تحریر: افضل رحمان۔۔
سوشل میڈیا ایک انقلاب کی شکل میں آیا ہے۔ لوگ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی کامیابی کو سوشل میڈیا کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کی بریگزٹ نامی مہم کی کامیابی کو بھی سوشل میڈیا کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ ان باتوں پر تبصرے سے میں گریز کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ریڈیو میں ذہن سازی کے لیے ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ ریڈیو‘ جیسا کہ سب کو معلوم ہے شروع ہی سے سرکار کے کنٹرول میں رہا ہے۔ اس ادارے کو بھٹو دور میں کارپوریشن بنا دیا گیا تھا مگر یہ سرکار کی ملکیت کارپوریشن تھی۔ مقصد صرف ملازمین کی تنخواہوں کو ٹیلی وژن کارپوریشن کے ملازمین کی تنخواہوں کے برابر لانا تھا۔
حکومت کو شروع ہی سے بے بنیاد خوف لاحق رہا کہ حکومت کے خلاف اگر ریڈیو سے کچھ نشر ہو گیا تو حکومت کمزور ہو جائے گی۔ اس کا پہلا اہم مظاہرہ جو میرے علم میں آیا‘ وہ یہ تھا کہ قائداعظم کی برسی کے موقع پر ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کو سنسر کر دیا گیا اور سنسر بھی دھوکے سے کیا گیا۔ پہلے تو مسودہ دیکھ کر گزارش کی گئی کہ حکومت کے بارے میں جوچند منفی جملے ہیں‘ وہ نکال دیں مگر محترمہ فاطمہ جناح نے انکار کر دیا۔ تقریر ریکارڈ ہو گئی؛ تاہم جب نشر ہوئی تو اس میں سے وہ جملے غائب تھے۔ کے ایچ خورشید اُن دنوں مادرِ ملت کے سیکرٹری ہوا کرتے تھے‘ مجھے یہ بات خود اُن سے معلوم ہوئی تھی۔
ہوا یہ تھا کہ ریڈیو پاکستان کے تحت چلنے والے آزاد کشمیر ریڈیو مظفر آباد سے ہمیں درخواست موصول ہوئی کہ وہ ریڈیو کی سالگرہ منا رہے ہیں اور اس کے لیے انہیں آزاد کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید کا پیغام درکار ہے۔ میں خورشید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ریس کورس روڈ لاہور پر رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو نہیں معلوم ہم لوگوں نے ریڈیو پاکستان کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے؟ ہم لوگوں سے اُن کی مراد مادرِ ملت اور وہ خود تھے۔ پھر انہوں نے یہ سارا واقعہ سنایا اور بتایا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے اس واقعے کے بعد کبھی ریڈیو پر کوئی تقریر نشر نہیں کی نہ کوئی انٹرویو دیا ہے۔ پھر کہا کہ اُن کے ساتھ خود انہوں نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اس لیے وہ اس بات پر قائم ہیں۔ یہ پیغام ہم نے آزاد کشمیر ریڈیو مظفر آباد بھجوا دیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ خورشید صاحب سے کہیں کہ انہوں نے آزاد کشمیر ریڈیو کا تو بائیکاٹ نہیں کیا ہوا۔ یہ دلیل جب میں نے اُن تک پہنچائی تو وہ ہنسنے لگے اور پیغام ریکارڈ کرانے پر مان گئے۔ یوں انہوں نے ایک مختصر پیغام ریکارڈ کروا دیا جو آزاد کشمیر ریڈیو مظفر آباد کی سالگرہ کے موقع پر نشر بھی ہوا۔ آپ خود اندازہ کریں کہ جس محکمے میں سنسر شپ کا آغاز اس طرح ہوا ہو‘ اس کے بعد وہاں کیا حالت ہوئی ہو گی۔ اپوزیشن کی خبریں ریڈیو پر بالکل نہیں دی جاتی تھیں۔ یحییٰ خان کے دور میں جب جنرل شیر علی وزیر اطلاعات تھے تو ذوالفقار علی بھٹو نے کسی جلسے میں اس سنسر شپ کا مذاق اڑایا‘ اس پر جنرل شیر علی نے اپوزیشن کی تھوڑی بہت خبریں دینے کا حکم جاری کیا۔ یہی صورتحال خود بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں بھی رہی۔
1977ء میں جب الیکشن مہم جاری تھی تو ریڈیو سے روزانہ پندرہ منٹ کی الیکشن رپورٹ نشر ہوتی تھی۔ اس میں پہلے دس منٹ تو بھٹو صاحب کی مختلف جلسوں میں تقریروں کے اقتباسات اُن کی اپنی آواز میں نشر ہوتے تھے جبکہ باقی پانچ منٹ پاکستان قومی اتحاد کے مختلف جلسوں کا احوال‘ جو شعبۂ خبر لکھ کر بھجواتا تھا‘ اناؤنسر سے پڑھوا دیا جاتا تھا۔ اس پورے الیکشن میں قومی اتحاد کے کسی رہنما کی آواز ریڈیو پر نشر نہ ہوئی۔ بی بی سی کو اس کا فائدہ ہوا اور وہ کھل کر کوریج کر رہا تھا۔ اُس کے سامعین کی تعداد میں اُن دنوں از حد اضافہ ہوا تھا۔
قوم کا اخلاق درست کرنے اور مذہبی پروگرام تو ریڈیو سے شروع ہی سے نشر ہوتے تھے‘ ایوب خان کے زمانے میں صبح کے وقت ”قرآنِ حکیم اور ہماری زندگی‘‘ کے عنوان سے روزانہ ایک پروگرام نشر ہوتا تھا مگر احتیاط یہ کی جاتی تھی کہ کوئی ایسا بیان نشر نہ ہو جائے جو حکومت وقت کے خلاف جاتا ہو۔ ان پروگراموں کا کلائمکس ضیاء الحق کے دور میں ہوا جب انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے قوم کا رخ قبلے کی طرف کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس ضمن میں جتنی کوششیں ہوئیں‘ اگر اُن کو لکھنا شروع کروں تو کالم نہیں ایک کتاب بن جائے، بہرحال اتنا سمجھ لیں کہ بچوں کا پروگرام ہو، خواتین کا پروگرام ہو، مزدوروں کا پروگرام ہو، کسانوں کا پروگرام ہو، ادبی پروگرام ہو، مشاعرے ہوں یا کوئی اور پروگرام۔ ہر صنف کے پروگرام میں مذہب کا رنگ غالب تھا۔ ان پروگراموں کا نقطۂ عروج مخصوص ایام ہوتے تھے جب مذہبی پروگراموں، مذہبی موضوعات پر سیمیناروں اور تقاریر سمیت حمد و نعت والے مشاعروں اور نعت اور قرأت کے مقابلوں کے سوا اور کچھ نشر نہیں ہوتا تھا۔ اس دور میں جو اربابِ حل و عقد تھے اُن کو ریڈیو کے افسران مختلف اجلاسوں میں گوش گزار کرتے رہے کہ اس طرح معاشرے کو مذہب کی طرف راغب نہیں کیا جا سکتا مگر اُن کی بات پہلے بھی نہیں سنی جاتی تھی اُس دور میں بھی نہ سنی گئی۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے ذہن سازی ایک سائنس بن چکی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اگر ضیاء الحق کو میسر ہوتا تو ممکن ہے وہ اس کو استعمال کر کے کچھ نتائج بھی حاصل کر لیتے لیکن اس کے لیے بڑے ماہر پروفیشنلز کی ضرورت ہوتی ہے جو شاید ضیاء الحق کو دستیاب نہ ہو پاتے۔
موجودہ دور میں پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا بہت زور ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان اس حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ یہاں ابھی ڈیٹا کی اہمیت پوری طرح اجاگر نہیں ہو سکی۔ سیاسی جماعتوں کو تو اس کی اہمیت کا اندازہ ہے مگر عوام کا ردّعمل بہت محدود ہے۔ موبائل فون تو بہت لوگوں کے پاس ہیں اُن میں کافی تعداد انٹرنیٹ والے جدید یعنی سمارٹ فونز کی ہے مگر اکثر لوگ جس انداز میں انہیں استعمال کرتے ہیں اس سے ایسا ڈیٹا حاصل نہیں ہو پاتا کہ اس کو بروئے کار لا کر اُن کی ذہن سازی کی جا سکے۔ سیاست دانوں کو جلسوں میں پہلے بیانیہ دینا پڑتا ہے اور پھر اس کا سوشل میڈیا پر ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ جس رفتار سے ہم ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں وہ اقوام عالم میں کہیں آخری نمبروں پر ہی رکھی جائے گی۔ شاید اس میں بھی قدرت کی کوئی مصلحت ہو۔(بشکریہ دنیانیوز)