنےسب سےنمایاں ہونگےآپ کی بےوقت موت پردل بہت اداس ہےپوری تحریرمیں کہیں مرحوم نہیں لکھ سکاآپ بچھڑگئےمن ماننےکوتیارنہیں میری آنکھیں آپ کودیگرچاہنےوالوں کی طرح خراج عقیدت پیش کرہی ہیں آنسوہیں کہ تھمنےکانام نہیں لےرہےمگریہ سچ ہےاورزندگی کی ننگی حقیقت کہ اب آپ ہم میں نہیں رہے،خداحافظ قابل احترام رفیق افغان مرحوم۔۔۔(آغا خالد)