تحریر: رسول بخش رئیس۔۔
ہم نے ریڈیو کے دور میں آنکھ کھولی۔ اس وقت کہ جب پورے علاقے میں ایک ہی ریڈیو سیٹ تھا۔ قاضی غلام محی الدین مقامی سکول میں استاد تھے، اور میرے بھی، اور ہمارے ہمسایوں میں سے تھے۔ وہ با رعب اور بلند قامت تھے‘ جاذبِ نظر شخصیت کے حامل ایک معتبر زمیندار۔ ایک گرنڈگ ریڈیو سیٹ ان کی ملکیت تھا۔ جہاں جاتے، وہ ریڈیو سیٹ ایک بھاری بیٹری کے ساتھ ان کا ہمسر رہتا۔ زیادہ تر وقت وہ زمینوں پر دریائے سندھ کے کنارے گزارتے تو کئی چارپائیوں کے درمیان ریڈیو سجا ہوتا۔ ارد گرد کے لوگ بھی جمع ہو جاتے۔ ہم جیسے عام دیہاتی ریڈیوسے خبریں، گانے اور مذاکرے سنتے تو حیران ہوتے کہ اس ڈبے میں سے آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں انگریز حکومت نے تقریباً پچاسی سال پہلے ریڈیو کو متعارف کرا دیا تھا۔ پہلا ریڈیو سٹیشن انیس سو پینتیس میں پشاور میں قائم ہوا، اور پھر دو سال بعد لاہور میں۔ آزادی سے قبل صرف دو ہی سٹیشن تھے۔ تیسرے کی بات اب کیا کریں، ڈھاکہ میں بھی ایک موجود تھا۔ تب صرف ہم نہیں، ساری دنیا محوِ حیرت تھی، کہ بغیر کسی تار کے سینکڑوں میل دور تک خبریں، موسیقی اور تقاریر سنائی اور سنی جا سکتی تھیں۔ برقی لہروں اور ان کے کھلی فضا میں سفر کرنے کے بارے میں سائنسی تحقیقات انیسویں صدی کے آخری حصے میں زور پکڑ چکی تھیں۔ ہمارے ہاں تو مارکونی، اٹلی کے سر پر ریڈیو ایجاد کرنے کا سہرا سجایا گیا ہے، مگر کئی سائنسدان برطانیہ اور امریکہ میں برقی لہروں کو نہ صرف دریافت کر چکے تھے، بلکہ کامیاب تجربے بھی کر لئے تھے۔ میں سائنس کو پانی ابلنے کی حد تک ہی جانتا ہوں‘ مگر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ فزکس کے تحقیقی میدان میں کئی انقلاب اس وقت تک آ چکے تھے۔ ریڈیو ایک نہیں کئی دیگر ایجادات کا مرہونِ منت ہے۔
جو بات میں کہنا چاہتا ہوں، وہ ایجادات کے بارے میں نہیں‘ ان کے ثمرات کے متعلق ہے۔ پہلا ریڈیو سٹیشن یونین کالج، نیویارک میں آج سے ایک سو سال قبل قائم ہوا، تو اسے کالج کے فٹ بال میچ پر کمنٹری اور کھیلوں کی خبریں نشر کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب امریکہ میں صنعتی ترقی عروج پر تھی، اور پہلی جنگ عظیم بھی۔ دونوں میدانوں میں ریڈیو کی افادیت بڑھی۔ جلد ہی ریڈیو نے صنعت اور تجارت کے لیے وہی کام کرنا شروع کر دیا، جو اخبارات اور رسائل کرتے تھے، یعنی اشتہارات، نئی نئی مصنوعات کے بارے میں معلومات نے آہستہ آہستہ صارفی معاشرے مغرب میں قائم کرنا شروع کر دیئے تھے۔ اخبارات اور رسائل روایتی ذریعہ ابلاغ تو رہے، اور ابھی ہیں، مگر انٹرنیٹ کے عالمی انقلاب نے ان کے مالیاتی ذرائع پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے۔ تب ریڈیو کے عام ہونے سے اخبارات کو کوئی زک نہیں پہنچی تھی۔ ریڈیو کا ہر جگہ پھیلائو تجارتی بھی تھا، مگر ہمارے جیسے ممالک میں حکومتوں کے ہاتھ میں پروپیگنڈا کا آلہ بھی۔ مغربی دنیا میں اس کا کردار مختلف تھا۔ زیادہ تر آزاد، کمرشل اور نجی کمپنیوں کے ہاتھ میں۔ شروعات ہی نجی ملکیت سے ہوئی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹیلی وژن نے دھوم مچائی، دور اور لمبے فاصلوں پہ لوگ گھروں میں ڈرامے، فلمیں اور مختلف نوع کے پروگرام دیکھنے لگے۔ شاموں کا رنگ بدلتا گیا۔ دفتروں، کارخانوں اور اپنے پیشے سے وابستہ کام نمٹانے کے بعد لوگ گھر لوٹتے، تو ٹیلی وژن کے ساتھ دل لگا کر بیٹھ جاتے۔ اکثر گھروں میں یہ معمولات ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے۔ جب ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں امریکہ پڑھنے گیا، تو تب وہاں بھی کیبل ٹیلی وژن نمودار نہیں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ جامعہ کی طرف سے جو گھر ہمیں دیئے گئے، ان کی چھت پر انٹینا نصب تھا، اور ٹیلی وژن پر چند چینلز دیکھے جا سکتے تھے‘ لیکن انیس سو اسی میں سی این این نے ایک انقلاب برپا کر دیا، اور اب کیبل پر سینکڑوں چینلز دکھائے جانے لگے۔ پروگراموں کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی گئی۔ یہ تمام انقلابات آنے کے باوجود ریڈیو کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی۔ امریکہ میں دفتروں میں اکثر لوگوں نے ریڈیو رکھا ہوتا، ہلکی پھلکی موسیقی پس منظر میں فضا میں موجود رہتی، یا کھیلوں کی کمنٹری ہوتی رہتی۔ مغرب میں اکثر لوگ گھروں سے دور نوکری کرتے ہیں، گاڑی چلاتے، ریڈیو آن رکھتے ہیں، موسم، ٹریفک کی خبریں اور اپنی پسند کی موسیقی سفر میں تر و تازہ رکھتی ہے۔
ریڈیو سے اس خاکسار کا رشتہ بہت پرانا ہے، کبھی نہیں ٹوٹا، اور مختلف انداز میں زندگی کے سفر کے ساتھ چلتا ہی رہا ہے۔ علاقے میں واحد گرنڈگ ریڈیو کبھی کبھار ڈیرے پر سجتا، تو میں بھی سکڑ کر کہیں اپنے لیے جگہ بنا لیتا۔ شام کو ریڈیو زاہدان، ایران سے اردو، ہندی میں پروگرام سنتے اور ملکی بحرانوں کے ایام میں خبروں کا انتظار رہتا۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے دوران میں کسی دور دراز علاقے کے سکول میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ گھر سے بہت دور۔ سکول گائوں سے تقریباً ایک میل دور تھا۔ وہاں بھی ریڈیو صرف مخدوم صاحب کے ڈیرے پر ہوتا تھا۔ ہمارے استادِ محترم وزیر حسن زیدی صاحب نے میری ڈیوٹی لگائی ہوتی کہ شام کی خبریں سننے کے لیے ڈیرے پر جائوں، اور پھر سب خبریں سب اساتذہ کو سنائوں۔ دشمن کے نقصانات کا ذرا مبالغے سے بیان ہوتا، تو زیدی صاحب بہت خوش ہوتے۔ جب تک جنگ جاری رہی، میں سکول اور اساتذہ کے لیے اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں خوب نبھاتا رہا۔ دل میں اس وقت خیال اٹھتا کہ کاش ایک ریڈیو میری ملکیت میں ہوتا۔ تب زندگی میں سب سے بڑی خواہش ریڈیو تھا۔ جامعہ پنجاب پہنچے تو ساتھ والے کمرے میں میرے قریبی دوست خالد صدیقی رہتے تھے۔ ہماری دوستی ابھی تک قائم ہے۔ دوستی دوستی میں میں نے ان کا ریڈیو اور موٹرسائیکل اپنی ملکیت میں لے لیا۔ موسم گرما کی تعطیلات میں وہی ریڈیو اپنے گھر بھی لے جاتا۔
پہلا ذاتی ریڈیو سیٹ میں نے امریکہ میں اکتالیس سال قبل خریدا تھا، ابھی تک میرے پاس موجود ہے، کتابوں کے ہمراہ وہ بھی میرے ساتھ واپس آیا۔ اس کے بعد ایک شارٹ ویو ریڈیو سیٹ خریدا تا کہ دور دراز کے ملکوں میں بیٹھ کر پاکستان کی خبریں سن سکوں، اس کا کیا انجام ہوا، کچھ معلوم نہیں‘ مگر کئی اور چھوٹے بڑے ریڈیو خریدے۔ وہ ابھی تک میرا ساتھ دے رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں پاکستان میں بھی ریڈیو کی واپسی ہوئی۔ پرویز مشرف صاحب کے چند اچھے کاموں، جو انہیں لے ڈوبے، میں ایک ریڈیو اور ٹیلی وژن کا نجی شعبے میں پھیلائو بھی تھا۔ ریڈیو پاکستان نے قوم اور ملک کی جو گراں قدر خدمت کی ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں، مگر جمود کا شکار ہو گیا تھا۔ اعتبار اور اعتماد حکومتی گرفت کی وجہ سے اٹھ چکا تھا۔ ملک میں ایف ایم ریڈیو کے چینلز اب سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ہر شہر میں موجود ہیں۔ گاڑی چلاتے وقت اب یہ سہولت ہمارے ہاں بھی ہمارے نصیبوں میں لکھی جا چکی ہے۔ اس سے زیادہ حیران کن ہزاروں کی تعداد میں انٹرنیٹ ریڈیو سٹیشنز ہیں۔ تقریباً 2 سال قبل معلوم ہوا کہ ریڈیو گارڈن ویب سائٹ پر دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان میں ریڈیو سن سکتے ہیں۔ اس کے لیے اب ریڈیو سیٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ فون، کمپیوٹر آپ کے پاس ہو، تو اپنی پسند کا ریڈیو پروگرام آپ جہاں بھی ہوں سن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں نے اپنے طالبعلمی کے زمانے کا امریکہ کا ریڈیو سٹیشن محفوظ کیا، اور اس کے ساتھ بی بی سی، این پی آر، جاز اور کلاسیکی موسیقی کے درجنوں سٹیشن۔ ایران کی فارسی زبان میں خبروں اور موسیقی میں پرانی دلچسپی ہے، وہ اب بھی کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل سیٹلائٹ ریڈیو تو موجود تھا، مگر اس کے لیے مخصوص سیٹ کی ضرورت پڑتی تھی، اب فقط فون یا کمپیوٹر ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا اپنا ہی جادو ہے، جو وقت کے ساتھ بڑھتا رہا ہے، سایہ ساری دنیا میں قائم ہے۔(بشکریہ دنیا)۔۔