تحریر: افضل رحمان۔۔
ریڈیو پاکستان لاہور میں ایک میوزک ریسرچ سیل ہے۔ حال ہی میں ریڈیو پاکستان کے نئے ڈائریکٹر جنرل نے اس سیل کا دورہ کیا اور معمول کی ہدایات بھی دیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک اچھی پیش رفت تھی کہ محکمے کے سربراہ نے ایک ایسے کام میں دلچسپی کا اظہار کیا جو برسوں سے نظر انداز چلا آ رہا تھا۔ اس میوزک ریسرچ سیل کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ سیل اسلام آباد میں قائم ہوا تھا اور فیض احمد فیضؔ اس کے نگران مقرر ہوئے تھے۔ پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں‘ فیض صاحب تو ظاہر ہے کہ فارغ کر دیے گئے‘ ساتھ ہی اس سیل کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا۔ ریڈیو کے سابق ڈائریکٹر جنرل جناب سلیم گیلانی اُن دنوں ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ اگرچہ ریڈیو کے حوالے سے اُن کی لاتعداد خدمات ہیں مگر موسیقی کے ضمن میں انہوں نے جو کچھ کیا‘ وہ بے مثال ہے۔ مہدی حسن کو مہدی حسن بنانے والے سلیم گیلانی ہی تھے اس بات کا اعتراف خود مہدی حسن اپنے کئی انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ ریشماں کو متعارف کرانے والے بھی وہی تھے۔ موسیقی کے جتنے فنکاروں کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملا اُن میں سے بیشتر کی citation گیلانی صاحب کی تحریر کردہ ہیں۔ وہ غالباً ریڈیو پاکستان کے واحد افسر تھے جن کو بھارت میں بھی موسیقی کی خدمت کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ گیلانی صاحب کو جب معلوم ہوا کہ میوزک ریسرچ سیل خطرے میں ہے تو انہوں نے متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے پیشکش کی کہ وہ اس سیل کو لاہور لے جائیں گے اور اس کے اخراجات وہ لاہور ریڈیو کے بجٹ میں سے ہی پورے کر لیں گے۔ دراصل اس سیل کے اخراجات ہی اسلام آباد میں مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ اس لیے اُن کی یہ تجویز مان لی گئی اور یہ سیل لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔
ریڈیو پاکستان لاہور کی بیسمنٹ میں ریڈیو کی لائبریری ہوتی تھی۔ اس لائبریری میں بڑی اہم اور نادر کتب موجود تھیں۔ آج اس کی کیا حالت ہے‘ اس پر پھر کبھی بات کروں گا۔ بہرحال گیلانی صاحب نے بیسمنٹ کے برابر میں ریڈیو کا ایک کمرہ خالی کرایا اور لائبریری کو بڑی احتیاط سے وہاں منتقل کر کے بیسمنٹ خالی کروالی اور پھر اسلام آباد سے مرحلہ وار میوزک ریسرچ سیل وہاں منتقل ہونا شروع ہو گیا۔ ایک شیخ صاحب ہوتے تھے‘ وہ اسلام آباد میں اس سیل کے انچارج تھے وہ بھی لاہور آ گئے اور اپنی نگرانی میں یہ ساری منتقلی کراتے رہے۔ سلیم گیلانی صاحب نے لاہور ریڈیو میں موسیقی کے حوالے سے نادر ریکارڈ موجود تھا‘ وہ بھی شیخ صاحب کی تحویل میں دے دیا اور وہ بھی میوزک ریسرچ سیل کا حصہ بن گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ برصغیر کے بیشتر اہم گانے والوں کی آوازیں یہاں محفوظ تھیں۔ اُن کے سوانحی خاکے‘ جن کو ماہرین نے تحقیق کر کے تحریر کیا تھا‘ وہ بھی موجود تھے۔ فنکاروں کی تصویریں اتنی تعداد میں تھیں کہ دیواروں پر آویزاں کرنے کے باوجود کئی البم بنانے پڑے جن میں وہ تصویریں رکھی گئی تھیں۔ موسیقی سے متعلق جو شخصیت بھی ریڈیو لاہور آتی‘ اُس کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس سیل کا دورہ ضرور کرے۔ پھر وہاں جا کر فرمائشیں بھی کی جاتی تھیں کہ ہمیں فلاں فنکار کی آواز سنوائی جائے۔ یہ سیل کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے واقعی ایک خزانے کی حیثیت رکھتا تھا۔
شہرت یافتہ موسیقی کے فنکاروں کے ساز بھی یہ سیل حاصل کر لیتا تھا۔ اکثر ساز اُن فنکاروں کے ہوتے تھے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتے تھے۔ اُن فنکاروں کے لواحقین کو قائل کیا جاتا تھا کہ مرحوم فنکار کا ساز یہاں رہے گا تو محفوظ بھی رہے گا اور فنکار کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جاتا رہے گا۔ مثال کے طور پر استاد محمد شریف خان پونچھ والے ستار کے علاوہ ایک ساز ”چتروینا‘‘ پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں پورے برصغیر میں معروف تھے۔ اُن کے انتقال پر اُن کی چتروینا اس سیل کی زینت بن گئی تھی۔ سلیم گیلانی صاحب جب تک ریڈیو کے ڈی جی رہے‘ اس سیل کی مکمل حفاظت ہوا کرتی تھی۔ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شیخ صاحب نے اس سیل کو سنبھالے رکھا۔ پھر شیخ صاحب کا انتقال ہو گیا تو اس سیل کا کوئی والی وارث نہ رہا۔ اسّی کی دہائی میں جب میں وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں کام کرتا تھا تو ہمارے سروس چیف ڈاکٹر برائن سلور تھے۔ ڈاکٹر سلور نہ صرف اردو زبان بول لیتے تھے بلکہ ستار بجانا بھی جانتے تھے۔ وہ بھی اپنے دورۂ پاکستان کے دوران اس سیل کو ضرور دیکھنے آتے تھے اور اس سے بہت متاثر تھے۔
موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی پسند کی موسیقی کسی صورت میں بھی اُن کے پاس موجود ہو۔ اس کے لیے وہ رقم بھی خرچ کرتے ہیں۔ کسی پر الزام لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ اس لیے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں‘ اس سے آپ بات سمجھ جائیں گے۔ لاہور کے ایک انٹرنیشنل ہوٹل میں ایک تقریب ہو رہی تھی‘ جس کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ اس ہوٹل کے منیجر نے مجھے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ ریکارڈنگ ختم کر لیں تو ہوٹل کے مالک آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں فنکشن ختم ہونے کے بعد ان سے ملا تو وہ کہنے لگے: مجھے ایک انجینئر کی ضرورت ہے‘ میں چاہتا ہوں کہ موسیقی کے جو پرانے ریکارڈ ہیں‘ اُن کو وہ کیسٹوں پر منتقل کر دے۔ پرانے ریکارڈ عام طور پر ”ہز ماسٹر وائس‘‘ کی مشین پر چلتے تھے۔ ایک زمانے تک موسیقی انہی ریکارڈوں پر ریکارڈ کی جاتی تھی پھر ان کی نقلیں بازار میں فروخت ہوتی تھیں۔ ریڈیو میں بھی میوزک انہی ریکارڈوں پر چلایا جاتا تھا۔ پھر زمانہ بدل گیا تو کیسٹوں کا دور آ گیا۔ میں نے ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ آپ کے پاس پرانے ریکارڈ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا آپ ایک عرصے سے انہیں جمع کررہے تھے؟ وہ بولے: نہیں! آپ ہی کے محکمے کے ایک افسر نے مجھے کچھ ریکارڈز فروخت کیے ہیں۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی تو وہ کہنے لگے: وہ کہہ رہے تھے کہ اب یہ ہمارے کسی کام کے نہیں رہے۔ اس ہوٹل کے مالک کو پرانے گانوں کا شوق تھا‘ سو اُس نے وہ ریکارڈ خرید لیے۔
آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسی باتیں دبا دی جاتی ہیں کہ محکمے کی بے عزتی ہوگی۔ گویا ریکارڈوں کا ایک نادر ذخیرہ تھوڑے سے فائدے کے لیے ضائع کر دیا گیا۔ یہی کام میوزک ریسرچ سیل کے ساتھ بھی ہوا جب اس کا کوئی والی وارث نہ رہا۔ سلیم گیلانی صاحب جب ریٹائر ہو گئے تھے تو اُن کی خواہش تھی کہ اُن کو اس سیل کا نگران بنا دیا جائے حالانکہ جس منصب سے وہ ریٹائر ہوئے تھے‘ یہ تعیناتی اُن کے لیے بالکل موزوں نہیں تھی لیکن وہ اپنے شوق اور نادر موسیقی کو محفوظ کرنے کی خاطر تیار تھے مگر وہ اس تعیناتی کے لیے کسی سے بات کرتے‘ یہ اُن کو قبول نہ تھا۔ اُن کی خواہش اربابِ اختیار تک کچھ ریٹائرڈ ملازمین کی وساطت سے پہنچ بھی گئی مگر پذیرائی نہیں ہو سکی۔
ہماری ایک ساتھی ہوتی تھیں ‘جو پنجابی کی شاعرہ بھی تھیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ایک نغمہ لکھا جو اُس دور کے ریڈیو کے ڈی جی مرتضیٰ سولنگی کو بہت پسند آیا تھا ۔انہوں نے ان موصوفہ کو کنٹریکٹ پر میوزک ریسرچ سیل کا انچارج بنا دیا۔ بلاشبہ ان محترمہ کے خلوص میں کوئی شک نہیں تھا لیکن ان کو موسیقی کی الف ب تک معلوم نہ تھی۔ اس لیے میوزک ریسرچ سیل ایک طرح سے بے آسرا ہی رہا۔ اب اس سیل میں جو میٹریل رہ گیا ہے‘ جب یہ سیل اپنے عروج پر تھا‘ اس کے مقابلے میں شاید آدھے سے بھی کم ہو۔ نئے ڈی جی اگر اس طرف توجہ دینے میں سنجیدہ ہیں تو اُن کو سب سے پہلے موسیقی شناس کسی شخص کو اس سیل کا نگران مقرر کر کے مناسب فنڈنگ مختص کرنی چاہیے۔ ممکن ہے اس طرح کچھ عرصے بعد اس سیل کی قسمت بدل جائے۔ عرض ہے کہ میں بھی موسیقی شناس نہیں ہوں‘ اس لیے اس تجویز کو میری کسی خواہش پر محمول نہ کیا جائے۔۔(بشکریہ دنیانیوز)