تحریر: آغا خالد۔۔
بےباک صحافت کالفظ بچپن سےسنتےآئےتھےمگراصل مفہوم 1997 میں روزنامہ امت میں شمولیت کےبعدسمجھ آیاجب امت گروپ کےبانی محترم رفیق افغان سےواسطہ پڑاان دنوں کراچی خون میں نہایاہواتھاہر روز 250 سے 300 لاشیں گرتی تھیں اوران کی اکثریت کاجوعالم ہوتاتھاوہ روح لرزادینےوالااورانسانیت کےمنہ پرطمانچہ تھاگلےکٹےہوئے،کپڑےتارتار،آنکھیں نوچی ہوئی، زبانیں کان کٹےہوئے،ہاتھ پائوں شل،ناخن کھینچےہوئے،پھانسیاں لگی ہوئی، پھندےلٹکےگلے، سراورجسم میں ڈرل کےسوراخ،خون میں لتھڑے انسانی لاشے، کٹےہوئےنازک اعضاء اورزبانیں، بگڑےچہرے،گولیوں سےچھلنی ادھورے جسم ،کہیں ٹانگ کہیں بازوکسی کاسرکسی کادھڑ،الغرض وجوداول انسان کےوحشت کےتمام آزمائےحربےجانےکس کتاب سےپڑھ کران درندوں نےاستعمال کئےتھےشہرمیں جابجاکھدےمورچےاورسرنگیں بلندعمارتوں پرجدیداسلحہ سےمسلح نوجواں جن کےاذہان تقسیم درتقسیم کی تربیت سےنفرت سےبھرےتھےیہ تھا 1997 کاکراچی۔۔اورپھراس کی اگلی قسط قانون کی بحالی انصاف کی فراہمی اورتقدیس انسانیت کےنام پرشروع کئےگئےپولیس رینجرزکےبدنام زمانہ کراچی آپریشن نےپوری کردی جس نے کراچی میں ایم کیوایم کی مسلح مزاحمت کےخلاف شروع کئےگئےکراچی کےپہلےآپریشن 1992 کی تاریخ دھوراتےہوئےملزم مجرم اورکارکن کوایک ہی صف میں کھڑاکرکےبدترین سفاکیت کےمظاہردھورائےاس نےنفرتوں کی آگ کوجہنم کی آگ میں بدل دیااوران آپریشنز کےدوران قانون کےرکھوالوں کی لاقانیت کےمسلسل استعمال کےسبب ہی ”ماورائےعدالت قتل“ کی مشہوراصطلاح ایجادہوئی اورایسےخوف ناک ماحول میں میں نےمحترم رفیق افغان کی خواہش پر”امت“ کی دنیامیں قدم رکھابلکہ یہ کہنابجاہوگاکہ میری امت میں انٹری انہونی تھی کیونکہ ان دنوں میں روزنامہ پبلک سےوابستہ تھااوراورادارہ میں شروع دن سےمالی کرائسزکےسبب اکلوتاسیاسی رپورٹرتھاپبلک سرکولیشن کےاعتبارسےان دنوں صوبےکاسب سےبڑااخبارتھاملک کےمایہ نازصحافی دانشورانورسن رائےکی ادارت میں اس اخبارکےعلی الصبح سےدوپہرتک 5 ایڈیشن شائع ہوتےتھےجبکہ چھٹا ایڈیشن پبلک ایوننگ کےنام سےسہ پہرکوشائع ہوتاتھااوراس کےجوائنٹ ایڈیٹرکراچی پریس کلب کےموجودہ صدراورجنگ انٹرنیٹ ایڈیشن کےایڈیٹرفاضل جمیلی تھےجبکہ ممتازصحافی اورروزنامہ عوام کےسابق ایڈیٹرنذیرلغاری ہمارےنیوزایڈیٹرتھے انورسن رائےکاایک اوربڑااعزازکراچی سےکئی کامیاب اخبارات کااجراءبھی تھااورشایداب ان سےیہ اعزازقیامت تک کوئی چھین بھی نہ سکے پبلک انور سن رائےکی ادارت میں 1992 میں اس دن نکلاجس دن ایم کیوایم کےبانی چیرمین عظیم احمدطارق کوشہیدکیاگیااورپہلےدن سےاس کی پالیسی ایم کیوایم کی حمایت اوراس کےخلاف جاری فوجی آپریشن مخالف تھی جبکہ ان دنوں نوازشریف وزیراعظم تھےاوران کی ہدایت پرآپریشن شروع ہواتھامگر”پبلک“ نوازحکومت کازبردست حمایتی ہونےکےباوجودکراچی آپریشن کابدترین مخالف تھااخبارکی پالیسی کومدنظررکھتےہوئےمیری پبلک میں آئےروزایم کیوایم کی حمایت میں بڑی اسٹوریاں چھپتی تھیں مگررفیق افغان اس کےباوجودمجھےاپنےادارہ میں دیکھناچاہتےتھےاوران کاپیغام ایک سےزائدبار”امت“ کےاس وقت کےنیوزایڈیٹراورمیرےپیارےدوست عامرشیخ (اےآروائی)کےذریعےمل رہاتھامگرپبلک چھوڑنےپرمیں ذہنی طورپرتیارنہ تھاپھراچانک ہی پبلک کےحالات چندماہ میں بدل گئےمالی بحران کےساتھ یونین تگڑی ہوگئی اورپبلک کےانتہائی قابل احترام اورشریف النفس مالک انقلاب ماتری اوریونین کےدرمیان کشیدگی نےبےہودگی کی آخری حدوں کوچھوناشروع کردیایہ سب میرےمزاج کےبرعکس تھاایسےہی کشیدہ ماحول میں ایک روزبعدنمازمغرب دفترکےادارتی ہال میں یونین اورماتری صاحب کےدرمیان ہونےوالی میٹنگ کے شرمناک مکالمےنےمجھےعجیب سی بےیقینی میں مبتلاکردیااوردل پرجبرکرکےمیں نےخبریں فائل کیں ہمارادفترشیخ سلطان ٹرسٹ بلڈنگ کےتہ خانہ میں تھااورخبروں سےفارغ ہوکرشیخ سلطان ٹرسٹ بلڈنگ کےتہ خانہ سےنکل کرپیدل ہی آوارہ گردی کرتاہواآئی آئی چندریگرروڈپرمشہورزمانہ ریسٹورنٹ خیرآبادپہنچ گیاپریشانی نےاس قدرگھیراہواتھاکہ موٹرسائکل بھی نہ لی اورخالی الذہن ایک خالی ٹیبل پربیٹھ کرچائےاورسردردکی گولی منگوائی چائےکی چسکیوں کےساتھ دفترکےروز بروزبگڑتےحالات اوراپنےمستقبل بارےسوچنےلگاپھراچانک ذہن جومائوف تھانےکام کرناشروع کردیامجھےعامرشیخ کی یادستانےلگی اورچائےختم کرکےمیں ہوٹل کےبرابرپی سی اومیں گیااورعامرشیخ کووسواس کےساتھ کال ملادی کیونکہ آخری رابطہ ہوئےبھی ایک ماہ ہوگیاتھااس لئےتوقع کم تھی کہ امت جیسےمعروف اخبارمیں جگہ ابھی خالی ہوگی دوسری طرف کال ملتےہی میرےتعارف کےساتھ ہی عامرشیخ کالہجہ پرجوش ہوگیااوراس نےفورن دفترآنےپرزوردیاتومیں واپس شیخ سلطان ٹرسٹ پہنچاوہاں سےاپنی موٹرسائکل اسٹارٹ کی اورنیوچالی پہنچ گیاجہاں نامکوسینٹرمیں امت کادفترتھاعامرنےمجھےہاتھوں ہاتھ لیااوراگلےلمحےمیں ملک کےاس مایہ نازاورجرئت مندانہ صحافت کےمعروف ایڈیٹر رفیق افغان کےسامنےتھاوہ چھ بائی آٹھ فٹ کےمختصرسےکمرہ میں بیٹھےتھےان کی کرسی کےآگےایک چھوٹی سی میزتھی اوردوسری طرف دوکرسیاں ایسےرکھی تھیں کہ انہیں خوداپنی کرسی تک پہنچ نےکےلئےآڑھاٹیڑھاہوکرگزرناپڑتاہوگامجھےکرسی پربٹھاکرعامرباہرچلےگئےاوررفیق صاحب نےاپنےمخصوص اندازمیں مجھےخوش آمدیدکہتےہوئےایک پیڈمیری طرف بڑھاتےہوئےکہاکہ آپ کوئی خبرفائل کریں جوصبح آپ کےنام سےچھپےاورلوگوں کوپتہ چلےکہ آپ امت ٹیم کاحصہ بن چکےہیں میں حیرانی سےانہیں تک رہاتھاکہ نہ تنخواہ نہ دیگرمعاملات طےپائےمیں کیسےخبرفائل کردوں مگرادھربھی رفیق افغان تھےجن سےذہانت بھی پناہ مانگتی ہوگی انھوں نےبڑی شفقت سےکہابھائی ےباقی معاملات آپ کی مرضی سےطےہونگےمگرآج سےآپ امت ٹیم کاحصہ ہیں بس خبربنائیں میں ان کےخلوص کےآگےڈھیرہوگیااورخبرفائل کرکےگھرچلاگیادوسرےروزصحافتی حلقوں میں بات پھیل گئی اورمیں جب شام کودفترپہنچاتورفیق صاحب نےمجھے اپنےکمرہ میں بلایااورتقرری کالیٹرتھماتےہوئےکہاکہ یہ ٹھیک ہےورنہ ایڈمن میں جاکراپنی مرضی کالیٹربنوالیں میں لیٹرپڑھ کرمطمئن ہوگیاتھاجونہی شکریہ ادا کیاتورفیق صاحب حسب عادت بولےآج بڑی خبرکیاہےمیں نےمختصرً بتایاتووہ میراہاتھ پکڑکرباہرلائےاوربڑی محبت سےمجھے رپورٹنگ ڈیسک پرجگہ الاٹ کرتےہوئےنیوزڈیسک کومخاطب کرکےمجھےچیف کرائم رپورٹربنانےکااعلان کیااوریوں ہم امت کاحصہ بن گئےابھی مجھےامت میں شامل ہوئےتین یاچارروزہی ہوئےتھےکہ ایک روزشام کودفترپہنچتےہی میرےدلبرجانی عامرشیخ نےکہاکہ بڑی گڑبڑ ہوگئی ہےمیں نےتفصیل جانناچاہی توبولےفرصت میں بات کریں گےان کےلہجہ کی تشویش محسوس کرکےمیں بھی پریشان ہوگیامگرواقعی وہ وقت بڑی مصروفیت کاتھاکیونکہ شام 6 بجےسےشب 11 بجےتک نائٹ نیوزڈیسک انچارج اورنیوزایڈیٹرکی مصروفیات دیکھنےسےتعلق رکھتی ہیں انہیں سرکھجانےکی بھی فرصت نہیں ہوتی اوران اوقات میں میں نےکئی نیوزایڈیٹرزکواپنی بیگمات سےالجھتےدیکھاہےچاہےرات گئےگھرپہنچنےپرانہیں بھوکاسوناپڑاہومگریہ اوقات ان کےلئےبہت ہی اہم ہوتےہیں اس لئےمیں نےبھی زیادہ اصرارنہیں کیااورمیں بھی خبروں میں مصروف ہوگیاتھوڑی دیرہی گزری تھی کہ محترم رفیق افغان کےمصاحب خاص باقی(جوان کےمحافظ تھےاورہروقت مسلح رہتےتھے)نےپیغام دیااورمیں جونہی رفیق صاحب کےکمرہ میں داخل ہواتومجھےان کےچہرہ پرطاری سنجیدگی اورغصہ دیکھ کرکچھ پریشانی ہوئی اورفکرمعاش نےچندلمحوں میں وسواس کےکئی ٹوکرےمجھ پرانڈیل دئےمگرانھوں نےنرم لہجہ میں بیٹھنےکوکہاتو میرےایڈیٹرکےلہجہ میں وہی خلوص اوراپنائیت محسوس کرکےکچھ سکون ملاانھوں نےمیرےبیٹھتےہی سوال داغ دیاکچھ پتہ چلاآپ کودفترمیں گزشتہ دودنوں میں کیاکچھ ہوا ہےمیں نےحیرانگی سےانہیں دیکھااورنفی میں سرہلادیابولے مبشرفاروق ئاوراکبرگروپ کومیں نےفارغ کردیاہےمیرےلئےیہ اطلاع کسی بم سےکم نہ تھی کیونکہ جب میں امت میں نہیں تھاتوبھی میں ان کی خبریں دلچسپی سےپڑھاکرتاتھاوہ بلاکےذہیں اورقابل رپورٹرہی نہیں تحقیقی صحافت کابڑانام تھے اورلکھنےکےفن میں بھی یکتاتھےمیرے اس زمانےمیں پسندیدہ رپورٹرزکےساتھ ایساسلوک مجھےپسندنہیں آیاتورفیق صاحب نےفورن کہاارےبھائی آپ کوبتانےکامقصدیہ ہےکہ ان لوگوں کوآپ کی وجہ سے نکالاہےمیں ان کی بات پرابھی پوری طرح حیران بھی نہ ہوسکاتھاکہ انھوں نےایک اوردھماکہ کردیابولےبھائی انہیں آپ کاادارہ میں آناپسند نہیں تھاوہ مجھے مسلسل بلیک میل کرہےتھے کہ آپ کوفارغ کردوں، مجھےبہت ہی حیرت ہوئی کہ انہیں آخرمیری ادارہ میں شمولیت پرکیوں اعتراض تھااس وقت تک مبشراوران کی ٹیم امت کی بیک بون سمجھے جاتےتھے اورسچ تویہ ہےکہ وہی ادارہ کی مقبولیت کابڑاسبب تھے اوران کی رپورٹنگ نےامت کودوسرےاخبارات سےمنفردبنادیاتھااورعام قارئین نےان کےاس انداز کوقبولیت بھی بخشی تھی 6 سے8 افرادپرمشتمل ان کی ٹیم کےلوگ براہ راست رپورٹنگ نہیں کرتےتھے ان کےلئےدفتر میں الگ کمرے مختص تھے وہ مخصوص تحقیقی اسٹوریز پرکام کرتےتھےجن کامقصد ایم کیو کی سفاکیت کااصل چہرہ عوام کودکھانامقصودتھااورقارئین نےان کی ایسی کوششوں کوپسندکیاتھایہی وجہ تھی کہ امت اخبارتھوڑےہی عرصہ میں مقبولیت کی بلندیوں کوچھونےلگاتھاجبکہ مجھےان کے کام کےبرعکس روزمرہ کےجرائم کی خبروں کی رپورٹنگ سونپی گئی تھی میراان کاکوئی مفادات کاٹکرائوبھی نہ تھامگرپھربھی ان کےایسےمطالبےپرافسوس ہوارفیق صاحب نےیہ سب بتانےکےبعدکہاکہ اب آپ پربھاری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں اورآپ نےمیرے اعتماد پرپورااترناہےتاکہ کل مجھے ان لوگوں کےسامنےشرمندہ نہ ہوناپڑے اوریوں اس سفرکاآغاززبردست چیلنجزکےساتھ شروع ہوارفیق افغان صاحب کی زندگی گزارنےکاطریقہ بھی ان کی پیشہ ورانہ اندازکی طرح منفردتھاوہ لئےدیئےرہتےزیادہ میل جول انہیں پسندنہ تھااورنہ ہی وہ محفل کےبندےتھےاپنی حفاظت کےحوالےسےبہت حساس اورتھوڑی سی خودپسندی بھی تھی اوراگران کےرہن سہن اوربرتائوپرمختصرتبصرہ ضروری ہوتوتین الفاظ کاملاپ ”ڈان“ مکمل تصویرکشی کرتاہےوہ ”میرےساتھ یاپھردشمن“ کی تھیوری کوپسندکرتےتھےاسی تھیوری کےتحت ان کےدوست بھی چنیدہ اورمختصرترین تھےممتازقانون داں خواجہ نویدایڈوکیٹ،ممتازسماجی کارکن اورصحافی طارق شاداب،پروہ بہت اعتمادکرتےتھےاورآخرتک وہ رفیق افغان کےقریب سمجھےجاتےتھےجبکہ جنرل حمیدگل کواپنےوالدیااتالیق کی جگہ دیتےتھےان کےدوست یادشمن کی اسی تھوری کےتحت جب مبشرفاروق اوراکبر کوادارہ سےعلیحدہ کیاگیاتوان کےساتھ کام کرنےوالےجونیر(بچہ جمہورا)ٹیم کوبھی نہ صرف فارغ کردیابلکہ حسب سابق دفترمیں ان کےداخلہ پربھی پابندی عائدکردی گئی اس لئےاگلےروزشام کومیں جب دفترپہنچاتوگیٹ پرمجھےان لڑکوں نےگھیرلیاجن کارفیق صاحب نےداخلہ بندکیاتھاان بیچاروں کےساتھ مثل ”سرمنڈاتےہی اولےپڑے“ والی ہوگئی تھی اور وہ نئی صورت حال کےمطابق کام کرنےاوراپنی وفاداریاں ادارہ سےوابستہ کرنےکےحلفیہ مکالمےبول رہےتھےمجھے بھی ایک توان پرترس بھی آیااوردوسرامجھے ان کی ضرورت بھی تھی سومیں نےسوچاباہرسےبھرتی کرنےکی بجائےان بچوں کومعافی دلواکراپنی ٹیم کاحصہ بنالیاجائےجوایک عرصہ سےوابستگی کےسبب ادارہ کی پالیسی اوررفیق صاحب کےمزاج آشنابھی ہوگئےتھےمگریہ اتناآسان نہ تھاکیونکہ رفیق صاحب کاضدی مزاج۔۔۔۔بہرصورت میں نےحتی المقدورکوشش کرکےپہلی مرتبہ رفیق صاحب کوان کےاصول توڑنےپرمجبورکیایہ ان کی شفقت تھی کہ مجھ جیسےادارہ میں نوآموزکوانھوں نےاتنااعتمادبخشااورپھروہ لڑکےآخرتک میری ٹیم کاحصہ رہےاورتین میں سےدونےمجھےہمیشہ اعتماد و فخردیامگرایک حضرت علی کےاس مشہورقول کی تصویربناکہ جس پراحسان کرواس کےشرسےبچو،صحافت کاسفرجاری تھاکہ ایک روزمجھےاپنی اوراپنےبچوں کی حفاظت کی خاطرفریادی بن کررفیق صاحب کےسامنےکھڑے ہوناپڑایہ میری زندگی کاعجیب اورندامت بھرالمحہ تھامگرحقیقت یہی تھی جومیں بیان کرنےچلاہوں مگراس کی تفصیل سےپہلےیہ بتاتاچلوں کہ میں ان دنوں لائنزایریامیں تھانوی مسجدکےسامنےواقع دوکمروں کےچھوٹےسےفلیٹ میں کرایہ پررہتاتھااس غریب پرورشہرمیں زندگی سنوارنےکی جہدمسلسل کایہ آغازکہاجاسکتاہےیہ فلیٹ قائدعوام ذوالفقارعلی بھٹونےسرکاری ملازمیں کےلئےبنوائےتھےکہاجاتاہےکہ کراچی میں اس وقت تک لوگ فلیٹس سےناآشناتھےاوران میں رہناپسندنہیں کرتےتھےبعدازاں یہی فلیٹس سرکاری ملازمیں کومالکانہ حقوق پرالاٹ کردئےگئےتھےہمارافلیٹ جس بلاک کی پہلی منزل پرواقع تھااس کےسامنےایک بڑاگرائونڈ ہےاوراس گرائونڈکےدوسری طرف ایم کیوایم حقیقی کاعلاقائی دفترتھاجس کالائنزایریاپرقبضہ تھاواضع رہےکہ ہمارےآقائوں کی پالیسیوں کی بدولت ان دنوں کراچی تیں حصوں میں تقسیم تھاشہرکاایک بڑاحصہ لسانی بنیادوں پرمہاجراورغیرمہاجرمیں بٹاہواتھااورپھراردوبولنےوالی آبادیاں ایم کیوایم الطاف یاایم کیوایم حقیقی میں تقسیم تھیں اورمسلح کارکنوں کےپہرےداری سسٹم اورایک دوسرےکےکارکنوں کواغواکرکےبہیمانہ طریقہ سےقتل کرنےکی وجہ سےان آبادیوں میں کشیدہ ماحول نےمستقل ڈیرےڈال لئےتھےایسےمیں ایک نوآموزصحافی کی رہائش حقیقی کےمقامی کارکنوں میں ناپسندیدہ تھی ہی مزیدسونےپرسہاگہ یہ ہواکہ امت میں کرائم ڈیسک کےانچارج ہونےکی وجہ سےاکثرتھانیدارپولیس کی موبائلوں میں آتےتھےاورگھنٹوں موبائلیں گھرکےنیچےیاگرائونڈ میں کھڑی رہتی تھیں حقیقی کےاٗچکےقسم کےلچےاس پروقتاًفوقتاًچھوٹےموٹےناپسندیدگی کےتاثرات دیتےرہتےتھےمگرایک روزسہ پہرکوخبروں کی تلاش ختم کرکےحسب عادت سہ پہرکاکھاناگھرپرکھانےپہنچااورمیں نےجونہی گھرکےنیچےموٹرسائکل کھڑی کی دولونڈےآڑھےٹیڑھےایکشن دیتےمیری جانب بڑھےاورمجھےترش لہجہ میں مخاطب کرتےہوئےاپنےمقامی وڈیرےکانام لےکربولےتمھاری طلبی ہوئی ہےمجھےناگوارتوبہت گذرامگرمیں نےان کےنیفوں سےجھانکتےپستول کودیکھ لیاتھاشایدپستول کاایک حصہ انھوں نےمجھے دکھانےکےلئےہی نیفےسےایسےباہررکھاتھاکہ قمیض بھی اسے چھپانےمیں ناکام رہاتھامیں نےبڑےتحمل سےان سےاستفسارکیاکہ مجھےکہاں جاناہوگاانھوں نےگرائونڈ کےاختتام پربنی چوکیدارکی کٹیاکی طرف اشارہ کیاجس سےمتصل کچھ کرسیاں رکھی تھیں اوران میں سےایک کرسی پرایک گبرسنگھ نماشخص سفیدکاٹن کااجلاسوٹ پہنے ٹانگیں پھیلائےبیٹھاتھاجبکہ کچھ نوجواں اس کے اردگردکچھ فاصلہ سےیوں کھڑےتھےکہ بھائی گبرپرہونےوالےمیزائل حملےکووہ سرعت سےاپنےکاندھوں سےروک لیں گےجبکہ ایک ادھیڑعمرشخص گبرکی مالش کرہاتھامنظربہت ہی ناپسندیدہ اورریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیداکرنےوالاتھامیں نے ان دونوں لڑکوں سےکہاکہ وہ چلیں میں منہ دھوکرآتاہوں اوران کےجواب یاردعمل سےپہلےہی سیڑھیاں پھلانگ کرگھرمیں داخل ہوگیامگرابھی بمشکل آدھاگھنٹہ ہی گذراہوگاکہ دروازےپرزور زورسےدستک ہوئی کام والی بچی نےمیری طرف اشارہ کرکے بتایاکہ گبرسنگھ ان کوبلارہاہےاس کےبندےآئےہیں میں نےپھرانہیں ٹال دیاکہ کھاناکھاکرآتاہوں ان کابلاواسن کرمیری بیگم بھی پریشان ہوگئیں جبکہ میں اپنی مسلسل بےعزتی پرعجیب سی بےبسی محسوس کرہاتھااب صورتحال ایسی ہوچکی تھی کہ یاتوگبرکےدربارمیں حاضری دوں یاپھرراہ فراراختیارکروں قبل اس کےکہ مجھےباقاعدہ گھسیٹ کرلےجایاجائےمیں نے گیلری سےجائزہ لیاپیغام دینےوالےلڑکےگبرکےگردکھڑے تھےمیں نےبیگم کوتاکیدکی وہ دروازہ ہرگزنہ کھولےاور تیزی سےنیچےاترااورسرعت سےموٹرسائکل اسٹارٹ کرکےلائنزایریاسےنکل گیااورسیدھادفترپہنچارفیق صاحب بھی مجھ سےچندمنٹ قبل ہی دفترپہنچےتھے میں سیدھاان کےکمرہ میں چلاگیاچہرہ شناس میرےبوس مجھےدیکھ کرپریشان ہوگئےاورفورن بولےخیریت میں نےسارااحوال کہ سنایاان کاچہرہ غصہ سےسرخ ہوگیااوربولےآپ اپناکام کریں اسے بھول جائیں میں ان کابندوبست کرتاہوں اورپھررات کےآخری پہرمیں جب ڈرتےڈرتےاپنےگھرکےسامنےموٹرسائکل کھڑی کرنےلگاتوگبرسمیت اس کی ساری چنڈال چوکڑی میرےگھٹنےپکڑےکھڑی تھی اورجب تک میں نےمعاف نہیں کیاوہ ہلنےکوبھی تیارنہ تھےاوراس کےبعدجب تک میں اس علاقہ میں رہاان فلیٹس کاسب سےمعزز بندہ میں ہی تھادوسری واردات اس سےبھی زیادہ خطرناک تھی اگررفیق افغان جیسابہادرایڈیٹرنہ ہوتاتواس کی سزامجھےنانی یاددلادیتی ہواکچھ یوں کہ کراچی ائرپورٹ پر 1998 میں انڈیاسے کچھ سامان اسمگل کرکے لانےوالی ایک مسافرخاتون کوکسٹم نےحراست میں لےلیااورکچھ اہم اشیاء کی برآمدگی کی وجہ سےاس کےخلاف مقدمہ بھی درج کرلیاگیامگراس دوران ایک ادارہ کےافسراسےزبردستی چھڑاکرلےگئےوجہ اس کی بعدمیں یہ پتہ چلی کہ وہ خاتون انڈیاسےاس ادارہ کےلئےتازہ اخبارات ورسائل لاتی تھی جوان کے کام کےہوتےہونگےاس کےعوض یہ اس کےکالےکرتوتوں کو تحفظ فراہم کرتےتھےاس طرح گاڑی کےدوپہیےرواں دواں تھےکہ کسٹم کےکسی عاقبت نااندیش افسرنےرنگ میں بھنگ ڈال دی توردعمل توآناہی تھااس لڑائی جھگڑے کی مقدمہ نمبرسمیت تفصیل ہمیں مل گئی کہتےہیں ہوش پرجوش کےغلبہ کانام جوانی ہےسوہم بھی جوانی کی رو میں خبرفائل کربیٹھےاورستم یہ ہواکہ اس میں خاتون اس کےکام کی تفصیل کےساتھ ادارہ کےافسرکانام اورتفصیلات بھی لکھ ماریں اوربالائےستم کہ وہ چھپ بھی گئیں بس پھرکیاتھاہم ملک دشمن ٹھرےسارادن مختلف ذرائع سےدھمکیاں ملتی رہیں شام کودفترپہنچاہی تھاکہ دوتین غصیلےکردارکڑاکےدارآواز میں دھمکاتےرفیق صاحب کےکمرہ میں چلےگئےجاتےتوسب نےدیکھے اورپھرکافی دیرتک شورشرابےکی آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں امت کےشریف النفس آپریٹرسیف بھائی ہمیں منٹ منٹ کی اندرکی کہانی بھی سناتےرہےکہ آنےوالےافسران ہمیں حراست میں لیناچاہتےہیں اوررفیق صاحب جواپنےملازمین کےحقیقی رفیق تھےڈٹےہوئےہیں کہ سوال ہی پیدانہیں ہوتا میرےرپوٹرکوتم گرفتارکرکےلےجائووہ بھی میرےدفترسےایک آدھ گھنٹےکےبحث مباحثےکےبعدگرفتاری کےلئےآنےوالی ٹیم نامرادواپس لوٹ گئی مگرجاتےہوئےبھی انھوں نےجس طرح کرائم ڈیسک کی طرف نفرت سےدیکھااوراپنےادھورےمشن کاغصہ مجھ پربذریعہ گھورتی آنکھوں نکالنےکی کوشش کی وہ میں آج تک بھولا نہیں کمال کاظرف یہ دیکھاکہ رفیق افغان صاحب نےکبھی اس کاخودسےذکرنہیں کیاکچھ دن بعدمیں نےاس پربات کرناچاہی توانھوں نےاس پرشیخیاں بگھارنےکی بجائےمخترًکہاوہ تمھیں لیجاناچاہتےتھےمگریہ کیسےممکن تھااوربات بدل دی یہ تھامیرارفیق افغان۔۔
کراچی کاسمندری ساحل ہمیشہ سےبحری جہازوں کےپھنسنےکےحوالےسےاسکینڈلزکاشکاررہاہے۔۔انیس سو اٹھانوے میں بھی ایک بحری جہازکلفٹن کی ریت میں دھنس گیاتھااوربالاآخراسےتوڑکرنکالنےکافیصلہ ہوااوریہ جہازکباڑمیں پنجاب کےجس کباڑی نےخریداوہ معاہدہ میں طےشدہ نکات پرعمل نہیں کرپایاتھااوراسےدی گئی مہلت بھی ختم ہوچکی تھی بقول اس کباڑی کےوہ سمندری جواربھاٹاکادرست تعین نہ کرسکنےکی وجہ سےدی گئی مہلت میں جہازاسکریپ کرکےلیجانےمیں کامیاب نہ ہوسکاتھااس پرایف آئی اےنےاس کےخلاف کاروائی کی اوراسےگرفتارکرکےلاک اپ کردیایہاں تک تومعاملہ درست تھامگرایف آئی اےکےکچھ افسران کےدل میں یہاں پربے ایمانی آگئی انھوں نےکراچی کےکچھ کباڑیوں سےمل کرجہازخودہی اپنی نگرانی میں توڑکربیچناشروع کردیاپنجاب کےجس کباڑی کوپکڑاتھااس کےخلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرنےکی بجائےاسےلاک اپ کیاہواتھااوراس کاخریداجہازخودہی توڑکربیچاجارہاتھااوریہ سب دن دیہاڑے ہورہاتھامجھےیہ خبرملی تواس پرکام کیاجب اس کی گہرائی میں گئےتو ہوشرباانکشافات ہوئےروزانہ 50 سےزائدٹرک اسکریپ لےکرپنجاب روانہ ہوتےتھےاب مسلہ یہ تھاکہ حیران کردینےوالی اس بدعنوانی کاکوئی تحریری ثبوت نہ تھامقدمہ درج نہیں ہواتھاکسی شکایت کاکہیں اندراج نہ تھاایف آئی اےکےایک دوچھوٹےگریڈ کےکارندےکلفٹن کےساحل پرایک کنٹینرمیں بیٹھےسارادن اوررات چوری کی نگرانی کرتےتھےیہ کنٹینرسیمنٹ کےبلاکوں کے3 فٹ پلرزبناکران پررکھاگیاتھاایک پٹھان ٹھیکیدارکی نگرانی میں جہازپرلدےکروڑوں کےسامان کوسینکڑوں دیہاڑی دارمزدورخشکی پرمنتقل کرتےتھےاورجہازکےکئی منزلہ عرشہ کی توڑپھوڑبھی ساتھ جاری تھی سوہم نےاسٹوری میں رنگ بھرنےاورکچھ نہ کچھ ثبوت کےحصول کی خاطرجہازپرجاری کاروائی کی تصاویرلینےکافیصلہ کیااورامت کےاس وقت دستیاب فوٹوگرافرعرفان بھائی کولےکرساحل پرپہنچ گئےاورجونہی جہازپرجاری کاروائی کی تصاویربنائیں توکنٹینرمیں بیٹھےکارندوں نےہمیں دیکھ لیا للکارتےہوئےگالیاں بکناشروع کردیں اسی اثنامیں جہازکےعرشہ سےبھی کچھ مشٹنڈےہماری طرف بڑھنےلگےاس صورتحال کےلئےمیں پہلےہی تیارتھاسومیں نےعرفان فوٹوگرافرسےکہاکہ وہ فورن نکل لےخوش قسمتی ہماری یہ تھی کہ ہم جہازاورکنٹینرکےدرمیان تھےاس لئےفاصلہ کافی تھاپھرریتیلےساحل پرتیزی سےچلنابھی محال ہوتاہےاس لئےدونوں طرف سےہمیں گھیرنےوالوں کےپہنچ نےسےپہلےمیں نےچلاکرعرفان بھائی کوآوازدی جو اس خطرناک ماحول میں بھی ساحل پرپانی میں ماڈلنگ کرتی بھینسوں کی فلمبندی کرہےتھےمیری چیخ پرانھوں نےکیمرہ سمیٹااپنی ففٹی ہنڈااسٹارٹ کی اورنکل لئےکنٹینر والوں میں سےکچھ عرفان کی طرف بھی لپکےمگرموٹرسائکل والےکوپکڑنامشکل ہی ہوتاہےان کےفرارپروہ اورمشتعل ہوکرہماری طرف بڑھےاورہمیں گھیرکرگالیاں بکنااوردھمکیاں دیناشروع کردیں میں اس موقع پراکیلانہ تھامیرےساتھ سہیل خان بھی تھےجواپنےڈیل ڈول لمبےقد گھنی اورپھیلی موچھوں کاٹن کی سفیدشلوارقمیص سےپولیس یاایجنسی کےافسرلگتےتھےحالانکہ وہ صحافت سےہی وابستہ تھےسہیل شام کےانگریزی اخبارلیڈراورملت گجراتی کےشعبہ مارکیٹنگ سےوابستہ تھےصحافت کاشوق تھااورمیری شاگردی کادعواکرتےتھےمجھے بھی اکثران کی رعب دارشخصیت کافائدہ پہنچ تاتھاان کےحلقہ احباب کی وجہ سےان کےپاس خبریں بھی بہت ہوتی تھیں اوران کےپاس اسکوٹربھی تھاوہ رہتےبھی رتن تلائومیں تھےاس لئےصبح مجھے گھرسےلیتےاوران کےاسکوٹرپرسارادن خبریں اوران کےلئےایک آدھ اشتہارحاصل کرتے شام کووہ مجھے دفترچھوڑکراپنےآفس چلےجاتےاس دن بھی وہ میرےساتھ تھےوہ ایف آئی اےکےکارندوں سےالجھ رہےتھےاورانہیں باربار باورکروارہےتھےکہ ہم روزنامہ امت کےرپورٹرہیں مگروہ چھوٹی کلاس کےکارندےان کےاس دعوےکوکوئی اہمیت ہی نہیں دےرہےتھےجبکہ میں سہیل کو منع کرہاتھاکہ تحمل سےکام لیں ان کوجوکرناہےکرنےدیں میرےمصالحانہ سلوک پرکارندےبھی کچھ نرم پڑگئےاورہمیں ہانکتےہوئےکنٹینرمیں لے آئےکنٹینرمیں لوہےکی ایک چارپائی اوردواسٹول پڑےتھے انھوں نےمجھےایک اسٹول پربٹھایامگرسہیل کی توہین کرنےکےلئےان کوکنٹینرکےفرش پرزبردستی بٹھادیااس پرنرم احتجاج کرتےہوئےمیں بھی کرسی چھوڑکرفرش پربیٹھ گیاانھوں نےکوئی خاص تردد نہیں کیاان میں جوسینیرلگ رہاتھانےوائرلیس اٹھاکراپنےافسران سےرابطہ کیامگربات آگےبڑھانےکےدوران ہی وہ کنٹینرسےباہرنکل گیاچند منٹ بعدلوٹااورپہلی بارہمارےپریس کارڈ چیک کئےاس دوران وائرلیس اس کےہاتھ میں ہی تھااوروہ پھرباہرچلاگیادوبارہ اندرآیاتواس کےچہرےپرہوائیاں اڑرہی تھیں اصرارکرکےاس نےہم دونوں کواسٹول پربٹھایااورتھرماس جوچارپائی کےسرہانےپڑاتھاسےدوکپ چائےنکال کرپیش کی اب اس کارویہ حیرت انگیزطورپربدل چکاتھااوروہ ایسے پیش آرہاتھاجیسےہم برسوں کے بےتکلف دوست ہیں میں نےسہیل کوجوبہت غصہ میں تھاآنکھوں کےاشارہ سےسمجھایاکہ وہ خاموش رہےچائےختم کرتےہی انھوں نےپہلی بارلفظ سراستعمال کرتےہوئےکہاکہ آپ ہماری طرف سےآزاد ہیں مگرہمارےافسران آپ سےملنااورجوکچھ غلط فہمی میں ہواپرمعذرت کرناچاہتےہیں میں نےبھی ان کی تائیدکی کیونکہ میں اس جرم کی نانی تک پہنچ ناچاہتاتھاہمیں بڑےاحترام سےدوگاڑیوں میں بھرکرپاکستان بیرکس ایم پی اےہاسٹل سےمتصل ایف آئی اےکےدفترلایاگیاجہاں ایف آئی اےکےڈپٹی ڈائرکٹرسمیت افسران نےہمارااستقبال کیااورہمیں ایک بڑےکمرہ میں جوشایدڈپٹی ڈائرکٹرکاکمرہ تھالےجایاگیاوہاں ہماری تواضع مشروب سےکی گئی اورخلوص کامظاہرہ ایساکہ ہمیں خودپرشرم آنےلگی اس دوران میں نےاپنےسامنےبیٹھےافسرسےجہازکےمتعلق چندسوالات کئےتووہ پریشان ہوکربولاسرجوکچھ ہواغلط فہمی میں ہواپھروہ اپنےکارندوں کی طرف اشارہ کرکےبولاآپ کےجانےکےبعدمیں ان حرام زادوں سےجوسلوک کرونگااس کی اطلاع آپ کوبھی مل جائےگی آپ سےدرخواست ہےکہ جوکچھ ہوااسے بھول جائیں اورخبرنہ لگائیں میں نےاثبات میں سرہلادیاوہ خوش ہوکراٹھےاورمجھےگلےسےلگاکرایسے بھینچاکہ اپنےوجودکاحصہ بناناچاہتےہوں اورپھرایک صاحب کےساتھ ہمیں یہ کہ کررخصت کردیاکہ یہ آپ کوجہاں جاناہےچھوڑدینگےاورپھرمیراہاتھ دباکربولےآپ کاخیال بھی رکھیں گےہم نےبتایاکہ ہماری اسکوٹرکلفٹن پرکھڑی ہےانھوں نےوہیں چھوڑاراستےمیں پچاس ہزاردینےکی پیشکش کی جوہم نےبڑی خوش دلی سےقبول کرلی اورانھوں نےاگلےدن بعددوپھراسی دفترسےپیسےلینےکوکہا اوربولےجب تک جہازپرکام جاری رہےگاہرماہ آپ کو 50 ہزارملتےرہیں گےہم دوستانہ اندازمیں رخصت ہوئےاوراسکوٹرلےکردفترپہنچےتومعلوم ہواکہ عرفان صاحب توابھی آئےہی نہیں جبکہ ہم ایف آئی اے افسران کےبدلے رویہ کودفترکی طرف سےڈنڈاگھمانےکاکمال سمجھ رہےتھےاس زمانےمیں لینڈ لائین فون کےعلاوہ صوتی رابطوں کاموثرذریعہ ڈی سی پیجرتھاجس پرمختصرپیغام بھیجاجاتااورمذکورہ شخص پھر پی ٹی سی ایل یابنفس نفیس رابطہ کرلیتاتھاعرفان کوپیجرکرکےبلوایااوران سےاستفسارکیاتووہ بڑی سادگی سےبولےمیں سمجھامیرے بعدآپ بھی نکل لئےہونگےاس لئےکسی کوبتایاہی نہیں اورپھرمجھےتصاویربھی تودھلوانی تھیں یوں ہم ان کی سادگی پرسرپیٹ کررہ گئےواقعہ کی خبربناہی رہاتھاکہ رفیق صاحب کی دفترآمدکابگل بجابگل سےمرادانکےگارڈباقی کی دھماکہ دارانٹری ہوتی تھی جسےہم نےبگل بجنےکانام دیاہواتھاباقی بھی الگ ہی مزاج کابندہ تھارفیق صاحب کاانتہائی وفاداراورجانثاروہ ہروقت کلاشنکوف تھامےاوراس کی گولیوں کےدوبیلٹ ایک گلےمیں دوسراکمرسےلپیٹےکھلےشلوارقمیص اورسرپرسیکوریٹی والی ٹوپی سجائےوہ گارڈکم میدان جنگ کےاگلےمورچہ کاسپاہی زیادہ لگتاتھاسرخ رنگت اورافغانی طرزکی اردوبولتامزاجاًہروقت مرنےمارنےپرتلارہتاوہ رفیق صاحب کےساتھ سائےکی طرح چپکارہتااوران کاانتہائی قابل اعتمادسپاہی تھادفترکےاکثرلوگ اس سےکتراتےتھےکہ وہ بات بےبات بھڑک اٹھتاتھامگرمجھ سےاس کاپہلےدن سےخلوص کارشتہ قائم تھااسےدفترکےکسی ساتھی نےدن میں پیش آئےواقعہ کےمتعلق بتایاتووہ رفیق صاحب کےعلم میں لے آیااوریوں ابھی میں خبربناہی رہاتھاکہ باقی نےرفیق صاحب کاپیغام دیامیں رفیق صاحب کےکمرہ میں داخل ہواتووہ اپنی کرسی سےکھڑےہوگئےمجھےگلےسےلگایامیں نےمحسوس کرلیاکہ غصہ سےان کاجسم کانپ رہاہےجھٹ سےبولےآپ ٹھیک توہیں کوئی تشدد وغیرہ تونہیں کیاان لوگوں نےپھرانھوں نےپوراواقعہ سنااورحسب عادت بولےآپ خبرفائل کریں ان کومیں دیکھتاہوں پھرجونہی میں اپنی ٹیبل پرآکرخبربنانےلگاتوطاہرنورجونیوزایڈیٹرتھےاورمیرے سامنےبڑی نیوزڈیسک پربیٹھتےتھےمسکراکربولےکیاتیرمارلائےآج آپ رفیق صاحب کہ رہےہیں لیڈ آغاکی ہوگی الغرض وہ مشکل ترین حالات میں بھی خبرپرکوئی سمجھوتہ نہیں کرتےتھےاوراخبارکامعیاران کی زندگی کاسب سےبڑامشن ہوتاتھااگلی صبح کےامت نےجوکھلبلی مچائی وہ اپنی جگہ مگریہ سن کردل کواطمنان ہواکہ ساحل سمندرپربدتہذیبی کرنےوالےایف آئی اےکےاہلکارنہ صرف معطل ہوگئےہیں بلکہ اسلام آباد سےتحقیقاتی ٹیم کراچی پہنچ رہی ہےاورپھر چندروزبعداس گھپلےمیں ملوث چھوٹےبڑےافسران قانون کےشکنجےمیں تھےکوئی معطل ہواکچھ کےدوردرازتبادلے ہوئےاورکچھ پکڑےبھی گئےاس ساری تمہید کامقصد یہ بتاناہےکہ اس پوری کاروائی کاسہرارفیق افغان صاحب کوجاتاہےجوہمارے ساتھ بدسلوکی کرنےوالوں کامسلسل پیچھاکرتےرہےاوروقتاًفوقتاًہمیں بتاتےبھی رہےورنہ اتنےکامیاب ادارہ کےمعروف چیف ایڈیٹرکوکیاپڑی کہ اپنےملازمیں کی بےعزتی کابدلہ لیتاپھرےیہاں تومثل مشہورہے”رات گئی،بات گئی“ ،،جاری ہے۔(آغا خالد)