تحریر: محمد زکریا محی الدین۔۔
مضامین کے اس سلسلے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ راقم کی ذاتی رائے ہے جو گذشتہ طویل تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
اخبارات اور رسائل کے ریڈیو وہ پہلی ٹیکنیکل ترقی تھی جو میڈیا میں وقوع پذیر ہوئی۔ اس وقت ریڈیو ایک انتہائی معروف میڈیا ذریعہ کے طور پر سامنے آیا بلکہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی آل انڈیا ریڈیو موجود تھا جو ریڈیو پاکستان بن کر پاکستان کے حصے میں آیا۔ 1964 میں ٹیلیوژن کی آمد کے بعد بھی 90 کی دہائی تک ریڈیو میڈیا کا ایک اہم رکن رہا ہے کیونکہ کہ ملک کہ کونے کونے تک پہنچ رہا تھا اور اب بھی پہنچتا ہے۔ریڈیو اپنے سننے والوں کو فلمی گانوں سے لے کر ڈرامے اور فلمی پروگرام تک دلچسپی کی وسیع ورائیٹی مہیا کرتا تھا اور لوگ ریڈیو کے دیوانے تھے۔ خود میں نے اپنے کالج کے زمانے میں ریڈیو کمنٹری اور بچپن میں اپنے گھر میں حامد میاں کے یہاں سنا ہے۔ فلمی پروگرام بھی بہت سنے ہیں۔ لوگ ریڈیو کا ڈائل گھما کر ریڈیو سیلون سنا کرتے تھے جہاں سے بناکا گیت مالا آیا کرتا تھا۔اے ایم ریڈیو ٹیلیوژن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث کم سنا جانے لگا مگر 1990 کی دہائی کے آخری حسے میں ایف ایم ریڈیو نے ریڈیو پریزینٹیشن کا انداز بدل کر ریڈیو میں پھر سے جان ڈال دی۔ برانڈز کو ایک نیا میڈیا مل گیا لہذا دلچسپی لی گئی مگر ریڈیو پھر زوال پزیر ہوگیا۔ ذیل میں کچھ ان اسباب پر بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک بہت طاقتور میڈیا ایک طویل عرصہ راج کرکہ اب سسک رہا ہے۔
1: بہتر پلیٹ فارمز کی آمد
ریڈیو ایک صوتی میڈیم ہے جو اس وقت تک سننے والوں کے لئے دلچسپی کا موجب رہا جب تک ان کو پرنٹ کا بصری اور ریڈیو کا صوتی امتزاج ٹی وی کی صورت میں نہیں ملا۔ شروع میں ٹی وی ایک محدود وقت کے لئے نظر آتا تھا لہذا ریڈیو نے اپنی گرفت برقرار رکھی پھر 24 گھنٹے کی نشریات ، رنگین ٹی وی کی آمد ، ڈراموں کے عروج اور آکر میں پرائیویٹ چینلوں کی آمد نے ریڈیو کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ جس وقت تک کیبل گاؤں دیہاتوں اور قصبوں تک نہیں پہنچا تھا اس وقت تک بھی ریڈیو کو ایک بڑی کووریج والا میڈیم سمجھا جاتا تھا مگر جب ایسا ہوگیا تو ان علاقوں سے بھی ریڈیو کے سننے والے کم ہوگئے۔ پھر ایف ایم ریڈیو نے بھی اے ایم کو نقسان پہنچایا۔
2: معیار کی زوال
ریڈیو ایک انتہائی مشکل میڈیا ہے۔ اس میں آواز، اس کا ردھم اور لحجہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ قدیم داستان گوئی کے فن کا تیکنیکی ارتقاء ہے۔ریڈیو میں جیسے جیسے سننے والوں کی دلچسپی کم ہونا شروع ہوئی اس کا معیار بھی اسی طرح سے نیچے آیا۔ اس کے علاوہ دیگر میڈیا معاوضہ بھی ریڈیو سے زیادہ دے رہے تھے۔ اسی وجہ سے ریڈیو کو اچھے لکھنے والے جو ریڈیو کو سمجھتے تھے اور اچھا بولنے والے میسر آنا بند ہو گئے۔ یہ معیار کا ارتقائی زوال ہے کہ ریڈیو کو اب وہ درجہ حاصل نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ریڈیو اپنے زوال سے ارتقائی طور پر دوچار ہوا ہے۔ ہر میڈیا پلیٹ فارم کی کچھ حدود ہوتی ہیں ۔ ریڈیو آواز کے زریعہ ایک عرصہ تک ایک بڑے میڈیا پلیٹ فارم کے طور پر موجود رہا۔ زیڈ اے بخاری، محمود علی، قاضی واجد، منی باجی اور نجانے کتنے پیشہ ور اس میڈیا سے وابستہ رہے۔ مگر جیسے جیسے نئے میڈیا پلیٹ فارم سامنے آئے اس میں دلچسپی کم ہوتی گئی۔ پھر ریڈیو کو پیشہ ور قیادت بھی میسر آنا بند ہوگئی۔ موجودہ ڈی جی ایک بیوروکریٹ ہیں اور حالانکہ حکومت نے ریڈیو کو ابھی حال میں360ملین کی گرانٹ دئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر اس سے ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کا مسئلہ بھی حل کیا جائے گا۔ اس سے ریڈیو کو سننے والے کہاں سے میسر آئیں گے؟ اس کے لئے ریڈیو سے منسلک پیشہ وروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کانٹینٹ اور آواز کا مسئلہ کیسے حل کریں گے۔ ریڈیو پاکستان کے پاس کافی بڑی بڑی جگہیں ہیں۔ پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسیشن کی جانب سے ڈی جی صاحب اور وزیر اطلاعات کو ایک پریزینٹیشن دی گئی تھی جس میں ریڈیو پاکستان میں دستیاب جگہوں کو منی سینما میں تبدیل کرکہ ریڈیو کے لئے وسائل تخلیق کئے جائیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور میں افتتاح کئے جانے والے سینما کا تعلق شائد انہی مشوروں سے ہو۔بہر طور ریڈیو ایک مرد بیمار ہے اس کی صحتیابی کی امید کم ہے۔(محمد زکریا محی الدین)۔۔